آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے
by میر حسن دہلوی

آنکھوں میں ہیں حقیر جس تس کے
نظروں سے گر گئے ہیں ہم کس کے

دل کا ہمدم علاج مت کر اب
زخم مرہم پذیر ہیں اس کے

کون آتا ہے ایسا ہوش ربا
صبر و طاقت یہاں سے کیوں کھسکے

دیکھتی ہے یہ کس کی آنکھوں کو
کیوں کھلے ہیں یہ چشم نرگس کے

بس کہیں تھک بھی آسیائے فلک
ہو چکے سرمہ ہم تو اب پس کے

جی سے رہتے ہیں اپنے اس پہ نثار
دل سے ہوتے ہیں دوست ہم جس کے

گو نہیں اب کبھی تو اے پیارے
ہم بھی تھے یار تیری مجلس کے

تو تو خوش ہے کہ تیرے کوچہ میں
ایک تڑپا کرے اور اک سسکے

مر گئے پر بھی یہ حسنؔ نہ مندے
منتظر چشم تھے ترے کس کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse