Jump to content

آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں کچھ سوائے دوست

From Wikisource
آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں کچھ سوائے دوست (1937)
by شرف مجددی
324255آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں کچھ سوائے دوست1937شرف مجددی

آنکھوں کو سوجھتا ہی نہیں کچھ سوائے دوست
کانوں میں آ رہی ہے برابر صدائے دوست

کیسی وفا ستم سے بھی اس نے اٹھائے ہاتھ
رہ رہ کے یاد اب آتی ہے طرز جفائے دوست

سینے میں داغ ہائے محبت کی ہے بہار
پھولا ہے خوب یہ چمن دل کشائے دوست

دل میں مرے جگر میں مرے آنکھ میں مری
ہر جا ہے دوست اور نہیں ملتی ہے جائے دوست

مدت سے پاؤں توڑے ہوئے بیٹھے تھے شرفؔ
آخر اڑا کے لے ہی چلی اب ہوائے دوست


This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).