آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے
by منیرؔ شکوہ آبادی

آنکھیں خدا نے بخشی ہیں رونے کے واسطے
دو کشتیاں ملی ہیں ڈبونے کے واسطے

عریاں چلوں میں قبر میں سونے کے واسطے
کافی ہے مجھ کو پوست بچھونے کے واسطے

کشتوں کے کھیت میں جو حضور آج ہنس پڑے
موتی کے دانے مل گئے بونے کے واسطے

نیند اڑ گئی ہے رنگ طلائی کی یاد میں
پارس کا سرمہ چاہیئے سونے کے واسطے

افسوں سے سامری کو جلاتے ہیں وصل میں
جادو جگا رہے ہیں وہ ٹونے کے واسطے

تڑپا میں خاک پر تو کیا چرخ نے کرم
بجلی گرائی میرے بچھونے کے واسطے

خوابیدگان خاک ہیں گریاں مزار پر
سوتوں کی آنکھیں کھل گئیں رونے کے واسطے

یہ گھل کے مر گیا ہوں کہ میرا کفن تمام
جالا بنا ہے قبر کے کونے کے واسطے

جینا ہے سب کو موت ہے تصویر کی طرح
نقشے جمے ہوئے ہیں نہ ہونے کے واسطے

سنگیں دلی سے چمپئی رنگوں کی ہے چمک
سنگ مہک ضرور ہے سونے کے واسطے

گویا زبان ہوں دہن روزگار میں
کیا کیا مزے ملے مجھے کھونے کے واسطے

نقش نگیں مہر مرا نقش آب ہے
پیدا ہوا ہوں نام ڈبونے کے واسطے

دانتوں کے عشق میں ہے یے اغراق لاغری
دوڑا ہوں موتیوں کے پرونے کے واسطے

چکی لگی ہے بوسۂ حسن ملیح کی
زخموں کے منہ کھلی ہیں سلونے کے واسطے

میلا ہے فرش پر تو مہ آج مے کشو
لاؤ شراب چاندنی دھونے کے واسطے

شاید کریں گے چشمۂ خورشید میں وہ غسل
شبنم چلی ہے پانی سمونے کے واسطے

اس حسن پر نمک میں عجب ہے نمود خط
دیکھا ہجوم مور سلونے کے واسطے

قاروں کا بھی خزانہ لٹا دیجئے منیرؔ
ممسک کا مال لوٹیے کھونے کے واسطے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse