آنکھوں میں مروت تری اے یار کہاں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھوں میں مروت تری اے یار کہاں ہے
by عبدالرحمان احسان دہلوی

آنکھوں میں مروت تری اے یار کہاں ہے
پوچھا نہ کبھو مجھ کو وہ بیمار کہاں ہے

نو خط تو ہزاروں ہیں گلستان جہاں میں
ہے صاف تو یوں تجھ سا نمودار کہاں ہے

آرام مجھے سایۂ طوبیٰ میں نہیں ہے
بتلاؤ کہ وہ سایۂ دیوار کہاں ہے

لاؤ تو لہو آج پیوں دختر رز کا
اے محتسبو دیکھو وہ مردار کہاں ہے

فرقت میں اس ابرو کی گلا کاٹوں گا اپنا
میاں دیجو اسے دم مری تلوار کہاں ہے

جن سے کہ ہو مربوط وہی تم کو ہے میمون
انسان کی صحبت تمہیں درکار کہاں ہے

دیکھوں جو تجھے خواب میں میں اے مہ کنعاں
ایسا تو مرا طالع بیدار کہاں ہے

سنتے ہی اس آواز کی کچھ ہو گئی وحشت
دیکھو تو وہ زنجیر کی جھنکار کہاں ہے

دن چھینے وو جب دیکھیو غارت گری اس کی
تب سوچیو خورشید کی دستار کہاں ہے

اس دن کے ہوں صدقے کہ تو کھینچے ہوے تلوار
یہ پوچھتا آوے وہ گنہ گار کہاں ہے

ہنستے تو ہو تم مجھ پہ ولیکن کوئی دن کو
روؤگے کہ وہ میرا گرفتار کہاں ہے

اے غم مجھے یاں اہل تعیش نے ہے گھیرا
اس بھیڑ میں تو اے مرے غم خوار کہاں ہے

جب تک کہ وہ جھانکے تھا ادھر مہر سے ہم تو
واقف ہی نہ تھے مہر پر انوار کہاں ہے

اس مہ کے سرکتے ہی یہ اندھیر ہے احساںؔ
معلوم نہیں رخنۂ دیوار کہاں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse