Jump to content

آنکھیں

From Wikisource
آنکھیں (1955)
by سعادت حسن منٹو
319985آنکھیں1955سعادت حسن منٹو

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں۔یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کارکی ہیڈ لائیٹس ،جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے۔ آپ یہ نہ سمجھیے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنکھیں تھیں۔ ہرگز نہیں۔ میں خوبصورتی اور بدصورتی میں تمیز کرسکتا ہوں۔ لیکن معاف کیجیے گا، ان آنکھوں کے معاملے میں صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ وہ خوبصورت نہیں تھیں۔ لیکن اس کے باوجود ان میں بے پناہ کشش تھی۔

میری اور ان آنکھوں کی ملاقات ایک ہسپتال میں ہوئی۔ میں اس ہسپتال کا نام آپ کو بتانا نہیں چاہتا، اس لیے کہ اس سے میرے اس افسانے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔بس آپ یہی سمجھ لیجیے کہ ایک ہسپتال تھا، جس میں میرا ایک عزیز آپریشن کرانے کے بعد اپنی زندگی کے آخری سانس لے رہا تھا۔یوں تو میں تیمار داری کا قائل نہیں، مریضوں کے پاس جا کر ان کو دم دلاسہ دینا بھی مجھے نہیں آتا لیکن اپنی بیوی کے پیہم اصرار پر مجھے جانا پڑتا کہ میں اپنے مرنے والے عزیز کو اپنے خلوص اور محبت کا ثبوت دے سکوں۔یقین مانیے کہ مجھے سخت کوفت ہورہی تھی۔ ہسپتال کے نام ہی سے مجھے نفرت ہے، معلوم نہیں کیوں۔ شاید اس لیے کہ ایک بار بمبئی میں اپنی بوڑھی ہمسائی کو جس کی کلائی میں موچ آگئی تھی، مجھے جے جے ہسپتال میں لے جانا پڑا تھا۔ وہاں کیوژوالٹی ڈیپارٹمنٹ میں مجھے کم از کم ڈھائی گھنٹے انتظار کرنا پڑا تھا۔ وہاں میں جس آدمی سے بھی ملا، لوہے کے مانند سرد اور بے حس تھا۔

میں ان آنکھوں کا ذکر کررہا تھا جو مجھے بے حد پسند تھیں۔پسند کا معاملہ انفرادی حیثیت رکھتا ہے۔ بہت ممکن ہے اگر آپ یہ آنکھیں دیکھتے تو آپ کے دل و دماغ میں کوئی رد عمل پیدا نہ ہوتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپ سے اگر ان کے بارے میں کوئی رائے طلب کی جاتی تو آپ کہہ دیتے،’’نہایت واہیات آنکھیں ہیں۔‘‘ لیکن جب میں نے اس لڑکی کو دیکھا تو سب سے پہلے مجھے اس کی آنکھوں نے اپنی طرف متوجہ کیا۔

وہ برقع پہنے ہوئے تھی، مگر نقاب اٹھا ہوا تھا۔ اس کے ہاتھ میں دوا کی بوتل تھی اور وہ جنرل وارڈ کے برآمدے میں ایک چھوٹے سے لڑکے کے ساتھ چلی آرہی تھی۔میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں جو بڑی تھیں، نہ چھوٹی، سیاہ تھیں نہ بھوری، نیلی تھیں نہ سبز، ایک عجیب قسم کی چمک پیدا ہوئی۔ میرے قدم رک گئے۔ وہ بھی ٹھہر گئی۔ اس نے اپنے ساتھی لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور بوکھلائی ہوئی آواز میں کہا،’’تم سے چلا نہیں جاتا!‘‘ لڑکے نے اپنی کلائی چھڑائی اور تیزی سے کہا،’’چل تو رہا ہوں،تو تو اندھی ہے!‘‘

میں نے یہ سنا تو اس لڑکی کی آنکھوں کی طرف دوبارہ دیکھا۔ اس کے سارے وجود میں صرف اس کی آنکھیں ہی تھیں جو پسند آئی تھیں۔

میں آگے بڑھا اور اس کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے مجھے پلکیں نہ جھپکنے والی آنکھوں سے دیکھا اور پوچھا،’’ایکسرے کہاں لیا جاتا ہے؟‘‘ اتفاق کی بات ہے کہ ان دنوں ایکسرے ڈیپارٹمنٹ میں میرا ایک دوست کام کررہا تھا، اور میں اسی سے ملنے کے لیے آیا تھا۔ میں نے اس لڑکی سے کہا،’’آؤ، میں تمہیں وہاں لے چلتا ہوں، میں بھی ادھر ہی جارہا ہوں۔‘‘

لڑکی نے اپنے ساتھی لڑکے کا ہاتھ پکڑا اور میرے ساتھ چل پڑی۔ میں نے ڈاکٹر صادق کا پوچھا تو معلوم ہوا کہ وہ ایکسرے لینے میں مصروف ہیں۔

دروازہ بند تھا اور باہر مریضوں کی بھیڑ لگی تھی۔ میں نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ اندر سے تیز و تند آواز آئی،’’کون ہے۔۔۔ دروازہ موت ٹھوکو!‘‘ لیکن میں نے پھر دستک دی۔ دروازہ کھلا اور ڈاکٹر صادق مجھے گالی دیتے دیتے رہ گئے،’’اوہ تم ہو!‘‘

’’ہاں بھئی۔۔۔میں تم سے ملنے آیا تھا۔ دفتر میں گیا تو معلوم ہوا کہ تم یہاں ہو۔‘‘

’’آجاؤ اندر۔‘‘ میں نے لڑکی کی طرف دیکھا اور اس سے کہا،’’آؤ۔۔۔ لیکن لڑکے کو باہر ہی رہنے دو!‘‘ ڈاکٹر صادق نے ہولے سے مجھ سے پوچھا،’’کون ہے یہ؟‘‘ میں نے جواب دیا،’’معلوم نہیں کون ہے۔۔۔ ایکسرے ڈیپارٹمنٹ کا پوچھ رہی تھی۔ میں نے کہا چلو، میں لیے چلتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر صادق نے دروازہ اور زیادہ کھول دیا۔ میں اور وہ لڑکی اندر داخل ہوگئے۔

چار پانچ مریض تھے۔ ڈاکٹر صادق نے جلدی جلدی ان کی سکریننگ کی اور انھیں رخصت کیا۔ اس کے بعد کمرے میں ہم صرف دو رہ گئے۔ میں اور وہ لڑکی۔ڈاکٹر صادق نے مجھ سے پوچھا،’’انھیں کیا بیماری ہے؟‘‘ میں نے اس لڑکی سے پوچھا،’’کیا بیماری ہے تمہیں۔۔۔ ایکسرے کے لیے تم سے کس ڈاکٹر نے کہا تھا؟‘‘ اندھیرے کمرے میں لڑکی نے میری طرف دیکھا اور جواب دیا،’’ مجھے معلوم نہیں کیا بیماری ہے۔۔۔ ہمارے محلے میں ایک ڈاکٹر ہے، اس نے کہا تھا کہ ایکسرے لو۔‘‘ ڈاکٹر صادق نے اس سے کہا کہ مشین کی طرف آئے۔ وہ آگے بڑھی تو بڑے زور کے ساتھ اس سے ٹکرا گئی۔ ڈاکٹر نے تیز لہجے میں اس سے کہا،’’کیا تمہیں سجھائی نہیں دیتا۔‘‘ لڑکی خاموش رہی۔ ڈاکٹر نے اس کا برقع اتارا اور اسکرین کے پیچھے کھڑا کردیا۔ پھر اس نے سوئچ اون کیا۔ میں نے شیشے میں دیکھا تو مجھے اس کی پسلیاں نظر آئیں۔ اس کا دل بھی ایک کونے میں کالے سے دھبے کی صورت میں دھڑک رہا تھا۔

ڈاکٹر صادق پانچ چھ منٹ تک اس کی پسلیوں اور ہڈیوں کو دیکھتا رہا۔ اس کے بعد اس نے سوئچ اوف کردیا اور روشنی کرکے مجھ سے مخاطب ہوا،’’چھاتی بالکل صاف ہے۔‘‘ لڑکی نے معلوم نہیں کیا سمجھا کہ اپنی چھاتیوں پر جو کافی بڑی بڑی تھیں، دوپٹے کو درست کیا اور برقع ڈھونڈنے لگی۔برقع ایک کونے میں میز پر پڑا تھا۔ میں نے بڑھ کر اسے اٹھایا اور اسکے حوالے کردیا۔ ڈاکٹر صادق نے رپورٹ لکھی اور اس سے پوچھا،’’تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ لڑکی نے برقع اوڑھتے ہوئے جواب دیا،’’جی میرا نام۔۔۔ میرا نام حنیفہ ہے۔‘‘

’’حنیفہ!‘‘ ڈاکٹر صادق نے اس کا نام پرچی پر لکھا اور اس کو دے دی۔’’جاؤ، یہ اپنے ڈاکٹر کو دکھا دینا۔‘‘ لڑکی نے پرچی لی اور قمیص کے اندر اپنی انگیا میں اڑس لی۔جب وہ باہر نکلی تو میں غیر ارادی طور پر اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ لیکن مجھے اس کا پوری طرح احساس تھا کہ ڈاکٹر صادق نے مجھے شک کی نظروں سے دیکھا تھا۔ اسے جہاں تک میں سمجھتا ہوں، اس بات کا یقین تھا کہ اس لڑکی سے میرا تعلق ہے، حالانکہ جیسا آپ جانتے ہیں، ایسا کوئی معاملہ نہیں تھا۔۔۔ سوائے اس کے کہ مجھے اس کی آنکھیں پسند آگئی تھیں۔

میں اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ اس نے اپنے ساتھی لڑکے کی انگلی پکڑی ہوئی تھی۔ جب وہ تانگوں کے اڈے پر پہنچے تو میں نے حنیفہ سے پوچھا،’’تمہیں کہاں جانا ہے؟‘‘ اس نے ایک گلی کا نام لیا تو میں نے اس سے جھوٹ موٹ کہا،’’مجھے بھی ادھر ہی جانا ہے۔۔۔ میں تمہیں تمہارے گھر چھوڑدوں گا۔‘‘ میں نے جب اس کا ہاتھ پکڑ کر تانگے میں بٹھایا تو مجھے محسوس ہوا کہ میری آنکھیں ایکس ریز کا شیشہ بن گئی ہیں۔ مجھے اس کا گوشت پوست دکھائی نہیں دیتا تھا۔۔۔ صرف ڈھانچہ نظر آتا تھا۔۔۔ لیکن اس کی آنکھیں۔۔۔ وہ بالکل ثابت و سالم تھیں، جن میں بے پناہ کشش تھی۔میرا جی چاہتا تھا کہ اس کے ساتھ بیٹھوں لیکن یہ سوچ کر کہ کوئی دیکھ لے گا، میں نے اس کے ساتھی لڑکے کو اس کے ساتھ بٹھا دیا اور آپ اگلی نشست پر بیٹھ گیا۔

’’میں۔۔۔میں سعادت حسن منٹو ہوں۔‘‘

’’من ٹو۔۔۔ یہ من ٹو کیا ہوا؟‘‘

’’ کشمیریوں کی ایک ذات ہے۔‘‘

’’ہم بھی کشمیری ہیں۔‘‘

’’اچھا!‘‘

’’ ہم کنگ وائیس ہیں۔‘‘

میں نے مڑ کر اس سے کہا، ’’یہ تو بہت اونچی ذات ہے۔‘‘

وہ مسکرائی اور اس کی آنکھیں اور زیادہ پرکشش ہوگئیں۔

میں نے اپنی زندگی میں بے شمار خوبصورت آنکھیں دیکھی تھیں۔ لیکن وہ آنکھیں جو حنیفہ کے چہرے پر تھیں، بے حد پرکشش تھیں۔ معلوم نہیں ان میں کیا چیز تھی جو کشش کا باعث تھی۔ میں اس سے پیشتر عرض کرچکا ہوں کہ وہ قطعاً خوبصورت نہیں تھیں، لیکن اس کے باوجود میرے دل میں کھب رہی تھیں۔میں نے جسارت سے کام لیا اور اس کے بالوں کی ایک لٹ کو جو اس کے ماتھے پر لٹک کر اس کی ایک آنکھ کو ڈھانپ رہی تھی، انگلی سے اٹھایا اور اسکے سر پر چسپاں کردی۔ اس نے برا نہ مانا۔میں نے اور جسارت کی اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اس پر بھی اس نے کوئی مزاحمت نہ کی اور اپنے ساتھی لڑکے سے مخاطب ہوئی،’’تم میرا ہاتھ کیوں دبا رہے ہو؟‘‘ میں نے فوراً اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور لڑکے سے پوچھا،’’تمہارا مکان کہاں ہے؟‘‘ لڑکے نے ہاتھ کا اشارہ کیا،’’اس بازار میں!‘‘

تانگے نے ادھر کا رخ کیا، بازار میں بہت بھیڑ تھی، ٹریفک بھی معمول سے زیادہ ۔تانگہ رک رک کر چل رہا تھا۔ سڑک میں چونکہ گڑھے تھے، اس لیے زور کے دھچکے لگ رہے تھے، بار بار اس کا سر میرے کندھوں سے ٹکراتا تھا اور میرا جی چاہتا تھا کہ اسے اپنے زانو پر رکھ لوں اور اس کی آنکھیں دیکھتا رہوں۔تھوڑی دیر کے بعد ان کا گھر آگیا۔ لڑکے نے تانگے والے سے رکنے کے لیے کہا۔ جب تانگہ رکا تو وہ نیچے اترا۔ حنیفہ بیٹھی رہی۔ میں نے اس سے کہا،’’تمہارا گھر آگیا ہے!‘‘ حنیفہ نے مڑ کر میری طرف عجیب و غریب آنکھوں سے دیکھا،’’بدرو کہاں ہے؟‘‘ میں نے اس سے پوچھا،’’کون بدرو؟‘‘

’’وہ لڑکا جو میرے ساتھ تھا۔‘‘ میں نے لڑکے کی طرف دیکھا جو تانگے کے پاس ہی تھا،’’یہ کھڑا تو ہے!‘‘

’’اچھا۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے بدرو سے کہا،’’بدرو! مجھے اتار تو دو۔‘‘ بدرو نے اس کا ہاتھ پکڑا اور بڑی مشکل سے نیچے اتارا۔ میں سخت متحیر تھا۔ پچھلی نشست پر جاتے ہوئے میں نے اس لڑکے سے پوچھا،’’کیا بات ہے، یہ خود نہیں اتر سکتیں؟‘‘ بدرو نے جواب دیا،’’ جی نہیں۔۔۔ ان کی آنکھیں خراب ہیں۔۔۔ دکھائی نہیں دیتا۔‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.