آنا بھی آنے والے کا افسانہ ہو گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آنا بھی آنے والے کا افسانہ ہو گیا
by انوری جہاں بیگم حجاب

آنا بھی آنے والے کا افسانہ ہو گیا
دشمن کے کہنے سننے سے کیا کیا نہ ہو گیا

کیا فیضیاب صحبت رندانہ ہو گیا
دم بھر میں شیخ ساقیٔ مے خانہ ہو گیا

سنتے ہیں بند پھر در مے خانہ ہو گیا
دور ایاغ و شغل مل افسانہ ہو گیا

ملنے کے بعد بیٹھ رہا پھیر کر نگاہ
ظالم یگانہ ہوتے ہی بیگانہ ہو گیا

اپنوں سے بھی زیادہ جو پایا نیاز مند
وہ بے نیاز اور بھی بیگانہ ہو گیا

نا آشنا رہا تو یگانہ بنا رہا
ہوتے ہی آشنا کوئی بیگانہ ہو گیا

مانا کہ مدعی سے کوئی مدعا نہ تھا
پھر کیا سبب تھا ترک جو یارانہ ہو گیا

کس طرح اپنی خانہ خرابی عیاں کرے
وہ دل جو پردے والوں کا کاشانہ ہو گیا

آنے کا وعدہ کر کے وہ ہنستے ہوئے چلے
معلوم ابھی سے لطف قدیمانہ ہو گیا

جان اس دلاوری سے ترے منچلے نے دی
مقتل میں شور ہمت مردانہ ہو گیا

پھر بھی سوال وصل کا موقع نہیں ملا
سو بار گو کلام کلیمانہ ہو گیا

وہ دل جلا تھا میں کہ تری شمع حسن پر
جل کر نثار صورت پروانہ ہو گیا

مجنوں جو بن گیا کسی لیلیٰ ادا کا میں
پھر کیا تھا نجد خود مرا ویرانہ ہو گیا

گیسو بنائے جائیے آپ اپنے شوق سے
ہو جانے دیجئے جو میں دیوانہ ہو گیا

پی لی حجابؔ ہاتھ ہی سے آج میں نے مے
چلو مرا مرے لئے پیمانہ ہو گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse