Jump to content

آنائی کے شیر انسان - باب 8

From Wikisource

باب ہشتم

کموڈو کے ڈریگن

میں نے بہت مرتبہ وران یعنی بڑی گوہ کے بارے سنا تھا جو سنڈا جزائر کے سلسلے کے مشرقی سرے پر پائی جاتی تھیں۔ ان کے بارے کہا جاتا تھا کہ وہ ڈریگن یعنی اژدر کی نسل سے ہیں۔ سماٹرا کے جنگلات میں چھ سال کی سخت محنت کے بعد مجھے تین ماہ کی چھٹی ملی تو میں نے یہ وقت ایک دوست کے ساتھ گزارنے کا سوچا جو اس علاقے میں سارجنٹ میجر تھا۔ ارادہ تھا کہ ہم لوگ ایک کشتی میں سوار ہو کر کموڈو کے جزیرے پر جائیں گے جہاں یہ ڈریگن اکثر ملتے ہیں۔ میرے دوست کا ایک جاننے والا ایک مچھلیوں کا تاجر چینی بگان سی اپی اپی تھا جو ہمیں سمندر میں سفر کے قابل جہاز دینے کو تیار ہو گیا۔ ہمیں محض جہاز کے لنگر انداز ہونے کا محصول اور پانچ افراد کے عملے کی خوراک اور تنخواہ دینی تھی۔

ہفتوں ہم اس کشتی پر سفر کرتے رہے اور سارا وقت سو کر گزرتا۔ پانی کا شور، جنگل سے آتے جانوروں اور جھینگروں کی آوازیں وغیرہ ہمارے لیے معمول بن کر رہ گئیں۔ جاگتے ہوئے ہمارا زیادہ تر وقت مچھلیاں پکڑنے میں گزرتا۔ ہر کھانے پر ہمیں بہترین تازہ مچھلی ملتی تھی۔ مچھلی پکڑنے سے ہمارا کبھی جی نہیں بھرا۔

ہر روز ہم کسی نہ کسی ساحلی گاؤں میں رک کر پانی، مرغیاں اور پھل لیتے۔ سماٹرا کے ساحل پر دلدلی دریائی کناروں پر پانی سے پرے یہ گاؤں بکثرت ہیں۔ جب مدوجزر کا پانی اترتا تو یہاں سڑتے ہوئے آبی جانوروں کی بو ناقابلِ برداشت ہو جاتی۔ ساحل پر ہر طرف اس طرح کی زہریلی فضا پائی جاتی تھی اور اسی پر سبز مینگروو جنگلات کے ساتھ ہی گاؤں آباد ہوتے تھے جن پر ہر وقت ملیریا طاری رہتا۔

جونہی سماٹرا کا ساحل افق سے پرے چھپا، ہم ان جزائر کو پہنچ گئے۔ سبز، خوابیدہ اور خوبصورت، لہروں کی برف جیسی سفید جھاگ کے پیچھے موجود تھے۔ ان کے کنارے پر پانی تقریباً ساکن، شفاف اور نیلا تھا۔ جزائر ایسے لگتے تھے کہ جیسے سمندر میں موتی تیر رہے ہوں۔ اس بہشت نما نظارے کو انسان ساری عمر دیکھتا رہے۔

مغرب کے وقت ہم اپنے چھوٹے جہاز کے عرشے پر ایک ساتھ بیٹھ گئے اور تازہ ہوا سے لطف اندوز ہونے لگے۔ ہم سب بہت اچھا محسوس کر رہے تھے اور جہاز لہروں پر ہلکا ہلکا ڈول رہا تھا۔ ہوا سے ساری گرمی بھاگ گئی تھی اور تھوان اور ملازمین کا فرق مٹ گیا تھا اور ہم سب برابری کی سطح پر آ گئے تھے۔ سب کہانیاں سناتے رہے اور باڈجو آدمیوں اور ہمارے درمیان اعتبار بڑھ گیا اور اس لمبے سفر کے آخر تک یہ ہمارے شاندار اور ناقابلِ فراموش تعطیلات کی بنیاد تھا۔

شام کو ہمیں بہت خوشی ہوتی۔ ہزاروں کی تعداد میں جیلی فش سطح پر آ جاتیں اور شوخ گلابی سے شفاف نیلے تک ہر رنگ دکھائی دینے لگ جاتا۔ جب تاریکی چھا جاتی تو پھر خود روشن قسم کی جیلی فش کالے سیاہ پانی سے نکل کر باہر آتیں۔ اکثر ہم لیمپ باہر لٹکا کر انہیں دیکھتے رہتے۔ اس جگہ ہم نے انتہائی عجیب قسم کی مچھلیاں بھی پکڑیں۔ ایک بار عجیب کام ہوا کہ گفتگو کے دوران اچانک شدید خوفزدہ ہو کر باڈجا خاموش ہو گئے۔ دہشت سے تھر تھر کانپتے ہوئے وہ دور پانی کی سطح پر ابھرنے والے ایک چمکدار جسم کو دیکھ رہے تھے۔ جب ہم نے وجہ پوچھی تو ناخدا نے سرگوشی میں بتایا: ‘بوبوٹجا۔‘ اس علاقے میں بوبوٹجا بہت بڑے آکٹوپس کو کہا جاتا ہے جو ماہی گیری کی چھوٹی کشتیوں کے لیے بہت خطرناک ہوتے ہیں۔ خیر، جو بھی ہو، ہمارے ملاحوں نے جہاز کی تمام روشنیاں بجھا دیں اور ایک بندے نے جہاز کو مسلسل حرکت دیتے ہوئے اس آکٹوپس سے دور ہی رکھا۔ باڈجا نے ہمیں آکٹوپس کے بارے ہر قسم کی کہانیاں سنائیں۔ ان کے خیال میں بوبوٹجا اتنا بڑا ہو جاتا ہے کہ اس کا دھڑ پانچ یا چھ فٹ گولائی تک پہنچ جاتا ہے اور اس کے لمبے بازو جن پر چُسنیاں لگی ہوتی ہیں، پندرہ سے بیس فٹ لمبے ہو جاتے ہیں۔ اس کے جسم کے اوپری حصے پر آنکھیں ہوتی ہیں اور منہ چونچ دار۔ اس کی کھال ریگمال کی طرح کھردری اور ایک انچ موٹی ہوتی ہے۔ مختصر یہ کہ باڈجا کے لیے یہ ایک آفت ہوتا ہے۔ اپنے مضبوط بازوؤں کے ساتھ وہ کسی کشتی کو پکڑ لے تو پھر اسے اپنے ساتھ پانی کے اندر کے لے جاتا ہے۔ گہرے پانی میں یہ نیچے جا کر مرجان کی چٹانوں کو دو یا تین بازوں سے تھام کر کشتی کو نیچے ہی روکے رکھتا ہے۔ اوسط درجے کا جہاز بھی ایسے پھنس جاتا ہے جیسے کسی مضبوط تار سے بندھا ہو۔

آکٹوپس مرجان کی چٹانوں میں چھپ کر شکار پر گھات لگاتا ہے۔ اس کا نشانہ چھوٹی مچھلیاں نہیں ہوتیں۔ باڈجا کے مطابق سمندرکی تہہ میں عموماً لڑائی آکٹوپس کی وہیل اور سورڈ فش کے درمیان ہوتی ہے۔ یہ لڑائی دو نر ہاتھیوں کی لڑائی سے مماثل ہے۔

جب مچھیرے دور دراز کے پانیوں کو شکار کے لیے جاتے ہیں تو اپنے ساتھ ہمیشہ خاص بنے ہوئے پرانگ لے جاتے ہیں جو انہی آکٹوپس کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یہ پرانگ چوڑے اور موٹے ہوتے ہیں اور ان کے دستے بہت ہلکے اورباریک۔ ان کی اصل خوبی ان کے سرے پر ہوتی ہے اور ان کے استعمال کے لیے خاص محنت کرنی پڑتی ہے مگر اس طرح یہ ہتھیار مہلک بن جاتا ہے۔ اس کی خاص بناوٹ کی مدد سے آکٹوپس کی انتہائی سخت کھال کاٹی جاتی ہے۔

پرانگ کے علاوہ مچھیروں کے پاس ایک اور چیز ہوتی ہے جس پر انہیں پرانگ سے زیادہ اعتبار ہوتا ہے۔ ڈجیرک نپیس نامی ایک ترشادہ پھل ہوتا ہے جو انتہائی ترش ہوتا ہے۔ مقامی لوگوں کا اعتقاد ہے کہ یہ پھل جادو ٹونے کا اہم جزو ہے۔ مدورا علاقے میں گاڑی بان اپنے بھینسوں کے سینگوں پر یہ پھل پھنسا دیتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ اس طرح ان کے بھینسوں کو زیادہ طاقت اور رفتار ملتی ہے۔ اس پھل کو قربانی کی رسومات میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر کسی کو شدید سر درد ہو تو اس پھل کی قاشیں کنپٹی پر رگڑی جاتی ہیں تاکہ پیشانی کے پیچھے موجود تکلیف کا سبب بننے والا شیطان بھاگ جائے۔

جب مچھیروں پر یہ آکٹوپس حملہ کرتا ہے تو ہر ممکن تیزی سے آکٹوپس کی کھال میں ایک سوراخ کر کے اس پھل کے رس کے چند قطرے ٹپکا دیتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آکٹوپس اس طرح کشتی کو چھوڑ کر بھاگتا ہے جیسے اس پر بجلی گری ہو اور سمندر کی گہرائیوں میں چھپ جاتا ہے۔ مچھیروں کا خیال ہے کہ یہ اسی جادوئی پھل کا کرشمہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے کہ زخم پر لگنے والے انتہائی ترش مائع سے زخم میں شدید جلن پیدا ہوتی ہوگی۔

ساڑھے تین ہفتوں کے بحری سفر کے بعد ہم نے افق پر فلورس کے ساحل کو نمودار ہوتے دیکھا۔ اگلی صبح ہم رُٹنگ کے گاؤں کو روانہ ہوئے جو ہماری پہلی منزل تھا۔ اس جگہ ہمیں رکنا پڑا کیونکہ ہمارے جہاز کے نچلے حصے پر سمندری گھاس اور دیگر جانداروں کی موٹی تہہ چڑھ گئی تھی۔ ہم نے ناخدا سے کہا کہ وہ اس جگہ رکنے کے بعد لتوہو خلیج کو جائے جو کموڈو کے جزیرے پر واقع ہے۔ اس جگہ میں اور میرا دوست اس کا انتظار کریں گے۔

جتنی دیر جہاز کو کھینچا جاتا، ہم لوگ رُٹنگ میں رہے۔ یہاں چینی جہازوں کی مرمت کی ایک جگہ ہے۔ ہم نے گھوڑے کرائے پر لیے اور مشرق کو منگاری سے ہوتے ہوئے ساحلی کمپونگ لنٹنگ کو روانہ ہو گئے۔ اس جگہ کا موسم استوائی اور خشک نوعیت ہے اور محض پہاڑی گھاس کے میدان ہیں۔ جھلسی ہوئی پہاڑیاں ہر سمت افق تک پھیلی ہوئی ہیں جن پر محض گھاس دکھائی دیتی ہے اور درختوں کے کہیں کہیں جھنڈ بھی دکھائی دے جاتے ہیں۔ تنگ کھائیوں سے پتلی ندیاں گزرتی ہیں۔

ایسے علاقے میں گھوڑوں کو مسلسل قابو میں رکھنا اہم ہے۔ کہیں بھی آپ کو جنگلی گھوڑوں کے غول دکھائی دے سکتے ہیں۔ فلورس، سمبا اور سمباوا میں جنگلی گھوڑے عام ملتے ہیں۔ دراصل یہ گھوڑے مقامی لوگوں کے ہوتے ہیں جو انہیں گھاس کے میدانوں میں چھوڑ دیتے ہیں اور یہ گھوڑے یہاں کھلے آسمان تلے چرتے ہیں اور افزائشِ نسل کرتے ہیں۔ یہ چھوٹے مگر بہت طاقتور گھوڑے ہوتے ہیں۔ ان کی لمبی ایال اور لال نتھنے ہوتے ہیں۔ یہ بالکل جنگلی ہوتے ہیں۔ ان سے زیادہ سخت جان اور محنتی گھوڑے مشکل سے ہی کہیں ملیں گے۔ رات کو میں نے پہاڑ کی چوٹی سے ایک نر کے ہنہنانے کی آواز سنی۔

ہم راتیں کسی دریا کی تہہ میں ریت پر گزارتے اور پتھروں کے درمیان سوتے اور پہاڑوں سے نیچے کی سمت ہوا چلتی۔ تاہم اس سرد ہوا کا ایک فائدہ یہ تھا کہ مچھر بھاگ جاتے تھے۔ سارا دن سخت زمین پر گھڑسواری کے بعد آنے والی گہری نیند میں کسی قسم کا خواب نہ آتا۔ الاؤ پر پکائے ہوئے گرم چاولوں سے پیٹ بھر کر کے ہم ندی میں نہاتے اور اپنے پتلے کمبلوں میں گھس جاتے۔ تکیے کی جگہ ہمارے لباس ہوتے اور چھت کی جگہ تاروں بھرا آسمان۔ نیند سے ایک بار ہمیں اچانک بیدار ہونا پڑا کہ ایک گھوڑا محبت سے ہماری گردن سے اپنی نرم ناک رگڑنے لگا۔

تین دن بعد ہم لنٹنگ میں تھے جو ساحلی کمپونگ ہے اور اس میں گھر موسم سے متاثر ہیں۔ ہر جگہ مچھلیوں کی بو پھیلی ہوئی تھی۔ اس جگہ ہم نے اپنے رہنماؤں اور گھوڑوں کو واپس بھیج دیا اور کموڈو جانے کے لیے کشتی کا بندوبست کرنے لگے۔ ہم لوگ یہاں دوپہر کو پہنچے۔ جلد ہی کشتی بان مل گیا مگر ہمارا سفر صبح سے پہلے شروع نہ ہو سکا۔ فلورس اور اس سے اگلے جزیرے کے درمیان کا سمندر تیز لہروں اور تند ہواؤں کی وجہ سے بہت بدنام تھا۔ اس جگہ سمندر کو محض صبح آٹھ سے نو بجے کے درمیان عبور کیا جا سکتا تھا۔ سو شام کو ہم نے خشکی کے مگرمچھوں یعنی بواجا درات کے بارے معلومات لیتے گزاری۔ بواجا درات کو کموڈو کے وران بھی کہا جاتا ہے، فلورس پر بھی موجود ہوتے تھے مگر بہت نایاب۔ یہ نسل تیزی سے ناپید ہو رہی تھی۔ اس لیے ان کے شکار پر انتہائی سختی سے پابندی تھی اور محض کسی چڑیا گھر کے لیے ہی ان کو پکڑا جا سکتا تھا۔ تاہم اس مقصد کے لیے بھی خصوصی اجازت لینا پڑتی تھی۔

ایک بوڑھے شخص نے بتایا کہ اس نے بواجا درات کو شمال مغربی میراک، نیو گنی میں بھی دیکھا ہے۔ یہ شخص جاپانیوں کےساتھ سمندر سے موتی تلاش کرتا تھا۔ وران تو عام سا مگرمچھ ہوتا ہے جو اس جزیرہ نما ملک کے تقریباً تمام دریاؤں اور دلدلوں میں ملتا ہے۔ تاہم یہ اتنا سخت جان ہے کہ اس سے بالکل ماحول میں بھی آرام سے رہ سکتا ہے۔

اگلی صبح ہم کشتی پر سوار ہوئے جو کافی کمزور لگ رہی تھی۔ اس میں جگہ جگہ کیڑوں نےسوراخ کیے ہوئے تھے اور پیندے میں ٹخنے جتنا پانی جمع تھا۔ تیز ہوا نے جب پیوند لگے بادبان بھرے تو کشتی ایک جھٹکے سے روانہ ہو گئی۔ ہمارا کشتی بان چالیس برس کی عمر کا اور پتلا سا مگر سخت جان انسان تھا۔ سمندر اور سورج کی وجہ سے اس کے بال سفید ہو چکے تھے اور عقابی چہرہ تھا۔ جلد ہی ہمیں پتہ چل گیا کہ ہم پچھلی شام کیوں نہیں روانہ ہو سکے۔ فلورس اور رنٹجا اور کموڈو کے درمیان بہت خطرناک قسم کی چٹانیں تھیں جو آتش فشانی عمل سے بنی تھیں۔ سمندر انتہائی اونچی لہروں کا پہاڑ لگ رہا تھا مگر کشتی پر خطرہ نہیں محسوس ہوا۔ کشتی کے ناخدا نے انتہائی توجہ سے ہر جانب نگاہ رکھی اور ایک لمحے کو بھی غافل نہیں ہوا۔ ہم ہر لمحہ اس کی مہارت سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ غور کرنے پر پتہ چلا کہ خطرہ کہاں ہے۔ جہاں دو یا تین مخالف لہریں ٹکراتیں، وہاں سطح پر اور اس کے نیچے بھنور سے بنتے اور یہی کشتی کو تباہ کرنے کا سبب بن سکتے تھے۔ اگر کشتی ان میں پھنس جاتی تو اس کی تباہی یقینی تھی۔

یہ بھنور خطرناک دکھائی دیتے تھے سو ہم نے ان کی طرف دیکھنے سے گریز کیا۔ ہماری زندگیاں ہمارے ناخدا کے ہاتھ تھیں اور ہم اسی پر تکیہ کیے بیٹھے رہے۔

ہاشم کشتی کے درمیان میں بیٹھا اور کنارے کو مضبوطی سے پکڑے رہا۔ اس کی نظریں ہمارے اوپر آسمان پر جمی ہوئی تھیں۔ اس پر موت کا خوف چھایا ہوا تھا اور وہ یہاں سے دور بھاگ جانا چاہتا تھا۔

جلد ہی ہمیں افق پر رنٹجا دکھائی دیا۔ ہم نے جزیرے کا سیدھا رخ نہیں کیا اور سلیٹی رنگ کی ایک خلیج سے بچ کر کموڈو کی طرف گئے جو سامنے تھا۔

چند گھنٹے بعد ہم نسبتاً ساکن پانیوں کو پہنچے اور کموڈو کے کمپونگ پر جا اترے۔ اونچی چٹانوں سے گھرے اس عام سے ساحلی کمپونگ میں گھر اونچے ستونوں پر بنائے گئے تھے۔ جب مدوجزر کا پانی چڑھتا تو اس کمپونگ کے کنارے تک آن پہنچتا۔ اس طرح قدرتی طور پر صفائی ہو جاتی۔ رہائشی اس جگہ محض اپنے فضلے اور گند کو نیچے پھینک دیتے جو پانی اپنے ساتھ بہا لے جاتا۔ تاہم پانی سے بدبو ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی ہوا اسے ختم کر پائی۔

لوگ بہت مہمان نواز اور دوستانہ تھے۔ یہ لوگ ہمارے منتظر تھے اور جونہی ہم پہنچے تو کتوں نے اتنا غل مچایا کہ الامان۔ بچوں نےڈنڈوں اور پتھروں سے کتوں کو تمیز سکھانے کی کوشش کی۔ کمپونگ کے نمبردار نے ہمیں اپنے جھونپڑے میں رات گزارنے کی دعوت دی اور ہمارے لیے ضیافت تیار تھی۔ ہم جھونپڑے کے اندر سونے سے جھجھک رہے تھے۔

ہم نمبردار کے لیے کچھ تمباکو لائے تھے۔ اس تحفے کو اس نے جھجھک کر قبول کیا۔ اس طرح ہم نے مزید دعوت سے کنی کتراتے ہوئے نمبردار کو بتایا کہ ہم لوگ آج ہی آگے جانا چاہتے ہیں۔ مناسب تکلفات کے بعد ہم اصل مدعے پر آ گئے۔

نمبردار نے فوراً جواب دیا کہ یہاں بہت سارے بواجا درات پائے جاتے ہیں اور ان کو تلاش کرنا مشکل نہیں۔ مگر پہلے تھوان سفر کی تکان اتار لیں اور اس کی بیوی کا بنایا ہوا کھانا کھا لیں۔

ظاہر ہے کہ اس بات پر ہمیں کیا اعتراض ہونا تھا۔ تازہ چاول اور مچھلی کا کھانا کھا کر ہم نے مقامی افراد کے مشورے سنے۔

کموڈو کا جزیرہ مغربی تہذیبی اثرات سے پاک ہے۔ یہاں وقت جیسے تھم گیا ہو۔ یہاں لوگ قدیم طور طریقوں سے رہتے آ رہے ہیں جو مستقل اور کبھی نہ ختم ہونے والی جدوجہد ہوتی ہے۔ یہ جدوجہد شدید گرمی، خشک موسم اور سمندری مشکلات کے خلاف ہوتی ہیں۔ یہاں کے لوگ سخت جان، محنتی ماہی گیر ہیں جو ہمیشہ اپنے خیالات مجمتع کرتے رہتے ہیں تاکہ جب کوئی مہمان آئے تو اسے اپنے خیالات سے آگاہ کر سکیں۔

سہ پہر کو پتہ چلا کہ محض تین ماہ قبل ہی ایک چھوٹے بچے پر بڑے وران نے حملہ کیا تھا۔ یہ بچہ لکڑیاں چیر رہا تھا کہ مگرمچھ النگ النگ سے نکلا اور اسے پکڑ لیا۔ بچے کی چیخیں سن کر اس کا باپ دوڑا دوڑا آیا اور اپنے پرانگ کی مدد سے اس نے وران کو بھگا دیا۔ مگر بچہ اتنا زخمی ہو چکا تھا کہ وہ انتہائی تکلیف کے ساتھ اگلے دن مر گیا۔

ہمیں یہ بھی پتہ چلا کہ ہر سال پانچ یا چھ افراد وران کے حملوں سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ اموات زہر پھیلنے سے ہوتی ہیں جو ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وران مردار خور ہوتے ہیں۔

کموڈو وران عام شکاری درندہ ہے اور اس علاقے میں پائے جانے والے دیگر جانوروں بشمول بارہ سنگھا، گھوڑے اور جنگلی سور کا بھی شکار کرتا ہے۔ یہ جانوروں کی گزرگاہ پر گھات لگاتا ہے۔ جب جانور نزدیک پہنچتا ہے تو یہ اپنی پچھلی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر غراتے ہوئے اس پر جست لگاتا ہے۔ اپنے وزن کی مدد سے یہ اپنے شکار کو نیچے گراتا ہے اور اپنے دانتوں اور پنجوں سے اسے دبا لیتا ہے اور اکثر شکار کے بچنے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔

ان کہانیوں نے ہمیں جیسے مسحور کر دیا ہو۔ ہم نے اس بارے بے شمار سوالات کیے۔ یہ لوگ ہمیں ہر چیز بتانے کو تیار تھے جو وہ جانتے تھے یا جس پر یقین رکھتے تھے۔ کئی کہانیاں بہت عجیب تھیں۔ آخر پر تو ہاشم کا منہ کھلا اور نتھنے جوش کے مارے پھڑپھڑا رہے تھے۔

بعض لوگوں نے مشورہ دیا کہ ہم ایک جنگلی سور کو ہلاک کر کے کھلے میں ڈال دیں تو کافی وران جمع ہو جائیں گے۔ مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ جہاں ہم ان جانوروں کو دیکھنا چاہتے ہیں، اس کے قریب ہی سور کو مارنا بہتر رہے گا۔ چونکہ ہم نے سمندر میں بہت وقت گزارا تھا، اس لیے ہم فوری نکلنے کو تیار تھے کہ شکار سے ہمیں زیادہ دلچسپی تھی۔ کمپونگ کے آس پاس جنگلی سور بہت مل جاتے، اس لیے ہم نے ہانکے کی بجائے شکار کو تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس جگہ لوگ گھوڑے پر بغیر زین کے سوار ہو کر ہاتھ میں نیزے لیے اور کتوں کی مدد سے بارہ سنگھے کا گھاس کے میدانوں میں پیچھا کرتے ہیں اگر ہمارے پاس مزید وقت ہوتا تو ہم بھی اس شکار میں حصہ لیتے مگر وقت کی تنگی کے باعث ہم نے اپنے طریقے کو ترجیح دی۔

ہم نے اپنی بندوقیں نکالیں اور دو مقامی افراد کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ پہاڑی علاقہ گاؤں کے ساتھ ہی شروع ہو گیا جس میں جگہ جگہ تنگ کھائیاں بھی تھیں۔ کمپونگ سے آدھا میل دور ہی ایک کھائی سے ایک بارہ سنگھا نکل کر بھاگا۔ ہم اتنی جلدی کسی جانور کے لیے تیار نہیں تھے، سو یہ بارہ سنگھا ہم سے بچ کر نکل گیا۔

تھوڑا آگے جا کر جہاں النگ النگ گھاس میں پام کے درخت دکھائی دینے لگے تو ہمیں دیگر جانوروں کی آوازیں آنے لگیں۔ یہاں بہت زیادہ سور تھے جو ہمیں آسانی سے قریب آنے دے رہے تھے۔ ایک جنگلی سور تو اس طرح کھڑا ہو گیا کہ جیسے اسے ہم سے ملاقات کا شوق ہو۔ ہم نے اس کے سر کو اوپر نیچے ہوتے دیکھا اور پھر جب دور ایک اور سور نے چیخ ماری تو یہ بھی بھاگ کھڑا ہوا۔

تاہم ہمارا ارادہ تھا کہ ہم کافی آگے جائیں گے۔ کمپونگ کے نمبردار نے ہمیں یقین دلایا تھا کہ خلیج لتوہو کے آس پاس اپنا کیمپ لگائیں تو زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ یہ واودی اس جزیرے کے دوسرے سرے پر کمپونگ کموڈو سے پانچ گھنٹے کے فاصلے پر تھی۔ جلد ہی ہمیں احساس ہو گیا کہ ہم نے بہت بڑا جانور شکار کیا ہے۔ اس کا پیٹ چاک کر کے آنتیں وغیرہ نکالنے کے بعد بھی اس کا اتنا وزن تھا کہ دو رہنما اسے بمشکل اٹھا پا رہے تھے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح وہ زیادہ فاصلے تک اسے نہ لے جا سکتے تھے۔ اس لیے ہم چاہے جتنا افسوس کرتے، مگر اسے وہیں چھوڑ کر جانا پڑا۔ ہم نے محض گوشت کا ایک ٹکڑا کاٹ لیا۔

ہمارا ارادہ تھا کہ رات ہم کمپونگ سے نصف گھنٹے کی مسافت پر کسی ندی کے ریتلے کنارے پر بسر کریں گے۔ چونکہ بارش کا کوئی امکان نہیں تھا، اس لیے ہمیں خیمہ بھی لگانے کی ضرورت نہیں تھی۔

دو مقامی افراد ہمارے ساتھ رہے۔ یہ ہماری عادت تھی کہ اجنبی جگہ پہنچ کر ہم ہمیشہ چند مقامی افراد اپنے ساتھ رکھتے۔ اس سے کئی فائدے تھے، مثلاً انہیں مقامی خطرات کا بخوبی علم ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت ہمیں درندوں سے کوئی خطرہ نہیں تھا کہ کموڈو کے جزیرے میں کوئی درندہ نہیں پایا جاتا۔ وران ہماری موجودگی سے گھبرا کر بھاگ جاتے۔ مگر ہم نے دیکھا کہ ہمارے مقامی ساتھیوں نے شام ہوتے ہی آگ جلا کر کھانا تیار کیا اور کھانے کے بعد جونہی تاریکی پھیلنا شروع ہوئی، انہوں نے آگ بجھا دی۔ سماٹرا میں مچھروں کو بھگانے کے لیے ہمیشہ آگ ساری رات جلائی جاتی ہے۔ جب ہم نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آگ اس لیے بجھائی گئی ہے تاکہ سانپ متوجہ نہ ہوں۔ اس علاقے میں پف ایڈر نامی ایک بہت زہریلا سانپ ملتا ہے جس کے کاٹنے سے انسان نصف گھنٹے میں بہت تکلیف دہ موت کا شکار ہو جاتا ہے۔ رات کے وقت جب پہاڑیوں سے سرد ہوا چلتی ہے تو سرد خون والے سانپ فوراً آگ کا رخ کرتے ہیں۔

سانپ سے بچاؤ کا ایک اور طریقہ بھی ہے کہ آپ بالوں سے بنی رسی کو اپنے بستر کے اردگرد پھیلا دیں۔ لوگ کانٹے دار شاخوں سے کو ایک دوسرے سے بل دے کر بھی استعمال کرتے ہیں۔ جب سانپ حرکت کرتے ہیں تو ان کے چھلکوں کے درمیان خلا پیدا ہوتا ہے۔ بال یا کانٹے جب اس خلا میں گھستے ہیں تو سانپوں سے یہ برداشت نہیں ہو پاتا۔ آپ نے دیکھا کہ انجان علاقے میں مقامی لوگوں کے ساتھ ہونے سے کتنا فائدہ ہوتا ہے۔

مگر یہ بھی یاد رہے کہ مقامی افراد کے بارے آپ کو کچھ نہ کچھ علم ہونا چاہیے ورنہ اور بھی مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں۔ ایک بار میں نے بورنیو میں ایک ڈجاک رہبر ملازم رکھا۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا کہ فلاں جگہ جانے پر کتنا وقت لگے گا۔ اس نے جواب دیا: ‘جتنی دیر سگریٹ پینے میں لگتی ہے۔‘ مجھے سگریٹ پینے میں تقریباً سات منٹ لگتے ہیں۔ سو میں نے سوچا کہ یہ بہت مختصر فاصلہ ہے۔ سو ہم چل پڑے۔ دس منٹ بعد پوچھا کہ کتنی مسافت باقی ہے تو وہی جواب ملا۔ گھنٹے بھر کے سفر کے بعد پوچھنے پر یہی جواب ملا۔ دس گھنٹے بعد بھی ہمارا سفر جاری تھا۔ خیر، اس روز مجھے ڈجاک لوگوں کے وقت کے تخمینے کا اندازہ ہو گیا۔ ایک سگریٹ سے مراد مکئی کے خشک پتوں کا پورا پیکٹ تھا جن میں وہ تمباکو لپیٹتے ہیں (تمباکو کے ساتھ وہ اکثر گوبھی کے پتے بھی ملا لیتے ہیں)۔ اس ایک پیکٹ کے پینے کا دورانیہ اتنا تھا کہ ہم نے نو اچھی جسامت کی پہاڑیاں، تین کھائیاں عبور کیں اور پورا دن اسی سفر پر لگا۔

مقامی لوگوں کی عادات کے بارے جاننا ایک اور وجہ سے بھی اہم ہے۔ مندرجہ بالا سفر کے دوران ایک بار پورے دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم نے دریا کے کنارے کیمپ لگا لیا۔ ہمارے ساتھ ہی ایک اور کیمپ تھا جو ڈجاک لوگ سفر کرتے ہوئے استعمال کرتے تھے۔ چھوٹی سبز مکھیوں جنہیں اگاگ کہا جاتا ہے، اور پسینے سے میرے پورے بدن پر کھجلی ہو رہی تھی۔ اندھیرا چھانے سے قبل میں نے تازہ دم ہونے کے لیے غسل لیا۔ پندرہ منٹ غسل اور تیراکی کے بعد میں باہر نکلا۔ کنارے پر ایک بوڑھا ڈجاک بیٹھا مجھے دلچسپی سے دیکھے جا رہا تھا۔ میں نے اس کی جانب دوستانہ انداز میں مسکرا کر دیکھا تو اس نے بھی مسکراہٹ سے جواب دیا۔ رات کے کھانے کو بیٹھا تو مجھے ہلکی سی تعفن کی بو آنے لگی۔ یہ بو جنگل سے آ رہی تھی۔ میں نے سوچا کہ شاید کسی جانور کی لاش ہوگی اور ڈجاک سے پوچھا۔

یہ لاش ایک انسان کی تھی جو ڈجاک روایات کے مطابق جنگل میں سو گز دور ‘دفن‘ کی گئی تھی۔ یہ لوگ اپنے مردوں کو کسی درخت پر اونچی جگہ تختے پر رکھ دیتے ہیں تاکہ مردار خور پرندے اور چیونٹیاں اسے کھا سکیں۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ چند روز قبل مگرمچھ نے اسی جگہ ایک بچے کو اپنا لقمہ بنایا تھا۔

جب میں نے اپنے غسل کے بارے سوچا تو میری سانس رکنے لگی۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا اس دریا میں مگرمچھ ہیں؟ اس نے بتایا کہ ہاں، بہت سارے مگرمچھ ہیں۔ جب میں نے پوچھا، ‘بھلے آدمی، مجھے خبردار کرنے کی بجائے تم بیٹھ کر کیا تماشا دیکھتے رہے؟‘

ڈجاک نے انتہائی معصومیت سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا کہ میں نے پوچھا کب تھا؟ اس نے بتایا کہ اس کے خیال میں جب تک تھوان کچھ نہ پوچھے، اسے کچھ بتانا بداخلاقی ہوگی۔

آپ کو نہ صرف مقامی لوگوں کی عادات اور ان کی روایات سے واقفیت رکھنا ضروری ہے بلکہ یہ بھی اہم ہے کہ ان کے ساتھ بے تکلف بھی ہوں تاکہ ان کی فطری شرم انہیں آپ سے بات کرنے سے روک نہ سکے۔

اس طرح ہمارے رہنماؤں کی مہربانی سے آگ بجھ گئی ورنہ ہم اس کے گرد بیٹھ کر گپ شپ کرتے۔ مگر اب ہمارے اوپر ستاروں سے بھرا بہت خوبصورت آسمان تھا اور سرد اور تکلیف دہ ہوا چل رہی تھی۔ یہ رات ہم نے اپنے پتلے کمبلوں میں ٹھٹھرتے ہوئے گزاری۔

افق پر روشنی نمودار ہوتے ہی ہم اٹھ بیٹھے۔ فوراً ہی آگ جلا دی گئی۔ آگ کے ساتھ بیٹھ کر ہم نے اپنے یخ بستہ اعضا تاپے اور گرم کافی بنا کر پی اور پھر غسل کے بعد بالکل تازہ دم ہو گئے۔

یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کتنی جلدی سردی کی جگہ حدت اور پھر گرمی آ جاتی ہے۔ تھوڑے ہی وقت میں ساری فضا گرمی سے جھلسنے لگی۔

جلد ہی ہم لتوہو کی طرف روانہ ہو گئے۔ سارا علاقہ بنجر اور خالی تھا جیسے چاند کی سرزمین ہو۔ پتھریلی چٹانوں پر بمشکل ہی کوئی سبزہ دکھائی دیتا اور ہر چیز دن اور رات کے درجہ حرارت کے اتنے وسیع فرق کی وجہ سے ناکارہ ہو جاتی ہوگی۔ گہری کھائیوں میں کہیں کہیں کوسمبی اور کموننگ کے درخت مل جاتے تھے اور کہیں کہیں پام کے جھنڈ بھی دکھائی دے جاتے جو النگ النگ گھاس میں دور سے دکھائی دے جاتے۔ بہت دشوار راستہ تھا جس پر پتھر اور گڑھے وغیرہ بکثرت تھے۔ سارا راستہ ہی بھیانک خواب لگ رہا تھا اور انہی جگہوں پر ہی ظاہر ہے کہ کموڈو ڈریگن پائے جانے تھے۔

ہم ہانپتے کانپے، پسینے میں شرابور اور بالکل خاموشی سے چلتے گئے۔ ایک بار ہمارے رہنما نے ایک پہاڑی پر بھاگتے ہوئے بارہ سنگھے کی جانب اشارہ کیا۔

جب ہم اس طرح راستے پر تین گھنٹے جتنا چل چکے تو ہمارے رہنما نے رکنے کا اشارہ کیا۔ یہیں کہیں ہمیں جنگلی سور کا شکار کرنا تھا۔ ایک کوسمبی درخت کے سائے تلے اپنا سامان رکھ کر ہم ایک گھنی کھائی میں گھسے جہاں سوروں کی بہت ساری گزرگاہیں تھیں۔ ایک گھنٹے بعد ہم نے ایک مناسب جسامت کے سور کو شکار کر لیا تاکہ اسے لتوہو لے جانے میں دقت نہ ہو۔

منزل پر پہنچنے سے ذرا قبل ایک مزے کا واقعہ ہوا۔ ہمارا رہنما آگے چلتے چلتے اچانک رک کر بیٹھ گیا۔ ظاہر ہے کہ اس نے کچھ دیکھا ہوگا۔ میں احتیاط اور خاموشی سے اس کے پاس پہنچا تو دیکھا کہ بمشکل تیس گز دور ہمارا پہلا بواجہ درات ایک تنے پر بیٹھا دھوپ سینک رہا تھا۔

اگر اس کی بجائے کوئی سور یا بارہ سنگھا ہوتا تو ہماری بو سونگھ کر فرار ہو چکا ہوتا۔ مگر یہ بواجہ درات وہیں بیٹھا دوسری جانب دیکھ رہا تھا کہ جیسے اسے ہماری موجودگی کا علم ہی نہ ہو۔

اس کی گہرے رنگ والی کھال سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ کھال اس کے جسم پر لٹک رہی تھی۔ اوپری سطح تہہ دار اور جھریوں بھری تھی جیسے کسی درزی نے یہ کھال اس کے بڑے ہونے کی گنجائش کے ساتھ بنائی ہو۔ مضبوط پیروں پر بڑے اور تیز ناخن تھے۔

ہم نے سکون سے رک کر وران کو دیکھا۔ پھر میں نے رہنما کی آواز سنی جو عام آواز میں کہہ رہا تھا کہ اس کی غار شاید سامنے والی جھاڑیوں کے پیچھے پہاڑی غار ہوگی جو ہمیں کچھ کچھ دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے غصے سے اسے اشارہ کیا کہ ذرا آہستہ آواز میں بولے۔ مگر اس نے سر ہلایا اور اسی طرح زور سے بتایا کہ بواجہ درات تقریباً بہرے ہوتے ہیں۔ اس کی بات سچ تھی کیونکہ یہ بواجہ درات اس طرح بیٹھا رہا کہ جیسے اس نے کچھ نہ سنا ہو۔

ہمارے رہنما نے بتایا کہ وران کی آنکھیں اور ناک بہت طاقتور ہوتے ہیں۔ مجھے اس سے تجسس ہوا اور میں نے ایک پتھر اٹھا کر پوری طاقت سے وران کے بالکل سامنے درخت کے تنے پر مارا۔ تھوڑا سا غبار اڑا اور پتھر جھاڑیوں میں جا گرا۔ وران کے جسم میں جیسے کوئی لہر دوڑ گئی ہو، اس نے سر اٹھا کر تنے کو مضبوطی سے جکڑ لیا۔ ہم نے دیکھا کہ سورج کی روشنی میں اس کی دو مونہی زبان چمکی اور پھر وہ بھاگ نکلا جیسے کوئی بڑا مگرمچھ اپنا جسم بلند کر کے بھاگتا ہے۔ چند لمحوں میں وہ گھاس میں گھس کر ہماری نظروں سے اوجھل ہو چکا تھا۔

ہم نے اپنا سفر جاری رکھا۔ اب ہمیں سورج کی حدت یا تھکاوٹ کا احساس نہیں رہا تھا کہ ہم نے اپنا پہلا وران دیکھ لیا تھا۔ یہ کم عمر اور چھوٹا تھا مگر ہم نے حقیقی وران دیکھ تو لیا تھا۔ اب امید تھی کہ بڑے اور بالغ وران بھی سامنے آئیں گے۔

ہم لیتوہو کی وادی کو جا پہنچے جو وسیع تھی اور اس میں جھاڑیاں، کموننگ درخت اور پام کے درخت بھی تھے۔ ڈھلوان پہاڑیوں پر سرخ اور پیلے پتھروں کی چوڑی پٹیاں تھیں۔ سورج اور ہوا اور کٹاؤ کی وجہ سے یہ پتھر نکل آئے تھے۔ ان پہاڑیوں کے پیچھے خلیج سے سمندری موجوں کی آواز آ رہی تھی۔ ہمارے قیام اور کیمپ کے لیے ایک چوڑی پٹی صاف کر دی گئی اور ہمارے مقامی ساتھیوں نے زمین اور درختوں کے سوکھے تنے بجانے شروع کر دیے تاکہ اگر کوئی پف ایڈر چھپے ہوئے ہوں تو بھاگ جائیں۔ جب بھاری کام ہو گئے تو میرا دوست مقامی لوگوں کے ساتھ سور کی لاش کے لیے مناسب مقام کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔ گھنٹے بھر بعد وہ لوٹے۔ انہوں نے ایک کھائی میں وران کی جائے قیام تلاش کر لی تھی اور اس کے سامنے لاش کو رکھ کر چلے آئے تھے۔ اگر ہماری قسمت ساتھ دیتی تو سہ پہر تک ہمیں وران لازمی دکھائی دیتے۔

اس دوران ہاشم ہمارے لیے کھانا تیار کرتا رہا۔ نہانے کے بعد ہم خیمے کے سائے میں بیٹھ گئے اور اس کے نیچے ہم نے بہترین چاول کھائے۔ یہ خیمہ ہم نے دو درختوں کے درمیان لگایا ہوا تھا۔

بھرے پیٹ اور شدید گرمی کی وجہ سے ہم وہیں سو گئے۔ ویسے بھی اس وقت اور کیا کر سکتے تھے۔ ہم سہ پہر کو تین بجے بیدار ہوئے اور پسینے سے نہائے ہوئے جیسے کسی تندور میں ہوں۔ اب ہمارا خیمہ ہی ساری حرارت کو قید کر کے ہمیں اذیت دیے جا رہا تھا۔ دن کے وقت یہاں درخت کے سائے تلے آرام کرنا بہتر رہتا ہے۔ درخت کے سائے کے علاوہ ہر طرف سے ہوا چلتی ہے۔

ہم ایک بار پھر نہائے اور تیز کافی پینے کے بعد نکل کھڑے ہوئے۔ جس کھائی میں لاش رکھی گئی تھی، وہ ہمارے کیمپ سے نصف گھنٹے کی مسافت پر تھی۔ اس کی چوڑائی ڈیڑھ سو گز تھی اور اس میں جگہ جگہ کھائیاں اور غاریں سی بنی ہوئی تھیں۔ کھائی کی ایک جانب ایک گز اونچی گھاس اگی ہوئی تھی اور دوسری جانب پتھروں، سوکھے درختوں اور ٹہنیوں سے اٹی ہوئی۔ میرے دوست نے وران کی غار کی جانب اشارہ کیا۔ مجھے اس جگہ ایک چٹان کے نیچے سوراخ دکھائی دیا جہاں ایک مردہ کموننگ درخت جو کہ سفید رنگ کا تھا، جھکا ہوا تھا۔ لاش ایک چھوٹے سے نشیب میں تھی جو گھاس سے بیس گز کی مسافت پر رہا ہوگا اور ہمیں وہاں کئی وران پیٹ بھرتے دکھائی دیے۔ لاش سے بو اٹھنے لگ گئی تھی۔

میرے دوست نے یہاں ایک ایسی جگہ چنی تھی جہاں بیٹھ کر ہم وران کو دیکھ سکتے تھے۔ یہ جگہ ایک اونچائی پر تھی اور یہاں سے پوری کھائی اور اس میں چلنے والے ہر جانور کا بہترین نظارہ دکھائی دیتا تھا۔ ہماری کمین گاہ کے سامنے جھاڑیاں لگا کر اسے چھپا دیا گیا تھا۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے کہ بعد میں ہمیں پتہ چلا کہ وران کی دیکھنے کی صلاحیت انتہائی حیرت انگیز ہوتی ہے۔

ہاشم دونوں مقامی ساتھیوں کے ساتھ کسی جانور کے شکار پر نکل کھڑا ہوا تاکہ ان لوگوں کو بطور انعام دیا جا سکے۔ میں اور میرا دوست یہیں رک گئے۔ ہم نے بیٹھنے یا لیٹنے کے لیے کوئی مناسب جگہ تلاش کرنا چاہی مگر ناکام رہے۔ پہاڑی کی سطح غیر ہموار اور تندور کی مانند دہک رہی تھی۔ ہم نے ہر ممکن کوشش سے کم تکلیف دہ جگہیں چنیں اور جم گئے۔

سب سے پہلے انگرنگ یعنی لال چیونٹے آئے۔ ان کے جسم کا بڑا حصہ ان کے سر پر مشتمل ہوتا ہے اور سر کا بھی بڑا حصہ محض جبڑا۔ جب یہ چیونٹے کاٹتے ہیں تو انسان تکلیف کی شدت سے اچھل پڑتا ہے۔

یہ چیونٹے پاس موجود کسی کھوکھلے تنے سے آئے ہوں گے۔ ہم نے تو انہیں نہیں چھیڑا مگر شاید ہم ان کے علاقے میں بیٹھے تھے۔ ان سے چھٹکارا پانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ ہمیں اچھلنا گوارا نہیں تھا کہ ہم وران کے غار کے عین سامنے بیٹھے تھے۔

ہم پینتالیس منٹ تک ان لال چیونٹوں کے رحم و کرم پر رہے اور پھر بواجا درات آن پہنچا۔ میرے دوست نے اسے پہلے دیکھا۔ اس نے لمبی گھاس میں کسی چیز کی طرف اشارہ کیا۔ ہلکی سی لہر کی سی حرکت ہو رہی تھی جیسے کوئی چیز گھاس میں احتیاط سے چلتے ہوئے کھلے کو آ رہی ہو۔ بار بار یہ حرکت رک جاتی۔ کئی منٹ تک ہمیں وران کا محض چپٹا سر دکھائی دیتا جو آس پاس کا جائزہ لے رہا ہوتا تھا۔ پھر سر غائب ہو جاتا اور وران آگے کو چل پڑتا۔

مطلوبہ جانور کو لمبی گھاس میں چلتا دیکھنا بہت مزے کا ہوتا ہے۔ جانور کی پیش قدمی کا ہر گز ہیجان میں اضافہ کرتا جاتا ہے۔

جب وران ابھی گھاس میں ہی تھا کہ ہم نے پہاڑیوں پر سے گولی کی آواز سنی۔ ہاشم کو مطلوبہ شکار مل گیا ہوگا۔ اس بات کا بہت کم امکان تھا کہ وران نے یہ آواز سنی ہوگی۔ مگر اس نے سنی بھی تو ان سنی کر دی ہوگی۔ اس نے آرام سے اپنا سفر جاری رکھا اور آہستہ آہستہ کھلے کے قریب ہوتا گیا۔ گھاس کے سرے پر آن کر وہ کچھ دیر رکا اور پھر باہر نکل آیا۔ بہترین جانور جو کہ کم از کم دس فٹ لمبا ہوگا۔ اس کے منہ سے نکلنے والی غراہٹیں ہمیں بخوبی سنائی دے رہی تھیں۔ اس نے سیدھا لاش کا رخ کیا۔ وہ لاش پر چڑھ کر اپنے پنجوں کو کھبو کر اوپر اٹھا اور ہر طرف دیکھنے لگا۔

یہ منظر دم بخود کرنے والا تھا۔ اس کا چپٹا سر سورج کی روشنی میں تانبے کی مانند چمک رہا تھا اور وہ آہستہ آہستہ اپنی موٹی گردن گھماتا رہا۔ اس پورے بے جان منظر میں اس واحد جانور نے جیسے جان بھر دی ہو۔ یہ تصویر کسی قسم کے تکلفات اور تفاصیل سے پاک تھی اور اس ماحول میں وران عجیب قسم کی خوبصورتی لگا۔ ہمیں ایسا لگا جیسے ہم اچانک لاکھوں سال قبل پہنچ کر کسی قدیم بلا کو دیکھ رہے ہوں۔

پھر وران نے احتیاط کا دامن چھوڑ کر لاش کو کھانا شروع کیا۔ سڑتے ہوئے گوشت سے بڑے بڑے لوتھڑے نوچ کر اس نے کھانا شروع کر دیے۔ اس کی اس حرکت سے ہم پر طاری سحر ختم ہو گیا اور ہم واپس حال میں لوٹ آئے۔ اب ہم پھر کموڈو کے جنگل میں تھے اور یہ قدیم بلا محض ایک مردار خور بدصورت جانور تھی۔

اچانک ہم نے ایک اور وران کی موجودگی محسوس کی۔ یہ جانور نسبتاً چھوٹا تھا اور اس نے اپنے پیروں پر خود کو اٹھایا ہوا تھا اور پہلے والے کی مانند غراتا آ رہا تھا۔ پہلے وران نے مڑ کر دیکھا اور ہمیں نے اس کے بدہیئت جسم میں ایک لہر سی دوڑتی دیکھی۔ پھر اس نے غصے سے خود کو اوپر اٹھایا۔ چھوٹا وران رک کر مڑا اور انتظار کرنے لگا۔ دونوں وران کچھ دیر اسی طرح رکے رہے۔ پھر بڑے وران نے لاش سے پیٹ بھرنا شروع کر دیا۔ دوسرے نے کچھ انتطار کیا اور پھر آہستگی سے آگے بڑھنے لگا۔ بڑے نے ایک بار پھر اسے دیکھا اور پھنکارا۔ مگر لڑائی نہیں ہوئی اور دوسرے وران نے بھی کھانا شروع کر دیا۔ اس کی اوپر کو اٹھی ہوئی دم بتا رہی تھی کہ وہ ابھی بھی خبردار ہے۔ لاش ہلتی اور الٹ پلٹ ہوتی رہی کہ دونوں وران اس سے پیٹ بھرنے کے ساتھ ساتھ کھینچا تانی بھی کرتے رہے۔

معلوم نہیں کہ ہم کتنی دیر اس منظر کو دیکھتے رہے اور مشینی انداز میں اپنے جسم سے لال چیونٹے ہٹاتے رہے۔ اچانک کھائی میں ڈھلتے ہوئے سایوں نے ہمیں خبردار کیا کہ تاریکی چھانے والی ہے۔ سورج کو جیسے غروب ہونے کی جلدی ہو۔

میرے دوست نے سرگوشی کی، ‘چلنا چاہیے؟‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور اس نے ایک شاخ کو ہلانا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو وران کو علم نہ ہوا مگر پھر بڑے وران نے اچانک ہماری سمت دیکھا اور پھنکار کر اس نے فرار کی راہ اختیار کی۔ چھوٹا بھی اس کے ساتھ بھاگا۔ ان کی رفتار اتنی تیز تھی کہ ہم بمشکل دیکھ پا رہے تھے۔

پھر ہم اپنی نشستوں سے اٹھے اور بچے کچھے لال چیونٹے نوچ کر الگ کیے اور نیچے اتر کر لاش کی طرف گئے۔ قریب پہنچے تو مکھیوں کا ایک بادل سا اٹھا۔ بدبو ناقابلِ برداشت تھی مگر لاش میں اب بہت کم گوشت بچا تھا۔ ہم نے وران کے راستے کو تلاش کرنے کی کوشش کی مگر دھوپ کی وجہ سے زمین اتنی سخت تھی کہ کچھ نہ دکھائی دیا۔ اس تعفن سے ہمارا جی الٹنے لگا اور ہم نے کیمپ کی راہ لی۔ کھائی تقریباً تاریک ہو چکی تھی اور ہوا چلنا شروع ہو گئی تھی۔

کیمپ پہنچے تو دیکھا کہ سبھی اپنے اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ ہاشم نے ایک جوان ہرن مارا تھا۔ انہوں نے اسے درخت سے الٹا لٹکایا اور اب اس کا گوشت کاٹ رہے تھے۔ دو الاؤ بھی روشن تھے اور کموڈو آدمی ان کے اوپر ہری شاخوں کو پرو کر چھجا بنا رہے تھے۔ اس پر انہوں نے شکار کے گوشت کی پتلی پتلی پٹیوں کو دھواں دینا شروع کر دیا۔ پورے کیمپ میں پکتے گوشت کی خوشگوار مہک پھیلی ہوئی تھی۔

ابلے چاولوں کا برتن تیار تھا اور چائے کی کیتلی بھی۔ جتنی دیر ہم پیٹ بھرتے، ہم نے گفتگو جاری رکھی۔ اپنے رہنماؤں کو شکار کردہ ہرن کے گوشت سے لطف اندوز ہوتے دیکھنا بہت اطمینان بخش تجربہ تھا۔ ان کی زندگی بہت سخت اور مشقت بھری ہوتی ہے اور انہیں پیٹ بھر کر مزیدار کھانا کم ہی کھانے کو ملتا ہے۔ اس لیے انہوں نے اس بار خوب انصاف کیا اور پیٹ بھر کر گوشت کھایا۔

وران کو دیکھنے کے لیے ہمارے پاس کل چار دن تھے۔ پھر ہمارا جہاز لیتوہو خلیج آ جاتا۔ ایک دن ہم وران کی غار کو گئے۔ یہ غار ایک گہری کھائی میں تھا جہاں گھاس اور اکا دکا درخت بھی تھے۔ ایک زخمی سور کا پیچھا کرتے ہوئے ہاشم نے اسے دریافت کیا۔ تاہم اس نے اکیلا اندر جانے کی کوشش نہیں کی۔ جب ہم غار کے منہ پر کھڑے ہوئے تو مجھے سمجھ آئی کہ ہاشم کیوں نہیں گیا۔ اس کی وجہ خوف نہیں بلکہ توہم پرستی تھی۔ اس غار سے سڑتے ہوئے گوشت کی بو آ رہی تھی۔ تقریباً تمام مشرقی آدمیوں کی طرح ہاشم کو بھی موت سے متعلق کسی بھی چیز سے خوف آتا تھا۔ اس لیے اس نے ہمیں اس غار کی تلاشی کے لیے اکیلا چھوڑ دیا۔

ہم نے کئی غاریں دیکھی تھیں مگر ایسا بڑا غار پہلی بار دیکھا۔ افسوس کہ ہمارے پاس لیمپ یا ٹارچ نہیں تھی۔ ہم نے ایک خشک شاخ جلائی اور اس کی مدد سے اندر داخل ہوئے۔

غار کے منہ کے پاس ہی ہمیں خشک ہڈیوں کا ایک چھوٹا ڈھیر دکھائی دیا جو کسی کم عمر جانور کی ہڈیاں لگ رہی تھیں۔ تاہم یہ بو ان ہڈیوں سے نہیں آ سکتی تھی۔ غار تقریباً پانچ فٹ اونچی تھی۔ منہ سے دس فٹ آگے اس کی تین شاخیں ہو گئیں۔ اندر کا ماحول بہت نم اور گرم تھا۔ جیسے کوئی دلدل ہو۔ ہماری مشعل کی لرزتی روشنی میں ہر چیز عجیب لگ رہی تھی۔ تعفن ہر قدم پر بڑھتا چلا جا رہا تھا۔

درمیانی راستہ تیزی سے تنگ ہوتا گیا اور پھر آگے جا کر مڑا۔ اسی سے ہی شاید بو آ رہی تھی کیونکہ جونہی اس میں روشنی داخل ہوئی تو اندر پوشیدہ وران کے پھنکارنے کی آواز آنے لگی۔ پھر سخت کھال والے کسی جانور ہمیں پتھریلی دیواروں پر چلنے کی آواز آنے لگی۔

ہماری مشعل بجھنے والی تھی، سو ہم نے باہر کا رخ کیا۔ اگر مشعل بجھ جاتی تو ہم تاریکی میں ایک انجان وران کے رحم و کرم پر رہ جاتے جو پہلے ہی ہماری موجودگی سے ناراض تھا۔

ہمیں زیادہ تو دکھائی نہ دیا مگر یہ پتہ چل گیا کہ وران جس ماحول میں رہتے ہیں، وہ زہریلا اور متلی دلانے والا ہوتا ہے۔

اگلے دن ہمیں ایک گھوڑے کی آدھ کھائی لاش ملی۔ مقامی افراد نے اسے فوراً پہچان لیا کہ یہ اسی گاؤں کے ایک اور بندے کا گھوڑا تھا۔ یہ لوگ ہر سال افزائشِ نسل کے موسم میں اپنے گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیتے ہیں تاکہ نئی نسل سخت جان پیدا ہو۔

میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وران گھوڑے کو بھی مار سکتے ہیں۔ وران گھوڑے کی طرح برق رفتار نہیں ہوتے اور نہ ہی ان کے پنجے اتنے طاقتور کہ وہ جانور کو دبوچ سکیں۔ تاہم رہنماؤں نے بتایا کہ بواجہ درات ہمیشہ کسی درخت پر چڑھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جب کوئی گھوڑا نیچے سائے میں آرام کرنے آتا ہے تو یہ اس پر چھلانگ لگا دیتے ہیں اور اس کی گردن اور پشت پر پنجے جما کر اسے بھنھوڑتے ہیں۔ حملے کے مقام سے میلوں دور بھاگ کر چوبیس گھنٹے میں ہی گھوڑا انتہائی تکلیف دہ موت مر جاتا ہے۔ وران کو شاید ہی اپنا شکار کردہ جانور مل پاتا ہو۔

اس وضاحت سے اس بات کا بھی ہمیں جواب مل گیا کہ ہمیں درختوں پر وران کے پنجوں کے نشان اتنے بکثرت کیوں دکھائی دیتے تھے حالانکہ ہم نے کبھی کوئی وران درخت پر چڑھے نہیں دیکھا۔

ایک بار ہمیں ایک بڑے وران کی لاش دکھائی دی جو پوری طرح کچلی ہوئی اور ریزہ ریزہ تھی اور آس پاس کی گھاس بھی کچلی ہوئی تھی۔ شاید اس وران نے سور کے بچے پر حملہ کیا ہوگا اور اس کی ماں نے غصے میں آ کر اس کے چیتھڑے اڑا دیے۔ عام طور پر وران سور پر بھاری پڑتا ہے مگر جب جنگلی سور کی مادہ غصے میں آ جائے تو شیر بھی اس کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے۔

چوتھے دن ہمارا جہاز لیتوہو خیلج آ گیا۔ ہم نے کیمپ اکھاڑا اور اپنے مقامی رہنماؤں کو رخصت کیا۔ ہم نے انہیں سرونگ اور تمباکو کے علاوہ بھی بہت سے تحائف دیے جن میں سب سے قیمتی شاید تیل کے پانچ کنستر تھے جن میں خشک شدہ گوشت بھرا ہوا تھا۔

جہاز کے عملے کے لیے بھی ہم تیار تھے۔ میرے دوست نے ایک کم عمر ہرن مارا تھا جو ہمارے اور جہاز کے عملے کے لیے دو دن کافی رہا۔

ہم نے سہ پہر کو لنگر اٹھایا اور پھر کچھ دیر بعد کموڈو کے ساحل کو افق پر گم ہوتے دیکھا۔ یہ ایسی جنگلی اور سخت سرزمین تھی کہ جہاں وقت ہمیشہ کے لیے رک گیا تھا اور آخری ‘ڈریگن‘ یہاں کے باسی تھے۔

‘پتہ ہے کیا، میں نے کئی بار ان بواجہ درات کو شکار کرنے کا سوچا، چاہے اجازت ہوتی یا نہ ہوتی۔ ہر شام میں جب سارے دن کے واقعات کے بارے سوچتا تو میں ان کے شکار کا فیصلہ کر لیتا۔ کم از کم دس تو ہماری زد میں آئے ہی ہوں گے۔ کئی تو بہت بڑے تھے۔ مگر جب بھی مجھے گولی چلانے کا موقع ملتا، کسی نہ کسی وجہ سے میں گولی نہ چلا پاتا۔ مجھے ان کے بارے سوچ کر افسوس ہوتا ہے۔ یہ جانور ہماری دنیا سے الگ لگتے ہیں مگر سینکڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ کموڈو زرخیز نہیں، مگر اس کا مقصد یہی ہے کہ آخری بچے ہوئے بواجہ درات کو پناہ دے سکے۔ کاش کہ یہ سرزمین بحری اور ہوائی جہازوں کی زد سے ہمیشہ دور رہے۔ ‘ میرے دوست نے کہا۔

میرا دوست سارجنٹ میجر عجیب انسان تھا، بیک وقت فلسفی بھی اور بچہ بھی تھا۔

‘یعنی دیہاتی لوگ یہاں ہمیشہ ہی وران کی خاطر غربت اور تکلیف کی زندگی گزارتے رہیں؟‘ میں نے پوچھا۔

اس نے تکلیف سے سر ہلایا اور کہا، ‘نہیں، ایسے مت کہو۔ یہ میں محض تخیل کی وجہ سے کہہ رہا ہوں۔ میں نے اب یہ ‘ڈریگن‘ دیکھ لیے تو مجھے علم ہے کہ یہ وجود رکھتے ہیں اور انہی کی وجہ سے دیومالائی داستانیں بنی ہیں۔ شاید یہی تخیل ہی ہم انسانوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ ان کے بغیر ہماری زندگی بیکار اور خالی ہو جاتی۔ اب چونکہ مجھے علم ہے کہ ‘ڈریگن‘ موجود ہیں تو سوچتا ہوں کہ اور بھی ایسی بہت سی چیزیں پائی جاتی ہوں گی۔ محض تخیل کی خاطر، میں چاہتا ہوں کہ اس جزیرے کو بھلا دیا جائے۔‘

ہم نے جزیرے کی سمت دیکھا، تنہائی اور اکیلے پن کی سرزمین۔ سورج ڈوب چکا تھا اور انتہائی خوبصورت رنگوں کے بادل افق پر تیر رہے تھے۔