آنائی کے شیر انسان - باب 9

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

باب نہم

تیندوے

تیندوا نہ تو شریف اور نہ ہی اچھا درندہ ہے۔ یہ چھپ چھپا کر آنے والی خاموش موت کا نام ہے اور جتنا محتاط ہوتا ہے اتنا ہی خوفناک بھی۔ تیندوے کے کردار کے بارے بتانے کے لیے میں آپ کو اس تیندوے کے شکار کی مثال دیتا ہوں جسے میں نے پورے دل و جان سے شکار کیا تھا۔ جاوا اور سماٹر میں کئی برس کے قیام کے دوران میں نے کئی تیندوے شکار کیے تھے مگر یہ واحد تیندوا تھا جس کے خلاف میں نے پورے جوش و جذبے سے کام لیا۔ باقی سب تیندوے محض شکار برائے شکار کیے تھے مثلاً ایک تیندوا ربڑ کی پلانٹیشن کے اندر پایا گیا اور اسے پھندے میں پکڑ لیا گیا تھا اور دوسرا تیندوا ہانکے کے دوران نکلا تو میں نے مار لیا۔ تاہم سنگی (دریا) گنگسل کے کنارے اور اندراگری کی سرحد پر ڈجامبی علاقے کا یہ جانور بالکل ہی الگ مخلوق تھا۔

مجھے اس علاقے میں کئی ماہ قبل بھیجا گیا تھا کہ تاکہ ساگو اور ربڑ کی پلانٹیشن کے لیے سڑک بناؤں۔ ان پلانٹیشن کی بدولت یہاں کی مقامی آبادی کا معیارِ زندگی بہتر ہو رہا تھا۔ اگرچہ کام بہت زیادہ تھا مگر معاہدہ زیادہ بڑا نہیں تھا اور کام تیزی سے ہو رہا تھا۔ اس لیے عارضی قیام گاہیں بنانے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ جہاں بھی ممکن ہوتا، میں کام کے ساتھ ہی آبادی میں کسی جھونپڑے کا بندوبست کر لیتا یا پھر ہم سڑک یا دریا کے کنارے ہی کیمپ لگا لیتے۔ جنگل میں بے انتہا تعمیراتی سامان مل جاتا تھا اور کیمپ کی زندگی بذاتِ خود ایک دلچسپی تھی۔

مئی شروع ہو گیا تھا اور خشک موسم کی ابتدا ہو چلی تھی جس سے کام آسان ہو گیا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ جلد ہی ہم یہ کام پورا کر لیں گے۔ ایسے کاموں پر بظاہر کوئی رکاوٹ نہیں پیش آتی اور وقت سے پہلے ہی پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں۔ مگر اچانک ایک تیندوے نے آ کر اودھم مچا دیا۔

یہ بات ہاشم اور میرے لیے آج بھی معمہ ہے کہ اس علاقے میں تیندوا آیا کہاں سے۔ گنجان آباد جاوا میں جنگل محض کھیتوں کے درمیان کہیں کہیں بچ گئے ہیں، تیندوے کی موجودگی کا فوراً علم ہو جاتا اور سماٹرا میں یہ بات مختلف ہے کہ وہاں آج بھی جنگل بہت زیادہ ہیں اور جنگلی درندوں کو انسانی آبادیوں کا رخ کرنے کی ضرورت نہیں پیش آتی۔ تیندوے کے لیے یہ بات اور بھی زیادہ درست ہوتی ہے کہ وہ بہت بزدل اور محتاط ہوتا ہے اور اپنے ہی علاقے میں ایک جانور کو ہلاک کرنے کے لیے پورا دن بھی گھات لگا سکتا ہے۔ 19ویں صدی کے آغاز سے ذرا قبل تک محض جاوا کے تیندوے کے بارے بات ہوتی تھی اور یہ بات بھی پوری طرح ثابت نہیں کہ آیا سماٹرا میں تیندوے بھی پائے جاتے ہیں یا نہیں۔

خیر، ہمارے ضلع میں ایک رماؤ دا ان نمودار ہوا۔ ایک دن علی الصبح ہمارے کام کی جگہ کے پاس موجود بپھرے ہوئے دریا کے کنارے اس کا پتہ چلا۔ یہ دریا دراصل ایک گہری اور تیز پہاڑی ندی تھی۔ نیزوں اور کلہاڑیوں سے مسلح کئی لوگ دریا کے کنارے کھڑے تھے اور ان کے پاس چند کمزور کمپونگ گلیڈکر بھی تھے۔ یہ لوگ چلا چلا کر اور ہاتھ کے اشاروں سے دو بندوں کو کچھ دکھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہ دو بندے اس دریا میں دو پتھروں پر کھڑے کسی چیز کو دریا میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے تھے۔

میرے مزدوروں میں سے ایک نے چلا کر پوچھا کہ کیا مسئلہ ہے تو ان کے جواب میں مجھے صرف ایک لفظ سمجھ آیا، ‘رماؤ دا ان‘ ۔ ہاشم اور میں ہر ممکن تیزی سے نیچے اترے اور ان آدمیوں کے پاس جا پہنچے۔ ان میں مقامی نمبردار بھی تھا اور اس نے بتایا کہ رات کو ایک بڑا تیندوا ایک دیہاتی کے باڑے سے ایک بکری لے گیا۔ انہوں نے اس مقام تک تیندوے کے پیروں کے نشانات کا پیچھا کیا۔ یہاں پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ بکری ایک بڑے پتھر کے پاس پھنسی ہوئی پڑی تھی۔

اس جگہ دریا کے آر پار بڑے پتھر اس طرح پڑے تھے کہ چھلانگ لگا کر دریا عبور کیا جا سکتا تھا یعنی ایک قدرتی پل سمجھ لیں۔ میں نے پتھروں پر جست لگاتے ہوئے دریا عبور کیا اور تیندوے کے پگ جا کر دیکھے۔ شاید تیندوا بکری اٹھائے پتھروں پر چھلانگ لگا رہا تھا کہ بکری اس کے منہ سے چھوٹ گئی۔

یہ بکری خوب پلی ہوئی اور بڑی جسامت والی تھی اور اس کے سینگ شاندار تھے۔ اس کی گردن پر کاٹنے کا نشان تھا اور گردن کے مہرے پر بھی زخم کا نشان۔ اس کی زبان کھلے منہ سے باہر لٹک رہی تھی اور آنکھیں ہمیں گھور رہی تھیں۔ مردہ جانور کی آنکھیں ہمیشہ ہی عجیب سا تاثر دیتی ہیں۔

بکری کا مالک تھوان کی موجودگی میں چپ تھا مگر جس طرح وہ پیار سے بکری کے ساتھ بیٹھ کر اس کے سینگ اور کھروں کو بار بار چھو رہا تھا، اس سے صاف پتہ چلتا تھا کہ اس کے کیا جذبات رہے ہوں گے۔ ان غریبوں کے لیے یہی بکری ہی ان کا کل اثاثہ ہوتا ہے جو انہوں نے کسی نہ کسی ہنگامی صورتحال کے لیے بچا کر رکھا ہوتا ہے۔ اور پھر اچانک ایک روز ایسا آتا ہے کہ ان کا باڑہ خالی ہو جاتا ہے۔ خاندان کی ساری جمع پونجی غائب ہو جاتی ہے اور باڑے کے اندر داخل ہوتے اور باہر نکلتے درندے کے نشانات بتاتے ہیں کہ کیا ہوا۔

ہاشم کے ساتھ میں نے دریا کی دوسری جانب تیندوے کے نشانات کا پیچھا شروع کر دیا۔ پہاڑی ندی کا کنارہ بہت پتھریلا، سخت اور کٹا پھٹا تھا۔ جھاڑ جھنکار بہت زیادہ تھا اور جگہ جگہ بانس اور ایلیفنٹ گراس کے جھنڈ پائے جاتے تھے۔ مٹی خشک اور بھربھری تھی اور جگہ جگہ دیو ہیکل پتھر موجود تھے۔ نشانات جلد ہی غائب ہو گئے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ تیندوا آس پاس کہیں موجود ہوگا۔ شاید بانس کے جھنڈ میں یا پھر النگ النگ گھاس میں۔ تعاقب میں ناکام ہو کر ہم دریا کے کنارے کو واپس لوٹے۔

ہمارے مزدور اور کارکن سارے ہی پہاڑی پر دریا کے دوسرے کنارے جمع تھے اور کام چھوڑ کر اپنی اپنی کدالوں اور بیلچوں کے سہارے کھڑے تیندوے کے بارے باتیں کر رہے تھے۔ میرا خیال تھا کہ تیندوے سے چھٹکارا پانا معمولی کام ہوگا، سو میں نے چلا کر قلیوں کو دریا عبور کر کے اپنی سمت بلایا۔ خوب شور مچاتے اور بلند حوصلے سے یہ سب آن پہنچے۔ ان کے پاس ڈنڈے اور کلہاڑیاں بھی تھیں۔ دیہاتی بھی ان کے ساتھ اپنے کتوں کو اٹھا کر پتھروں کو پھلانگتے دریا عبور کر کے آن پہنچے۔ چند منٹ میں میرے پاس ہانکے کے لیے سو افراد جمع ہو گئے تھے۔

میں نے انہیں ہدایت کی کہ میں ندی کے بہاؤ کی سمت تین سو گز آگے جا کر ان کا انتظار کرتا ہوں۔ اس جگہ کھلا میدان تھا جو دریا کے کنارے واقع تھا۔ اگر ہانکے والے بہاؤ کی مخالف سمت سو گز جا کر ہانکا شروع کرتے اور ہاشم ان کی قطار کا خیال رکھتا تو پورا امکان تھا کہ تیندوا گھنٹے بھر میں شکار ہو جاتا۔

ضروری ہدایات اور نصحیتوں کے بعد میں ہر ممکن تیزی سے پہاڑ پر چڑھا اور مسلسل تیندوے کے حملے سے خبردار رہا کہ وہ کہیں بھی ہو سکتا تھا۔ کھانستا اور پسینے سے شرابور میں آخر منزل پر جا پہنچا۔ اس جگہ مجھے نیچے بپھرے ہوئے دریا کا بہترین نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ ہانکے والے جھاڑیوں میں غائب ہو چکے تھے۔ میرے پاس اپنی تین نالی بندوق تھی جو ہمیشہ شیروں کی وجہ سے میرے پاس ہی رہتی تھی۔ میں نے ایک اچھے حجم کے پتھر کو اپنی نشست بنایا۔ پندرہ منٹ بعد ہی مجھے ہانکے والوں کی آوازیں سنائی دینے لگ گئیں جو شور مچاتے اور درختوں اور بانسوں پر لاٹھیاں مارتے آ رہے تھے۔ میں نے اپنے نیچے گھاس کے میدان پر کڑی نظر رکھی۔ ہانکے والے ابھی کئی سو گز دور تھے مگر تجربے سے میں جانتا تھا کہ اکثر پہلی آواز سن کر ہی درندے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں۔

اچانک دور سے مجھے کتوں کی آواز آئی جو شاید تیندوے کی تازہ بو سونگھ کر بھونک رہے تھے۔ ان کی آواز سے کھائی گونج رہی تھی اور صاف لگ رہا تھا کہ انہوں نے تیندوے کا پیچھا شروع کر دیا ہے۔

عجیب بات ہے کہ جب عام شکار پر نکلتے ہوئے کتوں کو کسی بھی جانور کی بو آ جائے تو وہ اس کا پیچھا شروع کر دیتے ہیں۔ مگر کسی خاص شکار پر نکلتے ہوئے انہیں کسی جانور کی بو سنگھا دی جائے تو پھر وہ اور کسی جانور پر توجہ نہیں دیتے۔ تاہم یہ تجربہ کار کتوں کی بات ہو رہی ہے۔ پہلی بار شکار پر نکلنے والا کتا ہر جانور پر بھونکتا ہے چاہے وہ درخت پر بیٹھا مینڈک ہو، سانپ، وران یا کچھ اور۔ تاہم یہ کتے تجربہ کار تھے اور ان کے جسم پر لگے سور کی کچلیوں کے زخم اور خاردار جھاڑیوں سے گزرنے کے نشانات صاف دکھائی دیتے تھے۔ اب انہوں نے تیندوے کی بو پر بھونکنا تھا۔

تاہم یہ آواز میری سمت آتی ہوئی نہیں بلکہ مجھ سے دور اور پہاڑی کے اوپر کو جاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ یعنی تیندوا پہلو کی جانب سے بھاگنے کے چکر میں تھا۔ ہرممکن تیزی سے میں بھی اسی سمت بھاگا اور پتھروں پر چڑھتا اور جھاڑیوں کو چیرتا ہوا نکلا۔ مجھے یقین تھا کہ ہاشم بھی اسی جگہ کا رخ کر چکا ہوگا تاکہ تیندوے کے فرار سے قبل اسے شکار کر سکے۔

تاہم گولی کی آواز نہ آئی۔ میں نے سرتوڑ کوشش کی مگر چوٹی پر جب پہنچا تو ہانکے والے چند افراد بھی آ چکے تھے۔ ان کے بدن پیسنے سے لشک رہے تھے اور خراشوں سے خون بہہ رہا تھا۔ وہ لوگ افسوس سے کتوں کو تیندوے کا پیچھا کرتے دیکھ رہے تھے جو اب ہم سے مسلسل دور ہوتے جا رہے تھے۔ تیندوا بچ نکلا۔

اگلا کام تیندوے کے فرار کی راہ تلاش کرنا تھا۔ ہم نے پورے علاقے اور جھاڑیوں کو چھان مارا۔ ہاشم نے ہی یہ راہ تلاش کی۔ یہ تقریباً ناقابل شناخت تھی اور ایک کانٹے سے اس نے سنہرا بال نکالا۔ زمین خشک اور سخت تھی، سو پیروں کے نشانات ملنا ممکن نہ تھا۔

ہانکے والے یکے بعد دیگرے پہنچتے رہے۔ ان کی سانسیں پھولی اور جسم پسینے میں شرابور تھے۔ ہیجانی کیفیت میں تیندوے کے بارے بولتے اور اس کے فرار کی سمت تھوکتے رہے۔

مختلف حالات ہوتے تو میں تیندوے کا پیچھا جاری رکھتا۔ یہ درندے عموماً کافی فاصلہ طے کرتے ہیں اور جونہی وہ جنگل میں پہنچتے ہیں تو کسی درخت پر چڑھ کر چھپ جاتے ہیں اور تعاقب کرنے والوں کا انتظار کرتے ہیں۔ اگر میرے پاس وقت اور موقع ہوتا اور مجھے علم ہوتا کہ آنے والے ہفتوں میں تیندوے نے کتنی آفت بن جانا ہے تو میں پیچھا جاری رکھتا۔ مگر میں نے پہلے کبھی تیندوے کا پیچھا نہیں کیا تھا۔ میرا تجربہ محض ہانکے سے نکلنے والے تیندوے یا خود ہی بندوق کی مار میں آنے والے تیندوے کے شکار تک محدود تھا۔ مگر اس وقت میرے پاس وقت کی کمی تھی۔ اس صبح میں نے ایک چٹان کو بارود سے اڑانا تھا جو کافی مشکل کام تھا اور میں ہر ممکن جلدی سے اسے کرنا چاہتا تھا۔ مجھے یہ بھی خیال تھا کہ تیندوا رات کو اپنے شکار پر لوٹے گا تو میں وہیں اس کا انتظار کروں گا۔ اس لیے میں نے شکار کو وہیں روک دیا۔

ہم پہاڑی سے اترے، پتھروں کے ذریعے دریا کو عبور کیا اور کمپونگ کو لوٹے۔ پھر ہم نے مردہ بکری کے بارے بات کی۔ میں نے اس بکری کو اس کے مالک سے خرید لیا کہ اب اسے اس جانور سے کوئی فائدہ نہ ملنا تھا۔ اگر وہ اسے ذبح کر لیتا تو پھر گوشت کھا سکتا تھا کہ اسلامی قوانین اسے مردہ بکری کھانے سے روکتے تھے۔ موجودہ حالت میں بکری اس کے لیے بیکار تھی اور اس نے بخوشی بیچ دی۔

میں نے بکری کو واپس اسی جگہ بھجوا دیا جہاں وہ ملی تھی۔ میں نے بکری کا پیٹ چاک کر کے صاف نہیں کیا تاکہ سڑنے کا عمل تیز تر ہو سکے۔ پھر میں نے نمبردار سے کہا کہ وہ اپنے آدمیوں کو اس جگہ سے دور رکھے۔

شام چار بجے میں اس جگہ بیٹھ گیا۔ بکری میرے سامنے دریا کے دوسرے کنارے پر پڑی تھی۔ ایک جھاڑی پر بیلور لگا کر اس کا رخ جھاڑی کی جانب کر دیا گیا تھا تاکہ اندھیرا چھانے کے بعد لاش پر ہلکی سی روشنی پڑتی رہے۔ چونکہ یہاں کوئی درخت نہیں تھے، سو میں زمین پر ایک پتھر پر بیٹھا اور امید کی کہ میرے پیچھے تاریک کنارہ اور گہری تاریکی کی وجہ سے تیندوا مجھے نہ دیکھ پائے گا۔ ہاشم میری پیٹھ سے پیٹھ ملا کر بیٹھ گیا۔ مجھے شک تھا کہ تیندوا کہیں اور سے دریا عبور کر کے میرے پیچھے نہ آ جائے۔

پہاڑی ندی کے شور سے ہر آواز دب گئی تھی۔ ہمیں مچھروں نے بہت تنگ کیے رکھا اور یہ واحد جاندار تھے جو رات کو دکھائی دیے۔ تیندوا نہ آیا۔ شاید صبح ہونے والے دھماکے سے وہ ڈر گیا ہوگا جو میں نے چٹان توڑنے کے لیے کیا تھا۔

اگلے دو روز تک میں نے لاش وہیں پڑی رہنے دی اور ہر صبح اور سہ پہر جا کر دیکھتا۔ مگر تیندوے کی بجائے محض وران پیٹ بھرتے رہے۔ آخرکار میں نے اسے دفن کرا دیا۔

تین دن بعد ہم گاؤں سے کچھ فاصلے پر کام کر رہے تھے کہ مجھے کمپونگ کے نمبردار کا پیغام ملا۔ تیندوے نے پھر کمپونگ کا چکر لگایا اور تین کتے شوقیہ مار ڈالے۔ میں نے یہاں لفظ شوقیہ جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کہ تیندوا کسی بھی قیمت پر تین کتے ایک ساتھ نہیں کھا سکتا۔ شیر بھی بعض اوقات ایک سے زیادہ جانور ہلاک کرتے ہیں مگر اصولی طور پر شیر صرف اپنی بھوک مٹانے کی خاطر شکار کرتے ہیں۔ اس کے برعکس تیندوے محض شوق میں قتل کرتے ہیں۔ اگرچہ ایک جانور سے ان کا دو دن پیٹ بھر سکتا ہے، مگر یہ پورے ریوڑ کو تباہ کر دیتے ہیں۔

میں نے فوراً قلیوں کو کام جاری رکھنے کے لیے ضروری ہدایات دیں اور ہاشم کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ گاؤں میں ہمیں پہلے والا منظر دکھائی دیا۔ لوگ بیٹھ کر اس پر بات کر رہے تھے۔ کمپونگ کے نمبردار نے میری آمد کی تیاری کی ہوئی تھی۔ تیز اور تلخ کافی کا ایک بڑا برتن میز پر تیار رکھا تھا اور ساتھ چپاتیاں بھی تھیں۔

پھر مجھے بتایا گیا کہ کیا ہوا ہے۔ سارے لوگ میرے گرد کھڑے تھے۔ تیندوا نصف شب کو گاؤں داخل ہوا اور لوگوں نے اپنے مویشیوں کا شور سنا اور کتے ایک کونے میں جمع ہو گئے۔ پھر انہیں تیندوے کی غصیلی غراہٹیں سنائی دیں اور کتوں کے رونے کی آواز آئی۔ سارے گاؤں والوں نے مل کر شور مچایا۔ جب مویشی خاموش ہو گئے تو چند جیالے کلہاڑیاں اور مشعلیں اٹھا کر باہر نکلے۔ وہاں انہیں باڑے کے پاس تین کتوں کی لاشیں دکھائی دیں جن کی لاشوں کے چیتھڑے اڑے تھے۔ مردہ حالت میں بھی ان کی دمیں ٹانگوں میں دبی ہوئی تھیں۔

میں نے نمبردار کو کہا کہ وہ ہانکے کا بندوبست کرے۔ تھوڑی دیر میں پورا گاؤں جمع ہو گیا اور کتے بھی آ گئے۔ مگر کتے اپنے مردہ ساتھیوں کے پاس جانے کو تیار نہ تھے کہ ان سے ابھی تک تیندوے کی بو آ رہی تھی۔ اس دوران ہاشم نے تیندوے کے جانے کے راستے کا پیچھا کیا تھا۔ یہ راستہ عین انہی پتھروں کی جانب جا رہا تھا جہاں چند دن قبل ہم نے تیندوے کی شکار کردہ بکری پائی تھی۔

میں نے نمبردار کو ہدایت کی کہ وہ ہانکے والوں کو دریا کی دوسری جانب ہی رکھے اور جب میں کہوں تو وہ دریا عبور کر کے آئیں۔ ہاشم کے ساتھ میں تیندوے کی گزرگاہ پر چل پڑا۔ میں چاہتا تھا کہ پہلے مجھے تیندوے کی موجودگی کا کچھ اندازہ ہو جائے۔ یہ کام کافی مشکل تھا۔ زمین بہت سخت اور کٹی پھٹی تھی اور اس پر کوئی نشان نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ مگر ہم نے جلدی نہیں کی اور ہاشم نے اس کام میں اپنی مہارت دکھائی۔ اگر کہیں اس سے نشانات کھو جاتے تو واپس جا کر وہ دوبارہ دیکھتا۔ آخرکار ہم نے جان لیا کہ تیندوا النگ النگ گھاس کے کنارے چلتا ہوا پہاڑی کے دامن کو گیا ہے۔ میں نے ہاشم کو ضروری ہدایات دیں کہ وہ جا کر ہانکے والوں کو لے آئے اور انہیں دریا کے ساتھ نصف دائرے کی شکل میں جمع کرے۔ پھر وہ لوگ آگے بڑھتے ہوئے ہانکا کرتے۔ میں پہاڑی پر چڑھا اور النگ النگ سے بچ کر چلتے ہوئے میں نے مناسب جگہ کی تلاش جاری رکھی۔ پہلی بار بھی تیندوا پہاڑی پر گیا تھا، عین ممکن ہے کہ اس بار بھی وہ یہی کرتا۔

اس جگہ سے نظارہ زیادہ بہتر نہیں تھا۔ جگہ جگہ اونچی خاردار جھاڑیاں تھیں بڑے بڑے پتھر بھی عام تھے۔ میں ایک بہت اونچے پتھر پر چڑھا۔ اس جگہ مجھے یقین تھا کہ گھاس میں چلتے ہوئے تیندوے کو بہ آسانی دیکھ لوں گا۔

ہانکا شروع ہوا اور کہیں کوئی وقفہ نہ چھوڑا گیا کہ ان لوگوں نے النگ النگ کو آگ لگا دی۔ یہاں کھائی میں ہوا نہیں تھی۔ اس لیے دھوئیں کے بادل بمشکل آگے بڑھ رہے تھے۔ تاہم کھائی کے کنارے پر پہنچتے ہی ہوا شروع ہو گئی اور شعلے لپکنے لگے۔ کھائی میں ہانکے والوں کے شور کے ساتھ آگ کے شعلوں اور گھاس کے جلنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔

اچانک کتوں نے دیوانہ وار بھونکنا شروع کر دیا اور ساتھ ہی ہانکے والوں کا شور دو گنا بڑھ گیا۔ جلد ہی مجھے لفظ ‘بابی‘ سنائی دیا، کتوں نے جنگلی سور بھگایا تھا۔ چونکہ آگ کی وجہ سے انہیں تیندوے کی بو آنا بند ہو گئی تھی اس لیے انہوں نے جو جانور بھی دیکھا، اس کے پیچھے لگ گئے۔

اس وقت مجھے احساس ہوا کہ تیندوا ہم سے پھر بچ کر نکل گیا ہے۔ اگر النگ النگ میں جنگلی سور موجود ہیں تو وہاں تیندوا ہونا ممکن نہیں تھا۔ تو پھر تیندوا کہاں ہے؟ میں نے جواب تلاش کرنے کی کوشش کے ساتھ ساتھ نگرانی بھی جاری رکھی۔ تاہم یہ بیکار تھا۔ تیندوا دکھائی نہ دیا۔ گھنٹوں بعد جب آگ دوسرے سرے پر پہنچ کر بجھی اور دھوئیں کے باعث ہانکے والے کالے بھجنگ اور جھلسے ہوئے شیطان لگ رہے تھے۔ خیر دریا میں نہا دھو کر ان کا حلیہ کچھ بہتر ہوا تو شور اور قہقہوں کے بیچ اچانک میرا جذبہ شکار بیدار ہو گیا۔ یہ تیندوا یقیناً اس قابل تھا کہ اس کے شکار پر پوری توجہ دی جاتی۔

ہاشم کے ساتھ میں نے پوری سہ پہر تیندوے کی گزرگاہ کی تلاش میں گزاری مگر ناکام رہے۔ بھوک اور تھکن سے بے حال ہو کر ہم شام کے قریب واپس لوٹے اور میں نے کمپونگ پیغام بھجوا دیا کہ اگر تیندوا دوبارہ نازل ہو تو مجھے فوراً اطلاع دی جائے۔

اگلی صبح پیغام آ گیا۔ ایک لڑکا کئی خوفزدہ گائیوں کے ساتھ گاؤں پہنچا اور بتایا کہ اس نے ایک درخت پر بیٹھے تیندوے کو دیکھا ہے۔ وہ درخت کے نیچے پہنچنے والا تھا کہ گائیوں نے تیندوے کی بو سونگھ لی اور دمیں اٹھائے وہ بھاگم بھاگ گاؤں آن پہنچیں۔

ہاشم اور میں فوراً روانہ ہو گئے۔ ہم پیغامبر کے ساتھ گئے اور کمپونگ کے دائیں جانب سیدھا اسی جگہ پہنچے جہاں گایوں نے تیندوا دیکھا تھا۔ یہ جگہ دریا کے دوسرے جانب اور کمپونگ کی سمت ایک وسیع وادی میں تھی جو گھاس اور چھوٹے درختوں سے بھری ہوئی تھی۔ اس جگہ کسی چیز کو تلاش کرنا ناممکن ہوتا مگر ہمارے ہمراہی کو بخوبی علم تھا کہ اس لڑکے اور گائیوں کو کہاں تیندوا ملا تھا۔ یہ جگہ ایک چھوٹا سا راستہ تھی جہاں چند گھاس اور چند درخت تھے۔

میں اور ہاشم اس گزرگاہ کے دونوں جانب اس طرح آگے بڑھے کہ ایک دوسرے کی نظروں سے اوجھل نہ ہوں۔ ہمارا درمیانی فاصلہ سو گز سے کم رہا ہوگا۔ ہماری پیش قدمی بہت آہستہ تھی کہ ہمیں ہر راستے میں آنے والے ہر درخت کا جائزہ لینا تھا اور جھاڑیاں بھی دیکھے بنا آگے بڑھنا ممکن نہیں تھا۔ انتہائی احتیاط سے ہم آگے بڑھتے رہے اور کوشش کی کہ کم سے کم شور پیدا ہو۔

ہم لوگ اس طرح نصف گھنٹے تک بڑھتے رہے اور پھر اچانک ہاشم غائب ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ اس نے کچھ دیکھا ہوگا اور چھپ کر آگے بڑھ رہا ہوگا۔ یعنی اس نے تیندوا دیکھ لیا ہوگا۔ دس منٹ بعد وہ دوبارہ دکھائی دیا۔ تیزی سےکھڑے ہو کر اس نے اپنی بندوق شانے سے لگائی اور گولی چلا دی۔ پھر میں نے دیکھا کہ اس کی رائفل کی نال حرکت کر رہی تھی اور پھر دوسری گولی چلی۔

اب احتیاط کی ضرورت نہیں تھی۔ میں چھلانگیں لگاتا ہوا اس کی جانب دوڑا۔ ہاشم نے تیزی سے اپنی بندوق دوبارہ بھری اور تھوڑا آگے ایک درخت کی سمت بڑھا۔

اس نے مجھے بتایا کہ کیا ہوا تھا۔ جب وہ آگے بڑھ رہا تھا تو اس نے اپنی غیر معمولی سماعت کے باعث پتوں کی سرسراہٹ سنی۔ جب اس نے آواز کی جانب دیکھا تو تیس گز دور ایک درخت کے پتوں کے درمیان سنہری سی کوئی چیز دکھائی دی۔ درخت کا تنا اور شاخیں کچھ اس انداز سے تھیں کہ ہاشم گولی نہ چلا سکا اور آگے بڑھا۔ پندرہ گز آگے بڑھنے پر تیندوے نے اچانک زمین پر جست لگائی۔ ہاشم نے فوراً کھڑے ہو کر اسے دیکھا۔ ایک لمحے کے لیے ہاشم کو تیندوے کی پچھلی ٹانگیں دکھائی دیں کہ تیندوا گھاس میں گھس رہا تھا۔ اس نے گولی چلا دی۔ گھاس میں ہونے والی حرکت سے اسے تیندوے کے مقام کا اندازہ ہوتا رہا اور اس نے اندازے سے دوسری گولی بھی چلا دی۔

اس کی آنکھوں سے مایوسی جھلک رہی تھی کہ وہ نشانہ خطا کرنے کا قائل نہیں تھا۔ اس کے نشانہ خطا کرنے پر میری بھی کچھ ذمہ داری تھی۔ جب ہاشم پوانگ رمبا (شکاری) تھا تو جانوروں کا پیچھا کرتے ہوئے وہ کبھی بھی نشانہ خطا کرنے کے قابل نہیں تھا۔ اس لیے وہ شکار کے پیچھے رینگتا، چھپتا، کسی حیوانی جبلت کے تحت شکار سے چند گز کے فاصلے پر پہنچ کر گولی چلاتا اور خطا کرنے کے امکانات ہی نہ رہ جاتے۔ وہ چاہتا تو اب بھی اس طریقے کو اپنا سکتا تھا مگر اس طرح وہ کبھی ماہر نشانہ باز نہ بن پاتا کہ اسے اس کا موقع ہی نہ ملتا اور اس کی اپنی جان خطرے میں ہوتی۔ مگر جب سے اس نے یورپی شکاریوں کے ساتھ شکار کرنا شروع کیا تو اسے کبھی گولیوں یا بارود کی کمی کا مسئلہ نہیں رہا اور اس لیے وہ ہم یورپیوں کی طرح اب گولی چلاتا اور خطا بھی کرتا تھا۔

درخت پر تیندوے کے ناخنوں کے نشانات موجود تھے۔ ہاشم نے تیندوے کے فرار کی راہ پر گھاس کو دیکھا مگر کہیں بھی خون کا نشان نہ ملا۔ ایک بار پھر تیندوا ہم سے بچ کر نکل گیا تھا۔

اس طرح ہم چلتے رہے اور ہر قسم کے سوالات آتے رہے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ تیندوا ہمیں دو بار دریا کے ایک جانب ملا اور اب اچانک اس نے اپنی شکارگاہ بدل لی؟ میں نے ہاشم سے پوچھا اور اس کا جواب تھا کہ شاید دوسرے کنارے پر ہماری وجہ سے تیندوا کافی پریشان ہوا ہوگا اور شاید النگ النگ گھاس جلنے کی وجہ سے اسے کہیں اور شکار کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ ہم نے اس علاقے کو توجہ سے دیکھا۔ یہ تنگ وادی تھی جس کے تین اطراف پر اونچی پہاڑیاں تھیں جن پر خوب جھاڑیاں وغیرہ اگی ہوئی تھیں۔ ان کے پیچھے جنگل تھا۔ ہم نے مفرور تیندوے کے راستے کا پیچھا کرنے کا سوچا۔ چونکہ وہ اتنی عجلت سے اور اتنے ڈھلوان راستے سے بھاگا کہ اس کا پیچھا کرنا مشکل نہیں تھا۔ ٹوٹی شاخیں اور کچلی گھاس اور تھوڑا آگے جا کر سبزہ کم ہو گیا اور ہمیں تیندوے کے ناخنوں کے نشانات صاف دکھائی دینے لگے۔ راستہ سیدھا پہاڑیوں کو گیا۔ تیندوا ناک کی سیدھ میں بھاگتا گیا۔ اس نے گرے درختوں کو چھلانگ لگا کر عبور کیا۔

میل بھر تک اسی طرح ہم نے پیچھا جاری رکھا اور پھر ہم جنگل کے سرے پر پہنچ گئے جہاں درخت شروع ہو گئے۔ اس جگہ ہاشم زیادہ محتاط ہو گیا کہ یہاں پہنچ کر تیندوے نے کسی درخت پر محفوظ مقام تلاش کر کے ہمارا انتظار کرنا شروع کر دیا ہوگا۔ اس جگہ راستہ بھی مشکل ہو گیا تھا اور ہاشم نے ایسے راستہ تلاش کیا جیسے وہ کوئی جادوگر ہو۔ اس جگہ تیندوا زیادہ محتاط ہو کر گزرا تھا۔

یہاں پہنچ کر ہاشم نے چھوٹے چھوٹے دائروں کی شکل میں حرکت کرنا شروع کر دی اور زمین اور گھاس پر موجود ہر نشان کا بغور جائزہ لیتا۔ اس دوران میں نے درختوں کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لینا شروع کر دیا اور بندوق گولی چلانے کے لیے تیار تھی۔ اس تلاش پر بہت وقت لگا۔ دو گھنٹے بعد ہاشم نے عجیب بات بتائی کہ تیندوا دائروں میں گھوم رہا ہے۔

اس کی دو وجوہات بنتی تھیں کہ یا تو تیندوا اتنا نڈر یا پھر اتنا ناتجربہ کار تھا کہ ہم پر ہی گھات لگانا چاہ رہا تھا جو اس گھنی جھاڑیوں اور گھاس سے بھرے علاقے میں پریشان کن بات تھی۔ دوسری وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ وہ ایسے ہی دائروں میں گھوم رہا تھا۔

میں نے پہلی بار ہاشم کو الجھا دیکھا۔ بیچارے کو پتہ نہیں تھا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اس کے لیے شکار ہمیشہ انسانی ذہانت اور حیوانی فطرت کے مابین ایک باعزت مقابلہ رہا تھا۔ مگر اس وقت اس کی ذہانت ساتھ چھوڑ گئی تھی۔ اسے اس بات کا جواب نہیں مل رہا تھا کہ تیندوا آخر چاہتا کیا ہے۔

تیندوے کی حرکت کے دائرے کم ازکم بیس گز چوڑے تھے اور بتدریج بڑے ہوتے جا رہے تھے۔ شاید تیندوا ہمیں کسی چیز سے دور لے جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یا شاید وہ ہم پر ہی گھات لگانا چاہ رہا تھا۔ ہم نے سرگوشیوں میں بات کی اور فیصلہ کیا کہ اگر تیندوا ہم پر گھات لگانا چاہتا ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہی تھا کہ ہم اندرونی دائرے میں ہی رک کر اس کا انتظار کرتے۔ نصف گھنٹہ انتظار کے بعد ہم نے سیدھا بیرونی دائروں کا رخ کرتے۔ اس طرح کوئی نہ کوئی طریقہ ہمیں تیندوے کے مقابل لے آتا۔ یہ بہترین طریقہ تو نہیں تھا مگر ہمارے پاس وقت کم تھا کہ تین بج چکے تھے۔

ہم نے گھنی جھاڑیوں میں کمین گاہ تلاش کی۔ درخت پر چڑھنا خطرناک ہوتا کیونکہ تیندوا زیادہ آسانی سے ہمیں دیکھ سکتا تھا۔

ہم نے تنے ہوئے اعصاب اور حسوں کے ساتھ مسلسل نگران رہے۔ ہوا رکی ہوئی تھی۔ سورج کی گرمی سے اطراف سے گرم ہوا اٹھ رہی تھی۔ آسمان پر بہت بلندی پر گدھ اڑ رہا تھا۔ ایک گھنٹے بعد ہم ان جھاڑیوں سے بغیر شور کیے ایک دیمک کے ٹیلے کو رینگتے ہوئے گئے جو اس مقام سے سو گز دور تھا اور ایک بنجر کھیت کے کنارے پر تھا۔

ابھی ہم نے نصف فاصلہ طے کیا ہوگا کہ اچانک شور سے ہم رک گئے۔ یہ آواز انتہائی مدھم اور پتوں کی سرسراہٹ تھی۔ اچانک پھر خاموشی چھا گئی اور ہمیں وہم گزرا کہ آیا یہ آواز تھی بھی کہ نہیں۔ ہاشم نے زمین پر بیٹھ کر سامنے کا بغور جائزہ لیا۔ پھر وہ چند گز آگے بڑھا اور پھر معائنہ کیا۔ آخرکار اس نے ہاتھ ہلایا۔ اس نے کوئی چیز دیکھ لی تھی۔ میں بھی انتہائی احتیاط سے جھک کر اس کے پاس پہنچ کر بیٹھ گیا۔ اس نے میرے کان میں سرگوشی کی کہ ہمیں کیا کرنا ہوگا۔ تپتی زمین پر سورج کی چندھیا دینے والی روشنی اور گرمی سے سارا منظر جیسے پانی میں تیر رہا ہو۔ مجھے کچھ وقت لگا پھر جا کر میں نے دیکھا کہ ڈیڑھ سو گز دور ایک چھوٹے درخت پر کوئی چیز موجود تھی۔

ہم نے ہوا کا رخ جانچا تو وہ موافق نہیں تھا۔ ہلکی سی ہوا ہم سے درخت کی سمت جا رہی تھی۔ ہاشم نے ساری صورتحال کو بھانپ کر آگے بڑھنا شروع کر دیا۔ مجھے علم تھا کہ اس نے کیا سوچا ہے۔ ہم ہر ممکن تیزی سے جنگل کے سرے پر پہنچنے کی کوشش کرتے اور وہاں جھاڑیوں کی اوٹ میں رہتے ہوئے اس درخت کو جاتے۔ پھر آخری پچاس گز سیدھا اس درخت کی سمت رینگ کر طے کرتے۔ اُس جگہ سارا علاقہ جھاڑیوں سے بھرا ہوا تھا مگر وہاں رینگ کر ہی جانا پڑتا۔ اس کے علاوہ جنگل سے اس درخت تک ہوا کا رخ ہمارے موافق ہوتا۔

ایک ایک گز کر کے ہم جھکے ہوئے جنگل کے کنارے تک پہنچے۔ یہ کام بہت تھکا دینے والا تھا۔ تیندوے کی موجودگی جاننے کے لیے ہاشم نے مسلسل درخت پر بھی نظر رکھی۔

بہت دیر تک رینگنے کے بعد ہم جنگل کو پہنچے اور پھر ہماری پیش قدمی تیز ہو گئی۔ مگر پھر بھی ہمیں بالکل خاموشی سے آگے بڑھنا تھا۔ ہاشم نے گھنی جھاڑیوں میں انتہائی مہارت سے پیش قدمی جاری رکھی۔ آدھے گھنٹے بعد اس نے مجھے اشارہ کیا کہ اب کھلے کا رخ کرنا ہے۔

اب یہاں پہنچ کر ایک مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ اس جگہ جھاڑیاں بہت کم تھیں۔ تیندوا ہمیں لازمی دیکھ لیتا۔ ہم نے اسے واضح طور پر دیکھا۔ اس کی دم نیچے لٹکی ہوئی اور سر اگلے پنجوں پر ٹکا ہوا تھا۔ بظاہر وہ سو رہا تھا۔ یہاں سے اس کا فاصلہ ساٹھ گز ہوگا۔ اگر شاخیں درمیان میں نہ آ رہی ہوتیں تو میں گولی چلا دیتا۔ اس تیندوے نے پہلے ہی ہمارے تین دن ضائع کرا دیے تھے اور اب میں ہر قیمت پر کمپونگ کو اس سے نجات دلانا چاہتا تھا۔

اگر میں ہاشم کو اپنی بندوق دے کر اسے تیندوے کی جانب چھپ چھپا کر جانے کا کہتا تو وہ یہ کام اکیلے بخوبی سر انجام دے سکتا تھا۔ اگر ضرورت پڑتی تو میں اس کی دو نالی بندوق سے تیندوے پر گولی چلا سکتا تھا۔ ہاشم گھات لگانے کا ماہر تھا اور اس کی کامیابی کے امکانات میری نسبت زیادہ تھے۔

میں نے اس کے کان میں سرگوشی کر کے یہ بات بتائی تو اس کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ ہم نے ایک دوسرے سے بندوقیں بدلیں اور میں نے اس کے کندھے پر تھپکی دے کر اسے بھیجا۔ اس کا پتلا جسم کسی سانپ کی طرح بل کھاتا ایک جھاڑی سے دوسری اور گھاس کے ایک جھنڈ سے دوسرے کی طرف جاتا دکھائی دیا۔ جلد ہی وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا اور میری پوری توجہ تیندوے پر مرکوز ہو گئی۔

ابھی تک تیندوے کو خطرے کا شبہ بھی نہیں ہوا تھا۔ شاخ پر وہ بے حرکت لیٹا رہا اور پتوں سے چھنتی دھوپ اس پر پڑتی رہی۔

ہاشم کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ کوئی پتہ یا شاخ ہلتی نہیں دکھائی کہ ہاشم کی موجودگی کا علم ہو پاتا۔ میں نے انتہائی ہیجان کی حالت میں انتظار جاری رکھا اور خیالوں میں اس کے ساتھ رہا کہ وہ کیسے غیر انسانی مہارت سے چھپتا چھپاتا تیندوے کی سمت جا رہا ہوگا۔ تیندوے کو اس کی آمد کی خبر بھی نہیں ہو سکے گی۔ وہ ہاتھوں اور پیروں پر رینگتا ہوا جا رہا ہوگا کہ اگر اس کا پیٹ زمین سے لگتا تو شاید کوئی آواز پیدا ہوتی۔ یہ کام انتہائی مہارت کا متقاضی تھا۔

ایسا لگا جیسے وقت تھم گیا ہو۔ منٹوں پر منٹ گزرتے گئے مگر کچھ بھی دکھائی یا سنائی نہ دیا۔ تیندوا اسی طرح بے حس و حرکت شاخ پر سوتا رہا۔

اچانک میری اپنی تین نالی بندوق کے دھماکے سے میں چونک پڑا، حالانکہ اس آواز کو کتنی دیر سے سننے کا منتظر تھا۔

شاخ پر ہلکی سی تھرتھراہٹ دکھائی دی اور پھر وہ جسم آہستگی سے پھسل کر زمین پر گرا۔ میں اچھل کر کھڑا ہوا اور ہاشم جھاڑیوں سے نمودار ہوا۔ میں نے دوڑ کر ہاشم کو مبارکباد تھی۔

پھر ہم بچوں کی طرح خوش ہوتے ہوئے مردہ تیندوے کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ گولی اس کی گردن اور سر سے ہو کر گزری تھی۔

مگر ہماری حیرت دیکھیے کہ یہ تیندوا ایک مادہ تھی اور اس کے تھنوں میں دودھ تھا۔ یہ انتہائی افسوس ناک بات تھی کہ اس کے بچے اب بھوک سے مر جاتے۔ ہمیں اس کی بِھٹ جلد ہی تلاش کرنی تھی۔

مگر اب دیر ہو رہی تھی اور سائے لمبے ہونے لگے تھے اور آسمان پر بھی رنگ چھانے لگے۔ ہم نے تیندوے کے پیر باندھ کر ان میں سے ڈنڈا گزار کر اسے اٹھا لیا اور کمپونگ روانے ہوئے۔ یہ بہت تھکا دینے والا کام تھا۔ ہر چند منٹ بعد رک کر ہمیں سانس بحال کرنا پڑتا تھا۔ جب ہم وادی میں پہنچے تو ہم اتنے تھک گئے تھے کہ ایک لفظ بھی نہ بول سکے۔ میں وہیں تیندوے کے پاس رک گیا اور ہاشم گاؤں سے قلی بلانے چلا گیا۔

جب قلی پہنچے تو تاریکی چھا چکی تھی۔ ان کی مشعلیں سرخ روشنی پھیلا رہی تھیں۔ ہاشم کے ساتھ آٹھ بندے آئے جو ہمارے شکار کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور اسے اٹھانے میں سبقت لے جانے کو لڑنے کو تیار ہو گئے۔

ہماری مایوسی کی انتہا دیکھیے کہ گاؤں کے قریب پہنچے تو ہمارا استقبال دہشت اور پریشانی کی آوازوں سے ہوا۔ ہاشم کو میں نے قلیوں کے ساتھ چھوڑا تاکہ قلی تیندوے کی مونچھیں نہ کاٹ لیں، اور پھر گاؤں کو بھاگا۔

کمپونگ میں افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ لالٹین ہر جگہ کھلے دروازوں سے جھانک رہے تھے اور چند گاؤں والے مجھے بری خبر سنانے کو تیار کھڑے تھے۔ ہاشم جب قلیوں کو ساتھ لے کر نکلا تو اس کے پندرہ منٹ بعد مویشیوں اور پھر خواتین کے شور سے ایک اور تیندوے کی موجودگی کا علم ہوا۔

مگر ہوا کیا تھا؟ گاؤں کے ایک سرے پر جہاں ہاشم کے ساتھ آنے والے قلی رہتے تھے، ان کی بیویاں اور بچے دروازوں میں ہماری کامیابی پر خوش کھڑے تھے کہ اچانک تاریکی سے تیندوے نے جست لگائی اور پہلے وار میں اپنی ماں کے پاس کھڑے ایک چھوٹے لڑکے کو ہلاک کر دیا۔ دوسرے وار میں بچے کی ماں کی ٹانگ کی ہڈی توڑ دی اور پھر طوفان کی مانند بھاگتے کتے کی طرف لپکا اور دو یا تین جستوں میں اسے جا لیا۔ پھر اسے ہلاک کر کے اپنے ساتھ لے کر بھاگ گیا۔ خواتین کو کچھ کرنے کا موقع ہی نہ مل سکا۔

ایک جھونپڑے سے مجھے اس بیچاری خاتون کی آہ و بُکا سنائی دی جس کے بچے کو تیندوے نے ہلاک کیا تھا۔ یہ چار سالہ بچہ بہت پیارا تھا۔ تیندوے کے پنجے جب اس کی گردن پر لگے تو بچہ بیچارہ فوراً ہلاک ہو گیا ہوگا۔

پورے گاؤں میں ہیجان اور دہشت پھیلی ہوئی تھی۔ سارے مرد انتقام کی بات کر رہے تھے۔ انہوں نے کلہاڑیاں اور نیزے اٹھا رکھے تھے اور تیندوے کے پیچھے جانے کو تیار ہو گئے تھے۔ اس دوران مردہ تیندوا آن پہنچا۔ لوگوں نے دیکھا تو اس پر ٹوٹ پڑے۔ قبل اس کے کہ مجھے کچھ کہنے یا کرنے کا موقع ملتا، انہوں نے تیندوے کے چیتھڑے اڑا دیے۔ کھال بیکار ہو کر رہ گئی تھی۔

بچے کا باپ جو تیندوے کو اتنے فخر سے اٹھا کر لا رہا تھا، اپنے بیٹے کی ہلاکت پر نڈھال ہو گیا۔ لوگ اتنے بپھرے ہوئے تھے کہ وہ اسی وقت تاریکی میں ہی مشعلیں اٹھا کر روانہ ہو گئے۔ ہم بہت تھکے اور بھوکے تھے مگر ہم بھی ساتھ روانہ ہو گئے تاکہ کوئی مزید آفت نہ آئے۔

تیندوے کی گزرگاہ کو تلاش کرنا آسان تھا کہ کتے کا خون بہتا جا رہا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر حیرت نہیں ہوئی کہ تیندوے نے پھر دریا کے اسی حصے کا رخ کیا جہاں سے وہ پہلے گزرتا رہا تھا۔ ظاہر ہے کہ ہم نے اصل تیندوا نہیں ہلاک کیا جو مسلسل کمپونگ پر حملے کر رہا تھا۔

ہم نے دریا عبور کیا۔ دوسرے کنارے پر پیچھا مزید آسان تھا کہ وہاں تیندوے کے پیروں کے نشانات جلی ہوئی النگ النگ کی راکھ پر واضح تھے۔ اس کے علاوہ کتے کے خون کے نشانات بھی ملتے رہے۔ چوٹی عبور کرتے ہی ہمیں لاش جھاڑیوں میں پڑی دکھائی دی۔ لاش جزوی طور پر کھا لی گئی تھی اور شاید تیندوا ہمارے شور سے گھبرا کر بھاگا ہوگا۔

تاریکی میں مزید پیچھا بھی بیکار ہوتا مگر پھر بھی تیندوے کا تعاقب جاری رہا۔ دو گھنٹے بعد جب سب تھک گئے اور جوش ٹھنڈا ہو گیا تو ہم گاؤں کو واپس لوٹے۔ چونکہ بچے کی ہلاکت پر اور کچھ کرنا ممکن نہیں تھا، سو میں نے بچے کے باپ کو اس کی تدفین کے لیے کچھ پیسے دیے۔

میں بھی تدفین میں شامل ہوا جس میں صرف مرد شامل تھے۔ ہم سب کچھ فاصلے پر کھڑے ہوئے۔ گاؤں کا قبرستان وادی کے کنارے پر تھا جس کے گرد باڑ سی لگائی گئی تھی۔ تمام قبروں کا رخ مشرق کی جانب تھا۔ تدفین کے بعد قبر پر بھاری پتھر رکھ دیے گئے تاکہ سور لاشوں کو نکال کر نہ کھا سکیں۔ تدفین کے بعد میں تعزیت کے لیے متوفی بچے کے گھر والوں سے ملا اور پھر ہاشم اور بچے کے باپ کے علاوہ چند اور افراد کے ساتھ تیندوے کی تلاش کو نکل کھڑا ہوا۔

اب یہ شکار میری ذاتی انا کا مسئلہ بن چکا تھا۔ اس لیے میں تیندوے کو ہر ممکن طریقے سے ہلاک کرنا چاہتا تھا۔

انتہائی صبر کے ساتھ ہاشم نے اپنے تمام تر تجربے کو بروئے کار لانے کی کوشش کی مگر تیندوے کو تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس نے کتے کی لاش کو ہاتھ بھی نہیں لگایا۔

مجھے بھی تیندوے کے واپس نہ لوٹنے کا یقین تھا مگر پھر بھی اس موقعے کو ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور بیلور باندھ کر رات وہیں گزاری۔ ہاشم گاؤں واپس لوٹ گیا مبادا کہ تیندوا وہاں آئے۔ اس رات بھی تیندوا غائب رہا۔ نصف شب کے بعد مجھے کھائی کے ایک سور کے چیخنے کی آواز آئی جو اچانک گُھٹ کر رہ گئی۔ جنگل میں یہ کام ہر رات ہوتا ہے۔ اگلی صبح میں نے اس جگہ جا کر دیکھا کہ کیا ہوا تھا۔ مجھے وہاں جدوجہد اور خون کے نشانات اور ایک کتری ہوئی دم ملی۔ پانچ سو گز دور ایک چھوٹے سے تالاب کے پاس سور کی ادھ کھائی لاش پڑی تھی۔ قدموں کے نشانات سے پتہ چلا کہ یہ تیندوے کی کاروائی تھی۔ یہ بات معمہ بن گئی کہ جب تیندوے کو جنگل میں شکار بکثرت مل جاتا ہے تو وہ کمپونگ پر کیوں حملے کرتا ہے؟

دو رت جگوں کے بعد میں انتہائی تھک چکا تھا اور گاؤں کو واپس لوٹا۔ ہاشم راستے میں ہی ملا اور اس نے بتایا کہ گاؤں بھی محفوظ ہے۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے گاؤں گئے اور میں نے وعدہ کیا کہ شام کو لوٹ آؤں گا۔ پھر ہم کیمپ کو چل پڑے۔

میری عدم موجودگی میں کام بخوبی چلتا رہا تھا۔ میرے تین بہترین فورمین تھے جنہوں نے کام نہیں رکنے دیا۔ میں نے سب کے سامنے انہیں انعام دیا اور قلیوں کو بھی تعریفی کلمات کہے۔ پھر میں نے انہیں بچے کی موت کا بتایا اور کہا کہ اگر وہ میری مدد کرنا چاہتے ہیں تو اپنا کام پوری توجہ اور لگن سے کرتے رہیں تاکہ میں اس تیندوے کو مار سکوں۔ ہاشم ہمیشہ کی طرح انتھک اور محنتی تھا۔ اس نے سہ پہر میں جا کر ایک ہرن شکار کیا اور قلیوں کو دے دیا۔ اس غیر متوقع دعوت پر قلیوں میں بہت جوش پیدا ہو گیا۔

میں نے غسل کیا، کافی کا ایک بڑا مگ پیا اور تھوڑے سے گرم چاول کھانے کے بعد سو گیا۔ میں سہ پہر تک سوتا رہا۔ پھر ایک اور غسل اور پیٹ بھر کر کھانے کے بعد بالکل تازہ دم ہو گیا۔ اب میں نئے سرے سے شکار کے لیے تیار تھا۔

شام ہوئی تو میں اور ہاشم کمپونگ کو لوٹ گئے۔ لوگ بہت مایوس تھے۔ پریشانی اور فکر کی وجہ سے گاؤں کا عمومی ماحول ماتمی نظر آ رہا تھا۔

ہم نے گاؤں میں داخلے کی جگہ پر کھونٹے کے ساتھ ایک بکری بندھوا دی۔ پاس موجود گھر کے دروازے پر ایک بیلور لٹا کر میں اور ہاشم اس گھر میں بیٹھ گئے۔ یہ رات بھی بیکار گزری۔ تیندوا بہت ماہر لگ رہا تھا۔ ہاشم بہت اداس تھا کہ وہ اس تیندوے کو ابھی تک شکار نہیں کر سکا۔

اگلی صبح ہم نے تیندوے کی تلاش کرنے کا سوچا۔ ابھی ہم گاؤں سے باہر نکلے ہی تھے کہ ہمیں پیچھے سے لوگوں کے چلانے کی آواز آئی اور پھر کمپونگ کے کچھ لوگ اور وہاں رہنے والا ایک قلی اپنی جانب بھاگتے نظر آئے۔ ظاہر ہے کہ کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا۔ قلی نے پرجوش انداز میں بات بتائی۔ جب یہ لوگ صبح کام پر جا رہے تھے تو نئی بنی سڑک پر ایک تیندوا ان کے سامنے سے گزارا۔ اس نے قلیوں کو دیکھا مگر توجہ نہ دی۔ جب قلیوں نے شور مچایا تو تیندوا بالائی ہونٹ سکوڑ کر غرایا اور انتہائی تیزی سے جست لگا کر جھاڑیوں میں گم ہو گیا۔ پھر ایک فورمین نے قلی میری سمت دوڑا دیے۔

ہم فوراً واپس لوٹے اور اس جگہ پہنچے۔ یہاں بہت سارے قلی جمع تھے۔ سب بیک وقت مجھے وہ جگہ دکھانا چاہ رہے تھے۔ تیندوے کے نشانات مٹی پر واضح تھے اور اس کے پنجے بہت بڑے تھے۔

ہاشم اور میں نے ان نشانات کا پیچھا شروع کر دیا۔ پہلے نشانات سڑک کے دوسرے کنارے سے جھاڑیوں سے گزر کر ڈھلوائی پہاڑی تک گئے اور پھر مڑ کر کچھ فاصلے تک جنگلی جانوروں کی گزرگاہ کو گئے۔

سارا علاقہ غیر آباد تھا۔ پہاڑیاں اور گھاس کے میدان ہر طرف دکھائی دے رہے تھے اور دور فاصلے پر تین اطراف میں جنگل تھا۔ ہم کئی میل اسی طرح پیچھا کرتے رہے حتیٰ کہ نشانات گم ہو گئے۔ صاف ظاہر تھا کہ تیندوے کو قلیوں کی مڈبھیڑ سے کوئی پریشانی نہیں ہوئی اور اس نے آرام سے اپنی مٹرگشت جاری رکھی۔

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ تیندوا اپنے شکار کے مقام سے اتنی دور کیوں گیا؟ ہاشم بھی اس بات پر الجھا ہوا تھا۔ اس کے سوا اور کیا چارہ تھا کہ جہاں بھی تیندوے کی موجودگی کا علم ہوتا، ہم اس کا پیچھا کرتے۔ مگر یہ کام اتنا مشکل تھا کہ ہمیں مسلسل ناکامی ہوتی رہی۔

ابھی ہم اس جگہ کھڑے تیندوے کے گم ہونے والے نشانات پر کھڑے سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں، اچانک مجھے مادہ تیندوے کے بچوں کا خیال آیا۔ موجودہ صورتحال ایسی تھی کہ میں انہیں یکسر بھول گیا تھا۔ ان کی ماں ہمارے ہاتھوں ماری گئی تھی۔ اب اگر وہ بچے تلاش نہ ہو پاتے تو بھوک سے مر جاتے۔ میں نے ہاشم کو یہ بات کہی اور ہم دونوں نے موجودہ تلاش کو ناکام شمار کر کے تیندوے کے بچوں کو تلاش کرنے کی کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔

دو بجے ہم اس جگہ پہنچے جہاں جنگل اس ویران کھیت سے ملتا تھا۔ ہم نے پہلے وہ درخت تلاش کیا جہاں ہاشم نے مادہ تیندوے کو ہلاک کیا تھا۔ ہم نے پوری احتیاط سے آس پاس کا علاقہ چھاننا شروع کر دیا۔ جلد ہی ہاشم کو تعفن کی بو آئی۔ ہم وہاں پہنچے تو ان کی باقیات دکھائی دیں۔ ان کی ہلاکت بھوک کی وجہ سے نہیں بلکہ پرانگ کے وار سے ہوئی تھی۔ مجھے شدید افسوس ہوا۔ ظاہر ہے کہ گاؤں والوں نے دیکھ لیا ہوگا کہ مادہ تیندوے کے تھنوں میں دودھ تھا اور انہوں نے ہم سے پہلے بچوں کو تلاش کیا ہوگا اور بھوکے بچوں کی آوازیں سن کر انہیں مار ڈالا ہوگا۔

ہم نے ان پتلی اور چھوٹی لاشوں کو گدھوں، سوروں اور چیونٹیوں کے لیے چھوڑا اور گاؤں کا رخ کیا۔ ہمارے اندیشوں کی تصدیق ہو گئی۔ ایک روز قبل صبح کو مردہ بچے کا باپ اپنے تین دوستوں کے ساتھ ان بچوں کی تلاش کو نکلا تھا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ بچے اتنے لاغر ہو چکے تھے کہ ان کا زندہ رہنا ممکن نہیں تھا۔

ہم نے نمبردار کو بتایا کہ تیندوا اپنی عام شکارگاہ کو چھوڑ کر چلا گیا ہے۔ نمبردار نے ہمیں بتایا کہ اس ماہ ننگویس یعنی ایک خاص نسل کے مقامی سور جو محض سماٹرا میں ملتے ہیں، کی سالانہ ہجرت کا وقت آ گیا ہے۔ یہ سور خشک موسم ساحلی علاقے میں گزارتے ہیں اور جونہی بارشیں شروع ہوتی ہیں تو غول در غول سینکڑوں کی تعداد میں یہ سور بالائی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ انہیں دریا عبور کرتے کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہم اس موسم کے عین وسط میں تھے اور ہر طرف سے شکاری درندے اس سمت کھنچے چلے آتے ہیں۔ اس بات سے ہمیں یقین ہو گیا کہ اسی وجہ سے تیندوے نے یہ علاقہ چھوڑا ہے۔ جب ہم نے تیندوے کے جانے کی سمت کے بارے نمبردار کو بتایا تو اس نے سر ہلایا اور چھڑی کی مدد سے نقشہ بنا کر ہمیں دریائے گنگسل کے بارے بتایا جہاں ننگویس اسے عبور کرتے ہیں۔

مجھے بہت خوشی ہوئی کہ میں نے پہلے کبھی ننگویس نہیں دیکھے تھے۔ ان کے بارے اندراگیری علاقے میں مجھے بتایا گیا تھا جہاں کا مقامی قبیلہ اورانگ مماک بطورِ خاص ان کا شکار کرتا تھا۔ مگر ان کی کہانیاں اتنی عجیب ہوتی تھیں کہ میں نے ہمیشہ انہیں نظرانداز کر دیا۔ تاہم جب نمبردار نے ان کے بارے بات کی تو میں نے فوراً اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کا سوچا۔

ہم واپس اپنے کیمپ لوٹے۔ میں نے اپنے فورمینوں سے بات کی اور انہیں اگلے چند روز کی ہدایات دے دیں اور رات کیمپ میں بسر کرنے کے بعد اگلی صبح ہاشم کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ ہم نے دو روز کے لیے کھانے کا سامان اور کمبل کے علاوہ بہت سارے کارتوس بھی اٹھا لیے۔ سارا دن ہمارا رخ نیچے اترائی کو رہا اور شام کو ہم دریا کے کنارے جا پہنچے۔ دریا کافی گہرا اور مٹیالے پانی سے بھرا ہوا تھا اور یہاں گھنے اور اونچے درختوں والا جنگل تھا۔ یہاں ہم نے الاؤ کے لیے لکڑیاں چیریں، کیمپ لگایا اور کھانا پکا کر کھانے کے بعد آرام کو لیٹ گئے۔ ہم نے نگرانی کے لیے باری باری جاگنے کا فیصلہ کیا۔ ساتھ ہی دریا کی سرسراہٹ سنائی دے رہی تھی۔

ہم جلدی اٹھے اور کھانا کھانے کے بعد کام پر لگ گئے۔ ہمیں اس جگہ کی تلاش کرنی تھی جہاں سے ننگویس دریا عبور کرتے تھے۔ اسی جگہ پر تیندوے سے مڈھ بھیڑ ہونے کے امکانات تھے۔ ہم نے کیمپ کو وہیں چھوڑا کہ سامان بعد میں بھی اٹھایا جا سکتا تھا۔ جب ہمیں گزرگاہ مل جاتی تو ہم سامان کو وہیں لے جاتے اور وہیں کیمپ بنا لیتے۔ ہاشم بہاؤ کی سمت اور میں مخالف سمت جاتا اور دوپہر کو کیمپ کو لوٹ آتے۔

گھنی جھاڑیوں میں راستہ بنا کر دریا کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنا بہت مشکل کام تھا۔ ایک گھنٹے بعد میری کلہاڑی کند ہو گئی۔ دریا مٹیالا تھا اور اس میں بہت سی عجیب چیزیں بہہ رہی تھیں۔ کنارے پر مردہ تنے پڑے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ طوفانی راتوں میں یہ تنے کنارے پر آ جاتے تھے۔ دریا میں تو یہ چھوٹا سا سبز جزیرہ لگتے مگر پھر بہاؤ کے ساتھ کنارے پر آ جاتے۔ ایک جگہ ساحل پر گڑھے میں میں نے چھوٹے مگرمچھ کو دھوپ سینکتے دیکھا۔

ساڑھے دس کے بعد میں اس جگہ پہنچا جہاں دریا چوڑا ہونے لگ گیا۔ اس جگہ کٹاؤ کی وجہ سے جنگل کنارے سے دور ہو گیا تھا۔ بیس گز دور دریا کی دوسری جانب بھی اسی طرح کا کنارہ تھا۔ میں پانی کے بہاؤ کو اترا اور قریب جا کر دیکھا تو اس پر تازہ تازہ جنگلی سوروں کے بے شمار کھر ثبت تھے۔ مگر اس سے کوئی بات نہیں ثابت ہوئی کہ ان نشانات کا رخ پانی کی جانب اور اس کے مخالف سمت بھی تھا۔ بظاہر سور اس جگہ پانی پینے آتے تھے۔ مگر مجھے شبہ تھا کہ ننگوئی اس جگہ دریا کو عبور بھی کرتے تھے۔ باقی ہر جگہ کنارے بہت اونچے اور ڈھلوان تھے۔

اس دریافت سے مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے کیمپ کا رخ کیا۔ وہاں ہاشم پہلے ہی میرا منتظر تھا اور اس نے کیمپ کا سامان لپیٹ لیا تھا۔ شاید اس نے بھی گزرگاہ تلاش کر لی تھی۔ ہم نے اپنی اپنی بات کہی سنی اور ہاشم والا راستہ چونکہ آسان اور مختصر تھا، اس لیے ہم نے کیمپ کو اس کے دریافت کردہ راستے کو منتقل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہم لوگ روانہ ہوئے اور ڈیڑھ گھنٹے بعد اس جگہ پہنچ گئے۔ ہاشم نے واپسی پر پورا راستہ سا بنا ڈالا تھا۔ اس جگہ دریا کا بہاؤ تیز تھا مگر کنارے چوڑے اور زیادہ کیچڑ تھا۔ یہاں بھی بہت زیادہ نشانات ملے۔ میرے تلاش کردہ مقام کی نسبت یہ مقام زیادہ چوڑا تھا۔ اس جگہ ہمیں کنارے سے محض بیس گز دور کیمپ لگانے کے لیے جگہ بھی مل گئی۔

اندھیرا چھانے سے قبل ہم نے دریا کے کنارے نصف میل تک تیندوے کی گزرگاہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ البتہ ہرنوں کا ایک چھوٹا غول ہمیں دیکھ کر بھاگ کھڑا ہوا۔

ہم نے دریا کے کنارے اندھیرا چھانے سے قبل اپنی نشستیں سنبھال لیں۔ اس جگہ بہت سے جنگلی سور آئے انہوں نے پانی پینے سے قبل مگرمچھوں کا اطمینان کر لیا۔ بندروں کا غول بھی شور مچاتا کنارے پر آیا۔ دوسرے کنارے پر بھی اس طرح سور پانی پیتے اور کیچڑ میں کھیلتے رہے۔ ہماری موجودگی کا کسی کو علم نہ ہو پایا۔ تاہم ننگوئی اور تیندوا نہ آئے۔

تیندوے کی تلاش بھوسے کے ڈھیر سے سوئی کی تلاش کے مترادف تھی۔ ہمارے اطراف میں سیکڑوں مربع میل تک گھنا جنگل پھیلا ہوا تھا۔ تیندوا کہیں بھی ہو سکتا تھا۔ ہمارا واحد امکان یہی تھا کہ ہم اسے ننگوئی کے دریا عبور کرنے کے مقام پر تلاش کرتے۔ تاہم ایسی جگہیں بہت سی تھیں اور ہم ہر جگہ کی بیک وقت نگرانی نہیں کر سکتے تھے۔

میں نے اگلے دن صبح کو اپنی دریافت کردہ دوسری جگہ کو دیکھنے کا سوچا۔ ہمارا سفر انتہائی دشوار تھا اور باری باری ہم راستے کی صفائی کا کام کرتے رہے۔ سفر کے اختتام پر ہمارے لیے انتہائی حیران کن چیز موجود تھی۔

اس مقام کے قریب پہنچے اور وہ مقام ابھی ایک موڑ کے پیچھے پوشیدہ تھا کہ آگے چلنے والے ہاشم نے اچانک مجھے روک لیا۔ ہم گھٹنوں کے بل جھک کر سانس روک کر بیٹھ گئے تاکہ دوسری جانب سے آنے والی ہر آواز سن سکیں۔ اس جگہ ہمیں پانی میں شپ شپ کرنے کی مدھم آوازیں آ رہی تھیں۔ میری دھڑکن تیز ہو گئی، شاید ننگوئی ہوں۔

مگر ہمیں کچھ دکھائی نہ دیا۔ ہم رینگتے ہوئے آگے بڑھے حتیٰ کہ جھاڑیوں میں سے منظر دکھائی دینے لگا۔

ناقابلِ بیان نظارہ ہمارے سامنے تھا۔ سوروں کا بہت بڑا غول دریا عبور کر رہا تھا اور عبور کرتے ہوئے ہر قسم کا شور کر رہا تھا۔ اس کنارے سے اُس کنارے تک سور اتنے قریب قریب تھے کہ جیسے ایک زندہ اور متحرک پل سا بن گیا ہو۔ کئی سور بڑے اور کئی چھوٹے بھی تھے اور ایک دوسرے کی دم سے سر جوڑے آ رہے تھے اور اس غول کا کوئی سرا دکھائی نہیں دیا۔ دوسرے کنارے پر ان گنت سور دریا عبور کرنے پہنچے ہوئے تھے۔ ماداؤں کے پیچھے اور آگے کالے موٹے بالوں کے ٹکڑے تھے جن کا رنگ گوشت کی مانند لال تھا۔ ان کے سر لمبے اور سرے پر اچانک چوڑی تھوتھنی ختم ہو جاتی تھی۔ ان کی تھوتھنی پر بال نہیں تھے مگر اندرونی سرے پر موٹے بال کی پٹی تھی جو داڑھی کی مانند دکھائی دیتی تھی۔

اس شاندار تجربے سے میرا سانس پھول رہا تھا جو انتہائی شاندار تھا۔ یہ سلسلہ کافی دیر پہلے سے شروع لگ رہا تھا اور ابھی اس کے ختم ہونے کا کوئی امکان دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ ہم یہ منظر 45 منٹ تک دیکھتے رہے۔ یہ منظر اتنا خوبصورت اور مسحور کن تھا کہ ہم اپنی بندوقیں بھول گئے۔ جب آخری سور بھی پانی سے نکل کر خود کو جھٹکے دیتا بھاگا تو ہم اٹھے اور سیدھا پانی کا رخ کیا۔ سور ابھی تک دکھائی دے رہے تھے۔

اس جگہ کے قریب بہاؤ نے اچانک موڑ کاٹا تھا اور اونچے درختوں کے نیچے ایک دلدلی سرنگ سی بنا دی تھی۔ ہزاروں جانوروں کے گزرنے سے یہاں کی زمین باریک سفوف بن چکی تھی۔ اس سرنگ سے ہمیں ان سوروں کے غول کی آوازیں آتی رہیں۔ سارا جنگل شور سے بھر گیا تھا۔ ہم نے پانی میں چھلانگ لگائی جو بمشکل بیس فٹ چوڑا بہاؤ تھا۔ کیچڑ ہمارے ٹخنوں تک آ رہا تھا اور ہم نے دریا عبور کیا اور دوسرے کنارے پر چڑھ گئے۔ جونہی ہم موڑ مڑے، ہمیں تیندوا دکھائی دیا، یا تیندوے کی باقیات سمجھ لیں۔

بہاؤ کے عین وسط میں کچھ عجیب سی پڑی تھی جو بے شمار کھروں تلے آ کر اپنی اصل شکل کھو چکی تھی۔ پہلے پہل تو ہمیں احساس نہ ہوا کہ یہ تیندوا ہی ہے۔ مگر چونکہ یہ عجیب سی چیز ہماری توجہ کا مرکز بن چکی تھی تو ہم نے جھک کر اسے غور سے دیکھا۔

جنگلی سوروں کی بو جنگل پر حاوی ہو رہی تھی۔ مگر مجھے ایک اور بو بھی محسوس ہوئی۔ جب ہاشم نے اپنے پرانگ سے اس چیز پر سے کیچڑ ہٹایا تو ہم نے تیندوے کی کھال دیکھی۔ جلد ہی ٹوٹی ہڈیاں اور جبڑے کی ہڈی اور لمبے دانت بھی دکھائی دیے۔ اس کے نیچے سور کی کھال کے ٹکڑے اور اس کی ریزہ ریزہ کھوپڑی دکھائی دی۔

ہاشم نے اپنا پرانگ صاف کیا اور میری جانب دیکھا۔ میرے سوال کا جواب اس کی آنکھوں میں واضح تھا۔ اس تنگ سی سرنگ نما جگہ پر سوروں کی بو بھری ہوئی تھی اور یہیں ہاشم نے مجھے بتایا کہ کیا ہوگا۔

تیندوا یہیں کہیں چھپ کر بیٹھا ہوگا مگر اس نے مہلک غلطی یہ کی کہ اس غول کے سب سے آگے والے سور پر حملہ کیا۔ عموماً سب سے آگے والا جانور سب سے زیادہ طاقتور اور جسیم ہوتا ہے۔ تیندوے کے بچنے کے امکانات تبھی ہوتے جب وہ حملہ کرتے ہی مادہ کو ہلاک کرتے ہوئے اسے اٹھا کر فوراً غائب ہو جاتا۔ مگر آگے والا جانور نر اور سب سے بڑا تھا، اس لیے تیندوے کو اچھی خاصی لڑائی لڑ کر اسے مارنا پڑا جس کی وجہ سے پورے غول کو آنے کا موقع مل گیا۔ جب دیگر سوروں نے اپنے رہنما کو گرتے دیکھا تو سب کے سب بھاگ پڑے اور اپنے لاتعداد کھروں تلے سور اور تیندوا، دونوں کو کچلتے گئے۔

اس طرح تیندوا اپنے انجام کو پہنچا۔ اگرچہ مجھے اس طرح اس کی ہلاکت کا خیال تو نہ تھا مگر جو ہوا سو ہوا۔ اس بہانے ہمیں جنگل کے ایک انتہائی نادر واقعے کو دیکھنے کا موقع مل گیا تھا۔

ہم لوگ اس سے ہوتے ہوئے واپس لوٹے اور دریا کے کنارے کنارے اپنے کیمپ تک جا پہنچے۔ شام کو ہم اپنے قلیوں کے ساتھ روزمرہ کے کاموں میں مصروف ہو چکے تھے۔