Jump to content

آنائی کے شیر انسان - باب 7

From Wikisource

باب ہفتم

مندمل زخم

میرے شکاری دنوں کی یادگاروں میں سے ایک، میرے ماتھے اور کنپٹیوں پر مندمل زخموں کے نشانات ہیں۔ یہ نشانات مجھے بنٹنگ یعنی خطرناک جنگلی بھینسوں کے شکار کے دوران لگے تھے۔ یہ شکار ایک جزیرہ نما جگہ پرکیا تھا۔ یہ وہی سال تھا جب میں نے ٹنڈجنگ سوڈنگ میں کچھوؤں کو کتوں کی خوراک بنتے دیکھا تھا۔ میرا ایک دوست وسطی جاوا میں گورنر کے عہدے پر فائز تھا اور اس نے مجھے مروس کے پاس جنوبی ساحل پر شکار کی دعوت دی۔ اب یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں کہ میں نے فوراً یہ دعوت قبول کر لی اور وسطی جاوا کو روانہ ہو گیا جہاں تین دن میں نے گورنمنٹ ہاؤس میں میزبانی کا لطف اٹھایا۔

میری آمد کے اگلے دن ہم اس علاقے کی سیر کو گئے جہاں ہم نے شکار کھیلنا تھا۔ پرانے انداز کی گھوڑا گاڑیاں تھیں جنہیں گورنر کے گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ ان پر بیٹھ کر ہم شکارگاہ پہنچے جو بیس میل جنوب میں واقع تھی۔ جنگل کے قطعے کے سامنے سورج کے رخ پر چھ فٹ اونچی النگ النگ گھاس اگی ہوئی تھی اور جگہ جگہ بانس کے جھنڈ اور جھاڑیاں بھی تھیں۔ النگ النگ کے میدان تین سمتوں میں افق تک پھیلے ہوئے تھے۔ یہ گھاس زرد رنگ کی اور خشک تھی اور ایسے لگتا تھا کہ آگ کے شعلے تھم گئے ہوں۔

درختوں کے تنوں سے بنے اونچے جھونپڑے اس جگہ موجود تھے جہاں گورنر اور اس کے مہمان بیٹھتے تھے۔ مہمانوں میں یورپی کنٹرولر، بی بی، تین وڈانا (مقامی رہنما)، گورنر کے کچھ رشتہ دار اور میں شامل تھے۔ ہر فرد کے لیے ایک ہٹ تھا اور ہٹوں کے درمیان سو گز کا فاصلہ تھا۔ اس طرح لگ بھگ ہزار گز ہمارے شکار کی زد میں ہوتا۔

یہاں اس علاقے کے وڈانا، کمپونگ کے دو نمبرداروں اور شکار کے سربراہ نے ہمارا استقبال کیا۔ یہ لوگ ہمارے استقبال کے لیے بنائے گئے نئے چبوترے پر موجود تھے۔ یہ چبوترہ چار بانسوں پر قائم تھا جس پر خشک النگ النگ گھاس کی چھت بنی ہوئی تھی۔ اس کے نیچے ایک بڑی میز اور بہت ساری کرسیاں تھیں۔ ایک دوسری چھت کے نیچے باورچی خانہ تھا جہاں کئی خواتین ہمارے لیے کھانا تیار کر رہی تھیں۔ ایک گاڑی پر مشروبات بھی تھے۔ اتنی دور افتادہ جگہ پر بھی ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔ گورنر بہترین میزبان تھا۔

جب ہم آرام سے بیٹھ کر سفر کی تھکان اتارتے اور مشروبات سے شغل کرتے رہے، شکار کے انتظام کے بارے تفصیلی بات ہوتی رہی۔ گورنر کے شکار میں ہمارے یورپی شکار کا شائبہ تک نہ تھا۔ قدیم شکاری پارٹیوں کی مانند اس شکار میں قصابانہ جھلکیاں واضح تھیں۔

مقامی لوگوں کے لیے گورنر نہ صرف ان کا منتظم تھا بلکہ کی مشکلات کے دوران ان کی مدد اور رہنمائی بھی کرتا تھا۔ اگر بارہ سنگھے یا جنگلی سور ان کی فصلوں کو اتنا نقصان پہنچاتے کہ قحط کا خطرہ ہو جاتا تو وہ گورنر کے پاس اپنا وفد بھیجتے تاکہ گورنر ان جنگلی جانوروں کے شکار کا انتظام کرے۔ یہ عادت بعد میں گورنروں کا شغل بن گئی۔ اس شکار سے مہینوں قبل گورنر مقامی لوگوں کو احکامات بھجوا دیتا تاکہ لوگ قابلِ شکار جانوروں کو محدود جگہوں پر گھیر کر باڑ لگا دیتے۔ پھر جب شکار کے دن قریب ہوتے تو مقامی لوگ مناسب مقامات پر شکاریوں کے لیے کمین گاہیں بنا دیتے اور اس جانب سے رکاوٹیں ہٹا دی جاتیں۔ شکار کے دن ہانکے والے ان احاطوں کی مخالف سمت جمع ہوتے اور ہر ممکن شور کر کے جانوروں کو شکاریوں کی طرف بھیجتے۔ گورنر اور اس کے عزت مآب مہمان اپنی جگہوں پر بیٹھے نکلنے والے جانوروں کے قتل میں مصروف ہو جاتے۔

ہمارے بنٹنگ کے شکار کا موقع گورنر کے شکار کے موقع پر آیا مگر حالات فرق تھے۔ یہ بڑے بھینسے فصلوں کو زیادہ نقصان نہیں دیتے تھے۔ تاہم حالیہ برسوں میں ان کی تعداد اتنی بڑھ گئی تھی کہ مقامی آبادی نے مدد مانگی۔ ماضی میں مقامی لوگ لمبے چاقوؤں اور تیز رفتار گھوڑوں کی مدد سے ان کا شکار کرتے تھے۔ وہ لوگ بنٹنگوں کو لمبی گھاس میں لا کر پھر چاقو کی مدد سے ان کے سینے پر وار کرتے تھے۔ ظاہر ہے کہ ایسے شکار میں بہت زیادہ ہمت درکار ہوتی تھی۔ تاہم اب یہ اونچی اور مضبوط کمین گاہوں تک محدود ہو گیا تھا۔ یہاں ہم محفوظ اور آرام سے کرسیوں پر گدیاں ڈالے بیٹھے تھے اور ہمیں بھینسوں کے ظاہر ہونے کا انتظار کرنا تھا۔

میں شکاریوں کی قطار میں بائیں جانب آخری سے پہلا تھا اور میرے پیچھے بانس کا جنگل تھا۔ سامنے النگ النگ کا میدان تھا جو پچاس گز چوڑا ہوگا۔ اس میں دس گز چوڑی پٹی سے گھاس کاٹ دی گئی تھی۔ دائیں اور بائیں دیگر شکاریوں کی کمین گاہیں مجھے گھاس کے اوپر سے دکھائی دے رہی تھیں۔

سورج پہلے ہی کافی اونچا ہو گیا تھا اور روشنی آنکھیں چندھیا رہی تھی۔ بہت اوپر کوئی پرندہ دائروں میں گھوم رہا تھا جس کے علاوہ کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیا۔ گورنر کی طرف سے ہر ہٹ میں سگریٹ کے لیے تمباکو، کافی کی بوتل اور پسانگ (پان) کے پتوں میں کچھ کھانے کی چیزیں بھی رکھی گئی تھیں۔ میں نے تمباکو نکال کر ایک سگریٹ بنایا۔ سگریٹ پیتے ہوئے میں شکوک کا شکار ہو گیا۔ شکار کا یہ طریقہ اتنا اجنبی تھا کہ میں نے سوچا کہ اگر میں گورنر سے اجازت لے کر نیچے اتروں اور خود ہی شکار کو تلاش کر کے اسے شکار کروں تو کیا اسے برا تو نہیں لگے گا۔ اس طرح زیادہ مزہ آتا اور اس سمت آنے والے بنٹنگ کو بہتر موقع ملتا۔

گورنر میرے والدین کا پرانا دوست تھا اور مجھے میرے بچپن سے جانتا تھا۔ بہت پہلے میں اس کے بچوں کے ساتھ اس کی سرکاری رہائش گاہ کے صحن میں چھپن چھپائی کھیلتا تھا۔ یعنی میرے تعلقات ان لوگوں سے بہت اچھے تھے۔ میں جہاں بھی جاتا تو مجھے مشروبات اور اچھی کتب ہمیشہ گورنر اور اس کی بیوی کی جانب سے بھجوائی جاتیں۔ اس کے علاوہ میں جب بھی جاوا میں ہوتا تو ہر تقریب میں شرکت کا دعوت نامہ بھی لازمی ملتا۔ یعنی گورنر سے میری اتنی بے تکلفی تھی کہ میں یہ بات کر سکتا تھا۔

اس لیے میں نے آرام اور حفاظت کو ایک طرف رکھا اور نیچے اتر کر چھ فٹ اونچی گھاس سے گزر کر گیا۔ حفاظت کے خیال سے میں نے اپنی بندوق کی نالی پر اپنا سفید رومال باندھا اور اسے گھاس کے اوپر بلند کیے رکھا۔

پہلے ہٹ پر ونڈانا بیٹھا تھا جس نے مجھےدیکھتے ہی تشویش سے پوچھا کہ خیریت تو ہے؟ میں نے اسے تسلی دی اور شکار کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے سفر جاری رکھا۔ آخرکار میں گورنر کے ہٹ کو جا پہنچا جو مجھے کچھ دور سے حیرت سے دیکھے جا رہا تھا۔

میں نے اسے اپنی درخواست پیش کی اور صاف دکھائی دیا کہ وہ پریشان ہو گیا ہے۔ مجھے تشویش ہوئی کہ کہیں میری بات سن کر وہ خفا نہ ہو جائے، مگر اس نے آہستگی سے بات شروع کی:

‘ہاں میرے بچے، مجھے کافی پریشانی ہو رہی ہے۔ اس لیے نہیں کہ تم ناتجربہ کار ہو، بلکہ اس لیے کہ جب تم اونچی گھاس میں بنٹنگ پر گھات لگاؤ گے تو دوسرے شکاریوں کی گولیوں کا شکار بھی ہو سکتے ہو۔ اس کے علاوہ زخمی اور غصیلا بنٹنگ شیر سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ خیر، یہ سب کہنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ خیر، تمہیں کچھ ہوا تو مجھے بہت افسوس ہوگا۔ گھر میں کئی ایسی اچھی چیزیں ہیں جو تمہیں نہیں چھوڑنی چاہیئں۔ خیر، اب جا کر اپنے ہٹ میں بیٹھو ، بنٹنگ آنے ہی والے ہوں گے۔ ‘

اس پدرانہ شفقت بھری نصیحت پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اس بات پر خوش ہوا کہ میری درخواست سے اسے تکلیف نہیں پہنچی۔ سو میں نے ایک بار پھر اصرار کیا۔ میں نے اس سے وعدہ کیا کہ میں فائرنگ لائن یعنی شکاریوں کی قطار سے دور رہوں گا۔ چونکہ مہمانوں کو محض سامنے گولی چلانے کی ہدایت کی گئی تھی، اس لیے زیادہ خطرہ ویسے بھی نہیں تھا۔ میں نے وعدہ کیا کہ پوری طرح محتاط رہوں گا اور کسی طور بھی بنٹنگ کے سینگوں کی زد میں نہیں آؤں گا۔ میں نے اتنا اصرار کیا کہ گورنر کو اجازت دیتے ہی بنی۔ مگر اس نے ڈھیر ساری نصیحتیں بھی کر دیں۔

میں نے گورنر کا شکریہ ادا کیا اور چل پڑا۔ جب میں فائرنگ لائن کے پیچھے مناسب جگہ تلاش کر رہا تھا تو دور سے میں نے پہلے ہانکے کی آواز سنی۔ مسلح ہانکے والوں کی لمبی قطار تھی جو دس دس قدم کی دوری پر چل رہے تھے، جنگل سے نکل کر اس میدان میں گھستی دکھائی دی۔ ابھی وہ لوگ یہاں سے آدھا میل دور تھے۔ ان کی آوازیں بلند سے بلند تر ہوتی گئیں جو اس سمت چلنے والی ہوا لا رہی تھی۔ ان کی آواز اجنبی لگ رہی تھی۔

النگ النگ کے پورے میدان کی چوڑائی پر پھیلے ہانکے والے بڑھتے چلے آ رہے تھے اور تمام جانور ان کے آگے بھاگ رہے تھے۔ پرندے اڑتے رہے اور بندر چیخیں مارتے رہے مگر کتوں کی آواز نہ آئی۔

تیزی سے اونچی گھاس میں اپنا راستہ بناتے ہوئے اور بندوق پر رومال کو بلند کیے میں بڑھتا رہا۔ پندرہ منٹ بعد مجھے بہترین کمین گاہ دکھائی دی جو میری مچان کے برابر بلندی پر مگر اس سے کچھ پیچھے تھی۔ اس جگہ دو چھوٹے درختوں کے درمیان سے سامنے کا بہترین نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس جگہ سے مجھے ہانکے کا بخوبی علم ہو رہا تھا اور میں بیٹھا بنٹنگ کا انتظار کر رہا تھا۔

ہانکے والوں کی آواز قریب سے قریب تر ہوتی گئی ۔ اچانک مجھے انتہائی دائیں جانب سے کتوں کے بھونکنے کی آواز سنائی دی جو میرے لیے بری علامت تھی۔ ہر شکاری جانتا ہے کہ ہانکے کے دوران کتوں کی آواز کا کیا اثر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ساری آوازیں ایک ساتھ مل کر بلند ہوئی ہوں اور رائفل کی لبلبی پر انگلی تن جاتی ہے۔

ہانکے والوں اور کتوں کا شور و غل قریب ہوتا چلا آیا۔ آگے جھک کر میں نے شاخیں ہٹائیں اور جھانکا۔ میرے سامنے النگ النگ کا میدان دور دور تک واضح دکھائی دے رہا تھا۔ وہاں جانور بھی دکھائی دیے۔ میری دائیں جانب اوپر تلے دو گولیاں چلیں۔ میں جوش کے مارے کھڑا ہو گیا۔ ایسے وقت میں ہر شکاری خودغرض ہو جاتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا کہ گولیاں کس نے چلائی ہوں گی اور ان کا کیا نتیجہ نکلا ہوگا۔ قبل اس کے مجھے پتہ چلتا کہ یہ گولیاں ایک ونڈان نے چلائی ہیں اور ایک شاندار بارہ سنگھا شکار کیا ہے، میرے سامنے چیزیں تیزی سے وقوع پذیر ہونے لگ گئیں۔ مجھے یہ واقعات بہت دیر تک یاد رہیں گے کہ میرے چہرے پر لگے زخموں کے مندمل شدہ نشانات اس کی گواہی ہیں۔

میرے عین سامنے چیزیں آنا شروع ہو گئیں۔ مجھے ہانکے والوں کے شور کی آواز اور ڈھول تاشے کے شور بھی سنائی دے رہے تھے۔ پھر مجھے کئی گولیاں چلنے کی آوازیں آئیں۔ گولیاں بے ترتیب چل رہی تھیں۔ بعض یکے بعد دیگرے تو بعض زیادہ وقفے سے۔ گولیاں ہوا سے گزر رہی تھیں اور مجھے جوش نے آ لیا۔

اچانک بغیر کسی انتباہ کے ایک کڈانگ رکی اپنے بچے کے ساتھ گھاس سے نکلی۔ تیزی سے جائزہ لیتی اور سر کو ادھر ادھر گھماتی، جست لگاتے ہوئے میرے پاس سے گزری۔ میں نے انہیں آرام سے گزرنے دیا۔ مجھے صبر کا پھل فوراً مل گیا کہ اس کے فوراً بعد ایک بہت بڑا سور میرے سامنے سے گزرا۔ میری گولی اس کی آنکھوں کے عین درمیان لگی اور خالی ہوتے ہوئے بورے کی طرح وہ گرا۔ اس کا سر بڑا، بھوری مونچھیں اورمدھم سفید کچلیاں تھیں۔

بعجلت میں نے اپنی تین نالی بندوق کھولی اور پھونک مار کر نالی میں لگا بارود اڑایا اور نئی گولی بھری۔ ابھی میں نے بندوق بند کر کے گھوڑا چڑھایا ہی ہوگا کہ میرے سامنے بائیں جانب گھاس سے انسانوں اور کتوں کا ایسا شور سنائی دیا جیسا محض اس وقت سنائی دیتا ہے جب کسی بھینسے کو پھنسا لیا گیا ہو۔ ہر ممکن کوشش سے میں نے آگے دیکھنے کی کوشش کی۔ جلد ہی میرے سامنے گھاس میں آڑی ترچھی کی بجائے سیدھی لکیر میں حرکت دکھائی دی اور وقفے وقفے سے سرخی مائل بھوری پشت دکھائی دی۔ انتہائی جوش کی کیفیت میں میں نے جان لیا کہ میری امید ناکام نہیں رہی۔

یہ جانور اس جگہ پہنچا جو میرے ہٹ سے پچاس گز دور تھی اور وہاں دس گز چوڑائی میں گھاس کٹی ہوئی تھی۔ بہترین نظارہ دکھائی دیا کہ دنیا کا خوبصورت ترین بھینسا میرے سامنے حسن اور طاقت کا بہترین نمونہ بنا کھڑا تھا۔ انتہائی سکون سے چلتے ہوئے اور فولادی جسامت کے ساتھ، اس کی سرخی مائل بھوری کھال پر بڑے بڑے سفید دھبے تھے، گردن جیسے پتھر کو تراش کر بنائی گئی ہو، تیز سینگ جو نفاست سے مڑے ہوئے تھے، میرے سامنے تھا۔ میں نے مسحور ہو کر دیکھا۔ بہت مشکل سے میں نے اس پر گولی چلانے سے خود کو روکا۔

پھر پہلی گولی چلی۔ کنٹرولر نے ماؤزر سے گولی چلائی۔

بھینسا ویسے ہی کھڑا رہا، جیسے فیصلہ نہ کرپا رہا ہو۔ اس کے جسم کی حرکت سے پتہ چل رہا تھا کہ سانس لے رہا ہے اور خون کا ایک قطرہ تک دکھائی نہ دیا۔ اچانک بنٹنگ کے پیچھے ایک ہلکے رنگ کے کتے نے گھاس سے سر نکالا اور فوراً ہی اس نے بھینسے کی پچھلی ٹانگ میں دانت گاڑ دیے۔ فوراً ہی دیگر کتے پہنچ گئے اور بھونکنے لگے۔ انہوں نے بنٹنگ کو ہر طرف سے گھیر لیا اور شور کرنے لگے اور ہر ممکن کوشش سے اس کو مختلف جگہوں پر کاٹنے لگے۔

بنٹنگ نے دولتی چلائی اور جو کتا اس کی پچھلی ٹانگ کو دبوچے ہوئے تھا، اڑ کر گھاس میں دور جا گرا اور اس کی چیخ اچانک تھم گئی۔ اس عظیم بھینسے نے دیگر کتوں سے ایسے پیچھا چھڑایا جیسے ہم مکھیاں اڑاتے ہیں۔ آہستہ سے مڑ کر اس نے سر جھکایا اور سامنے موجود ہر کتے کو اپنے سینگ دکھائے۔ کتے بھی اس کے ساتھ ساتھ مڑتے رہے اور جونہی بھینسا ان کی طرف بڑھتا تو پیچھے ہٹ جاتے۔ مجھے حیرت ہوئی کہ کنٹرولر نے پھر گولی کیوں نہیں چلائی۔

پھر اچانک اس بار دائیں جانب سے ایک گولی چلی۔ دہشت سے مڑ کر اس نے دوڑ لگا دی اور راستے میں موجود کتوں کو کچلتا ہوا بھاگا۔ مجھے یقین نہ آ سکا۔ پھر اس نے ٹھوکر کھائی اور میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

اب میرا موقع تھا۔ میں نے چٹان سے چھلانگ لگائی اور محتاط انداز میں پیچھے بھاگا۔ ہر ممکن تیزی سے بھاگتے ہوئے میں نے اس جگہ کا رخ کیا جہاں بھینسا گرا تھا۔ جب میں اس جگہ پہنچا تو دیکھا کہ وہ جگہ خالی تھی اور دائیں جانب سے آواز آئی۔ میں اس جانب بھاگا تو دیکھا کہ دور گھاس ہل رہی تھی۔ اس جگہ مجھ سے ستر گز دور بھینسا سر اٹھائے کھڑا تھا۔ اس کے منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا اور اس کی بائیں ٹانگ ناکارہ تھی۔ اس جگہ کھڑا جھومتا رہا۔ پھر جیسے اچانک اس میں کوئی شیطانی روح حلول کر گئی ہو، انتہائی تیز رفتاری سے اس نے سر جھکا کر سیدھا مجھ پر حملہ کر دیا۔

میری بندوق خود بخود میرے شانے پر آگئی اور میں نے سانس باہر نکالا۔ مشینی انداز میں میں نے نشانہ لیا اور میرے شانے پر دھکا لگا اور گولی کی آواز گونجی۔ میں نے محسوس کیا کہ گولی نشانے پر لگی ہے مگر بھینسا اسی رفتار سے بڑھتا چلا آیا۔ میں نے دوسری گولی چلائی اور بھینسا پھر بھی نہ رکا۔ اب پسینہ میری گردن سے ہوتا ہوا سینے پر بہہ رہا تھا اور میں نے تیسری گولی چلائی۔ بھینسا پھر بھی دوڑتا آیا۔

گھبراہٹ میں میں نے دائیں جانب النگ النگ میں جست لگائی اور جان بچانے کے لیے بھاگ پڑا۔ سیدھا گھاس اور جھاڑیوں کے بیچ سے گزرتا، گرے درختوں کے تنے پھلانگتا اور پسینے سے شرابور میں اپنی جیب میں مزید کارتوس تلاش کرتا رہا۔ خون میری کنپٹیوں پر جیسے ٹھوکریں مار رہا ہو۔ اس کے علاوہ میں نے محسوس کیا کہ بھینسا میرے پیچھے ایک لمحے کو رکا جیسے اس نے میرے فرار کی سمت کو جاننے کی کوشش کی ہو اور پھر میرے پیچھے سخت زمین پر بھاگ پڑا ہو۔ میں سیدھا بھی بھاگا اور آڑا ترچھا بھی، مگر بھینسا میرے پیچھے لگا رہا۔

میرے سامنے بانس تھے۔ میں نے بلاجھجھک ان کا رخ کیا کہ یہ میرے بچاؤ کا واحد راستہ تھا کہ بانس کے جھنڈ بہت گھنے ہوتے ہیں۔ بانس کے چاقو کی مانند تیز پتوں نے میرے بازوؤں پر زخم لگائے اور کانٹے چبھتے رہے مگر میں نے راستہ بنا ہی لیا۔ پھر اچانک مجھے خوف نے آ لیا۔ میں اپنی زندگی کے لیے لڑ رہا تھا مگر آگے نہیں جا سکتا تھا۔ میں دو بانسوں کے درمیان پھنس گیا۔ سامنے ایک گز بھی دیکھنا مشکل تھا اور پیچھے بھینسا لگا ہوا تھا۔ پھر ایک ہی کام باقی بچا تھا۔ بری طرح ہاپنتے ہوئے میں نے پتلون کی جیب سے کارتوس نکالا اور انتہائی مہارت سے بندوق بھری اور پھر مڑا تاکہ بازو آزاد ہو جائیں اور گولی چلا سکوں۔ مجھے کولہوں میں تیز درد کا احساس ہوا مگر میں خطرے کی سمت منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔ میرا سینہ بہت تیزی سے حر کت کر رہا تھا اور بندوق میرے ہاتھوں میں ہل رہی تھی۔

وہ رہا! گھنی گھاس میں کسی چیز کی حرکت کی آواز آ رہی تھی۔ مجھے پتے ہلتے دکھائی دیے اور پھر بھینسا دکھائی دیا۔ اتنی عجیب حالت میں کیسے کوئی انسان اپنی جان بچانے کے لیے گولی چلا سکتا ہوگا؟ مجھے تھوڑا سا بھی سکون مل جاتا تو کام آسان ہو جاتا۔

اچانک جیسے انسان کسی بھیانک خواب سے بیدار ہوتا ہے، مجھے انسانی آوازیں آنے لگیں۔ ہانکے والے پریشانی اور فکرمندی سے چلا رہے تھے، ‘بنداراہ، بنداراگ! لوہا بندارا بوتن انتن (تھوان موجود نہیں)‘۔

تمام تر طاقت مجتمع کرنے کے بعد میں چلایا، ‘کینے کینے (یہاں، میں یہاں ہوں)۔‘

فوری ردِعمل ملا۔ میں نےمحسوس کیا کہ فکر، پریشانی اور خوف مجھ سے اچانک دور ہو گئے۔ مگر ساتھ ہی میں اچانک بہت کمزور اور بیمار سا محسوس کرنے لگا۔ پھر اچانک جیسے دو بنٹنگ آ گئے ہوں، دو بھورے چہرے میرے سامنے نمودار ہوئے اور میں ان پر گولی چلاتے چلاتے رہ گیا۔ گھنٹے بعد میں نے انہیں اچھے انعام سے نوازا۔

میرے لیے مسکرانے میں مشکل ہو رہی تھی اور مجھے حالات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ کیا ہوا۔ ‘بنٹنگ کہاں ہے؟‘ میں نے پوچھا۔

اپنی آنکھوں کے اوپر سے پسینہ پونچھ کر انہوں نے گہری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا ‘باہر بندرارا، مردہ!‘

انہیں بانس کے درخت کاٹنے پڑے، پھر جا کر میں آزاد ہوا۔ میں نے انتہائی تشکر سے نیلے آسمان، النگ النگ گھاس اور گورنر کے پریشان چہرے کو دیکھا۔ تھوڑی دور سرخی مائل بھورے رنگ کا پہاڑ تھا، مردہ بنٹنگ۔

میں شرمندگی سے ہنسا اور گورنر کا ہاتھ تھاما۔ گورنر نے مجھے ہر طرف سے اچھی طرح دیکھ بھال کر پھر مبارکباد دی۔ میں حیران رہ گیا، میں نے بنٹنگ مار لیا؟ بظاہر میں نے ہی ہلاک کیا تھا اور اسی وجہ سے سبھی مجھے مبارکباد دینے آ رہے تھے۔ میری خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی، میں بنٹنگ کے پاس گیا۔ بھینسے کا معائنہ کرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ میرے جسم میں انتہائی شدید درد ہو رہا ہے میرے منہ میں نمکین پسینے اور خون کا ذائقہ تھا۔ جیب سے رومال نکال کر میں نے ماتھے سے پسینہ پونچھا۔ درد ناقابل برداشت لگ رہا تھا۔ میرے سارے منہ پر جیسے دہکتے انگارے رکھے ہوں۔ پسینہ ان زخموں پر جیسے نمک چھڑک رہا ہو۔ جب میں نے رومال دیکھا تو وہ خونم خون ہو رہا تھا۔

پھر گورنر مجھے نرمی سے ایک طرف لے گیا۔ میں اس وقت قابلِ دید نظارہ رہا ہوں گا، لیر لیر کپڑے اور چہرہ سوجا ہوا اور خون سے رنگا۔

گورنر نے خود میرے بازو اور منہ کو گیلے تولیے سے پونچھا اور جب میں نے تولیہ لینے کی کوشش کی تو اس نے منع کر دیا۔

ایک ملازم نے سگریٹ جلا کر میرے ہونٹوں میں دے دیا اور دوسرا میرے لیے جن کا گلاس لایا۔ آدھا گلاس تو مجھ سے چھلک گیا۔ تاہم مجھے سب سے زیادہ تکلیف گورنر کی پریشانی کو دیکھ کر ہو رہی تھی۔ مگر گورنر بہت مہربان اور شفیق تھا۔ اس نے گزرے واقعات پر ایک لفظ بھی نہیں ضائع کیا۔ اس نے محض اتنا کہا:

‘تم دیکھنا کہ جب اس حالت میں میں تمہیں لے کر جاؤں گا تو میری بیوی کا کیا ردِعمل ہوگا!‘

پھر ہم نے گرم چاول کھائے اور ہانکے والے بتا رہے تھے کہ بانس کے جھنڈ میں پہنچنے سے قبل بھینسے کی ہمت جواب دے گئی اور وہ گر گیا۔ جب یہ لوگ مجھے اٹھانے آئے تو انہوں نے بھینسے کو رحم کھاتے ہوئے تکلیف سے نجات دلا دی۔ پھر وہ یہ خبر لے کر میرے پاس پہنچے۔

بھینسا بوڑھا نر تھا جو افزائشِ نسل کے زمانے سے ہٹ کر ہمیشہ اکیلا رہتا ہوگا اور النگ النگ کے میدانوں اور پہاڑوں پر رات کے وقت چرتا ہوگا ۔ مون سون کے دور میں اپنے جسم پر کیچڑ کی موٹی تہہ چڑھاتا ہوگا تاکہ مکھی مچھروں سے بچ سکے۔ خشک موسم میں وہ آبادیوں کا رخ کرتا ہوگا۔

بہت خوبصورت اور جاندار جانور تھا۔ اس کے سینگ اور دانت بہترین حالت میں تھے اور اس کے ایک پہلو پر گہرا زخم تھا۔ شاید کسی دوسرے نر سے مقابلے کے دوران اسے یہ زخم لگا ہوگا۔

دھکے اور تکلیف کی کیفیت سے باہر نکلنے کے بعد مجھے سکون آ گیا۔ بنٹنگ کی کھال کے نیچے اس کے پٹھے ابھرے ہوئے تھے اور اس کی کھال سے جنگل کی بو آ رہی تھی۔ بے تاج بادشاہ۔

گورنمنٹ ہاؤس واپسی پر گورنر کی بیوی کا سامنا کرنا میرے لیے مشکل تھا مگر گورنر نے ہنس کر کہا:

‘ارے نہیں، یہ محض جوانی کا جوش ہے، وقت کے ساتھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اس کے لیے اتنی سزا کافی ہے کہ آج کی رات اسی چہرے کے ساتھ بال پر جائے گا‘۔

واقعی، اس رات بال (ڈانس) کا پروگرام تھا اور اس چہرے کے ساتھ میں کافی عجیب لگ رہا تھا۔ مگر کھانا عمدہ تھا اور مجھے بہت مزہ آیا۔

ہمارے میزبان اس تقریب کی جان تھے اور مہمانوں میں ان کا درجہ منفرد تھا۔ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود رہے۔

دو دن بعد جب میں واپس روانہ ہوا تو گورنر نے مجھے ایک بہت عمدہ شکاری چاقو دیا جس کے دستے پر خوبصورت بنٹنگ کا سر کندہ تھا۔ اس شکار کی بہترین یادگار۔