آنکھوں پہ وہ زلف آ رہی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھوں پہ وہ زلف آ رہی ہے
by آغا اکبرآبادی

آنکھوں پہ وہ زلف آ رہی ہے
کالی جادو جگا رہی ہے

زنجیر جو کھڑکھڑا رہی ہے
وحشت کیا غل مچا رہی ہے

لیلیٰ خاکہ اڑا رہی ہے
مجنوں کو ہوا بتا رہی ہے

زلفیں وہ پری ہلا رہی ہے
دیوانوں کی شامت آ رہی ہے

پامال خرام ہو چکے دفن
پسنے کو بس اب حنا رہی ہے

ہیں چال سے ان کی زندہ درگور
مردوں پہ قیامت آ رہی ہے

دل نے الفت سے زک اٹھائی
آنکھوں دیکھا رلا رہی ہے

گویا ہونے دے بے زبانی
کیوں میرا گلا دبا رہی ہے

آغاؔ صاحب گلی میں ان کی
اک حور تمہیں بلا رہی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse