آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
by جگر مراد آبادی

آنکھوں میں بس کے دل میں سما کر چلے گئے
خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے

حسن ازل کی شان دکھا کر چلے گئے
اک واقعہ سا یاد دلا کر چلے گئے

چہرے تک آستین وہ لا کر چلے گئے
کیا راز تھا کہ جس کو چھپا کر چلے گئے

رگ رگ میں اس طرح وہ سما کر چلے گئے
جیسے مجھی کو مجھ سے چرا کر چلے گئے

میری حیات عشق کو دے کر جنون شوق
مجھ کو تمام ہوش بنا کر چلے گئے

سمجھا کے پستیاں مرے اوج کمال کی
اپنی بلندیاں وہ دکھا کر چلے گئے

اپنے فروغ حسن کی دکھلا کے وسعتیں
میرے حدود شوق بڑھا کر چلے گئے

ہر شے کو میری خاطر ناشاد کے لیے
آئینۂ جمال بنا کر چلے گئے

آئے تھے دل کی پیاس بجھانے کے واسطے
اک آگ سی وہ اور لگا کر چلے گئے

آئے تھے چشم شوق کی حسرت نکالنے
سر تا قدم نگاہ بنا کر چلے گئے

اب کاروبار عشق سے فرصت مجھے کہاں
کونین کا وہ درد بڑھا کر چلے گئے

شکر کرم کے ساتھ یہ شکوہ بھی ہو قبول
اپنا سا کیوں نہ مجھ کو بنا کر چلے گئے

لب تھرتھرا کے رہ گئے لیکن وہ اے جگرؔ
جاتے ہوئے نگاہ ملا کر چلے گئے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse