آنائی کے شیر انسان - باب 6

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

باب ششم

اڈجاک

میں کئی سال سے مغربی جاوا میں کام کر رہا تھا اور میرا کام بٹنزورگ سے رنگ کسبٹنگ کے درمیان سڑک کا سروے کرنا تھا۔ مجھے جنگل میں فطرت کے قریب رہنا بہت راس آیا مگر کچھ وقت شہر میں گزارنا بھی اچھا تجربہ تھا۔ کام سے فارغ ہو کر میں اور میرا ساتھی شہر میں رکنے کی بجائے بٹنزورگ کا رخ کرتے جو ڈیڑھ گھنٹہ دور تھا۔ بٹنزورگ ایک پہاڑی دیہات تھا جو سبز پہاڑیوں اور وادیوں کے درمیان کسی نگینے کی طرح جڑا ہوا تھا۔

پورا علاقہ قابلِ شکار جانوروں سے اٹا پڑا تھا۔ سور اور تیندوے بالخصوص کثرت سے تھے۔ تاہم ہمیں بڑا شکار نہیں دکھائی دیا۔ مزید جنوب کی طرف جائیں تو بنٹنگ ملتے تھے جو بھینسے کی ایک قسم ہے۔ تاہم وہاں جانے کا ہمیں کم ہی وقت ملتا تھا۔

میں اور میرا ساتھی دونوں ہی شکاری تھے اور اس کے علاوہ بھی ہم اچھے دوست تھے اور ہر کام ایک ساتھ کرتے تھے۔ میرے ساتھی کا بھائی ایک پلانٹیشن کا نگران تھا جو کئی برس سے استعمال ہو رہی تھی مگر اب بھی اسے اچھی خاصی توجہ درکار ہوتی تھی۔ اس جائیداد کا بڑا حصہ مقامی افراد کو چاول کی کاشت کے لیے مستاجری پر دیا جاتا تھا اور نگران کا کام محض بیج مہیا کرنا تھا۔ مزارعین بدلے میں پلانٹیشن کے کام بھی کرتے تھے اور چاول کی فصل سے بھی کچھ حصہ بطور معاوضہ دیا کرتے تھے۔ اس طرح زمین مستقل استعمال میں رہتی تھی اور مقامی آبادی کو روزگار ملتا تھا اور مالک کے اخراجات بھی کم ہو جاتے تھے۔ یہ گاؤں ٹنڈجنگ یعنی خلیج سوڈنگ کے ساحل سے بیس میل دور تھا۔ اس کم آبادی کی وجہ سے حالیہ برسوں میں جنگلی سوروں کی آبادی بہت بڑھ گئی تھی اور اس سے مقامی آبادی اور پلانٹیشن کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ میرے ساتھی کے بھائی کے پاس شکار کا کافی وقت تھا اور وہ ڈِنگ ڈِنگ (شکار شدہ جانور کو نمک لگا کر خشک کرنا) سے بھی خاصی کمائی کر لیتا تھا۔

ایک دن اس نے ہمیں اپنے سلطنت دکھانے کے لئے دعوت دی۔ ہم دونوں نے چار دن کی چھٹی لی اور روانہ ہو گئے۔ دو دن تو آنے جانے کے سفر پر خرچ ہونے تھے۔ ہم شام کو روانہ ہوئے اور اگلے دن دوپہر کو وہاں جا پہنچے۔

سفر کے بارے بتانے کو کچھ خاص نہیں۔ بس سارا علاقہ ہی غیر آباد تھا جو ان چھوئے جنگلات سے کہیں زیادہ مختلف تھا۔ راستہ سارا ہی ایسے غیر آباد علاقوں سے گزرتا تھا۔ راستے کی دیکھ بھال نہیں کی گئی تھی اور بہت برے حال میں تھا۔ مغربی مون سون کے دوران یہ سارا راستہ ناقابلِ عبور دلدل بن جاتا ہوگا اور خشک مون سون کے دوران زمین پھٹ جاتی ہوگی اور جگہ جگہ ٹوٹی شاخیں اور ایلیفنٹ گراس اگ آتی ہوگی۔ سارے راستے پر باریک گرد کی موٹی تہہ تھی جو ہماری گاڑی کے پہیوں سے اڑ کر ہوا میں بلند ہوتی رہی۔ کہیں کہیں ہمیں راواہ (دلدل تالاب) دکھائی دیتی تھی اور ہمیں اس کا احساس مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ سے ہوتا تھا۔ راستے میں ہم تین کمپونگوں سے گزرے اور وہاں سے گھوڑے بدلے اور سفر جاری رکھا۔ کوئی بھی کموپنگ بیس جھونپڑیوں سے زیادہ بڑا نہیں تھا۔

آٹھ بجے صبح ہم آخری کمپونگ کو پہنچے۔ ہمارے سامنے تاحدِ نگاہ خالی چٹیل میدان تھا اور آسمان بالکل صاف۔ گاڑی پر لگے کپڑے سے سورج کی شعاعیں گزر کر ہمیں جھلسا رہی تھیں۔ گاڑی کے پہیوں پر لوہے کی پتری چڑھی ہوئی تھی اور ہر اونچ نیچ ہمیں بری طرح محسوس ہوتی۔ ہمارے گزرنے سے اتنی دھول بلند ہوتی کہ ہم چند گز پیچھے بھی نہ دیکھ پاتے۔ دھول کی وجہ سے ہی سورج کی روشنی زردی مائل دکھائی دیتی تھی۔ منحنی سے جاوا نسل کے گھوڑے ہمیں دنیا کے دوسرے کونے تک لے جانے کو تیار تھے۔

آخرکار دن کے گرم ترین حصے میں جب ہم اپنے سفر کی طوالت سے مایوس ہونے لگے تھے کہ ہماری منزل آ گئی۔ میرے ساتھی کے بھائی نے ہمارا والہانہ استقبال کیا جو مہینوں تنہا رہنے کے بعد ہمیں دیکھ کر نہال ہو رہا تھا۔ مہینوں بعد ہی کوئی اسے ملنے آتا تھا۔ شاید اسی وجہ سے وہ کچھ عجیب سا ہو گیا تھا۔ اس کا رنگ مقامی افراد جیسا گہرا اور جلد کھردری ہو گئی تھی۔

اس کا گھر بھی بہت سادہ تھا۔ لکڑی سے بنے گھر کو رجپ قسم کی دیمک اچھا خاصا نقصان دے چکی تھی۔ برآمدے کے بعد اس کے گھر میں کل فرنیچر دو آرام کرسیوں اور ایک بوسیدہ میز پر مشتمل تھا۔ گھر میں دو کمرے تھے جن میں سے ایک کو طعام گاہ اور دوسرے کو خواب گاہ کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ دونوں میں فرق یہ تھا کہ خواب گاہ میں سونے کے لیے بانس سے بنی دو بنچیں تھیں۔ گھر کے پیچھے ایک بالکنی سی بنی تھی اور اس کے ایک سرے پر نوکروں کا کمرہ اور باورچی خانے کے علاوہ آگے ایک غسل خانہ بھی تھا۔ جنگل میں رہنے والے بڈجنگ (اکیلے بندے) کی یہ عام رہائش گاہ تھی جو محض مقامی طور پر دستیاب چیزوں پر زندگی بسر کرتا تھا۔ دو ملازمین اس کے گھر کا کام کرتے تھے اور پان چباتے ہوئے وہ انتہائی سکون سے ہر کام کرتے۔

احاطے میں کئی کتے کھیل رہے تھے۔ سارے ہی کتے کمزور تھے حالانکہ ان کی خوراک کا خیال رکھا جاتا تھا اور ان کی جلد اچھی حالت میں تھی۔ بالکونی پر ایک طوطا بیٹھا تھا اور اصطبل میں اچھا گھوڑا بھی بندھا تھا۔

غسل کے بعد ہم محض پتلونوں میں باہر برآمدے میں بیٹھ کر تھکن اتارنے لگے۔ سگریٹ بنا کر ہم نے پینا شروع کر دیے۔ ہم اپنے ساتھ شراب لائے تھے اور جتنی دیر ہم بیئر پیتے اور باتیں کرتے رہے، باورچی خانے سے اٹھنے والی اشتہا انگیز خوشبوئیں ہماری بھوک بڑھاتی رہیں۔ دونوں بھائیوں نے جب اپنی خاندانی گفتگو پوری کر لی تو ہم نے موضوع بدلا۔

گفتگو کے دوران ہمارے میزبان نے جنوبی ساحل کے جنگلی کتوں کا ذکر کیا تھا۔ ذکر بھی کچھ اس وجہ سے چھڑا کہ جب باورچی نے گوشت کا ایک ٹکڑا نیچے پھینکا تو کتنے اس پر لڑنے لگے۔ تاہم ایک کتے نے انتہائی خاموشی اور سکون سے لڑائی جاری رکھی اور دوسرے کتوں کے برعکس ذرا بھی آواز نہ نکالی۔

میں نے اس قسم کا کتا پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ باقی سارے کتے عام سے تھے جو ہر شکاری کے پاس ہوتے ہیں۔ یہ ایک کتا دوسروں سے چھوٹا تھا اور اس کا منہ نوکیلا، کان پیچھے کو جھکے ہوئے اور اور سرخی مائل بھوری رنگت تھی۔ میرے ساتھی کے بھائی نے بتایا کہ اس کتے کا باپ اڈجاک تھا اور ماں اسی احاطے میں موجود ایک کتیا۔ پیدا ہونے والے جھول کے چار بچے مر گئے تھے اور یہ کتا بھی شروع میں کافی بیمار رہا تھا۔ مگر اب بالکل تندرست لگ رہا تھا۔

بات سے بات نکلتی گئی اور ہمارے میزبان نے بتایا کہ ٹنڈجنگ سوڈنگ کے ساحل پر بہت زیادہ اڈجاک پائے جاتے ہیں۔ وہ ایک بار پہلے وہاں جا چکا تھا مگر کسی وجہ سے دوبارہ کسی قیمت پر جانے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے اس بارے مزید بات بھی کرنے سے انکار کر دیا اور موضوع بدل دیا۔ جلد ہی کھانا لگ گیا۔

اس مقام کے اعتبار سے یہ کھانا کسی طور شاہی طعام سے کم نہیں تھا۔ ابلے ہوئے سفید چاولوں کے ساتھ سور کا گوشت، مچھلی، مرغی سے بنے چند سالن اور کئی اقسام کی ساجوران (سبزیاں) بھی ہمراہ تھیں۔ پینے کے لیے بہت ساری بیئر۔

اس دعوت کے بعد ہم برآمدے میں جا کر بیٹھ گئے اور باتیں شروع ہو گئیں۔ مگر پیٹ بھرنے کے بعد آنکھیں کھلی رکھنا بھی دشوار ہو رہا تھا اور ہم سو گئے۔ ہمارے میزبان نے سہ پہر کو جب ہمیں بیدار کیا تو گرمی کی شدت کم ہو چلی تھی۔ ہم نے ایک بار پھر غسل کیا اور بہت گرم کافی پی کر بالکل تازہ دم ہو گئے۔ اس دوران ہمارے میزبان نے ہمارے لیے جنگلی سور کے شکار کا اہتمام کیا تھا۔ اس نے تجویز پیش کی کہ ہم اس کی جائیداد کے کنارے پر جائیں اور وہاں مخصوص جگہوں پر چھپ کر انتظار کریں۔ تاہم اس نے واضح کر دیا کہ رات نو بجے کے بعد ہر حالت میں وہ واپس آ جائے گا۔ گولہ بارود، ڈنگ ڈنگ کی تیاری، منتقلی اور مقامیوں کے معاوضے کو نکالنے کے بعد بھی مارے جانے والے ہر سور کے بدلے اسے 4 گلڈن (اس وقت کی ولندیزی کرنسی جو وہاں رائج تھی) ملتے۔ اس کے علاوہ دن بھر خالی بیٹھنا بھی اس کے لیے ممکن نہ تھا۔ چونکہ ہمیں اور کچھ مصروفیت نہیں تھی اس لیے ہم نے سوچا کہ اس طرح شاید زیادہ جانور شکار ہوں۔ پندرہ منٹ بعد ہم مطلوبہ جگہ پہنچ گئے۔

اس جگہ جنگلی سوروں کی بھرمار تھی۔ چلتے ہوئے ہمیں جگہ جگہ اکھڑی ہوئی مٹی اور کھدائی کے آثار دکھائی دیتے رہے۔ کچلی ہوئی لمبی گھاس میں ان کی گزرگاہیں بھی بکثرت تھیں۔ ہم لوگ پلانٹیشن کے کنارے سے ڈیڑھ سو گز دور بیٹھ گئے۔ جلد ہی شام ڈھل گئی اور ماحول پر چھایا ہوا موت جیسا سکوت ٹوٹ گیا۔ آسمان بالکل صاف تھا اور جنگلی جانوروں کا شور شروع ہو گیا۔ کبھی کبھی پرندے کی آواز سنائی دے جاتی۔ چمگادڑیں میرے سر پر سے چوں چوں کرتی گھومتی رہیں۔ ان کا شکار ہمارے اوپر جمع ہونے والے مچھروں کے بادل تھے۔ ہر طرف سے عجیب آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ سائے تاریکی میں گم ہونے لگ گئے اور پھر چاند نکل آیا۔ ٹھنڈی چاندنی آہستہ آہستہ آنے لگی۔

سات بجے سور آنا شروع ہو گئے۔ کچھ فاصلے پر ایک گولی چلی اور پھر دوسری۔ گولی کی آواز سے پرندے بولنے لگے اور مینڈکوں کی ٹرٹراہٹ شروع ہو گئی۔ میرے سامنے النگ النگ (سعادہ) گھاس اگی ہوئی تھی۔ مجھے گھاس کی سرسراہٹ سنائی دی۔ میں نے بندوق کا گھوڑا چڑھا دیا۔ پندرہ منٹ بعد تین چھوٹے تاریک سائے آتے دکھائی دیے۔ یہ جندجیہ تھے یعنی نوعمر سور جو اپنا پیٹ بھرنے جا رہے تھے۔ بالغ سور ہمیشہ بچوں کو آگے بھیجتے ہیں۔ اس لیے ہمیں ان بچوں کو بھول کر بالغ سوروں کا انتظار کرنا تھا۔ اس کے علاوہ ہمیں مادہ کا فرق بھی کرنا تھا تاکہ انہیں بچایا جا سکے۔ اس لیے میں نے بچوں کو آرام سے گزرنے دیا۔ چند گز کے فاصلے سے انہوں نے مجھے دیکھا۔ خوف سے چیخ مار کر وہ اچانک رکے اور پتھر کی مانند مجھے گھورنے اور تھوتھنی لمبی کر کے مجھے سونگھنے لگے۔ بالغ سور پیچھے چھپے رہے۔

نصف گھنٹے بعد ایک سور النگ النگ گھاس سے نکل کر میدان کا جائزہ لینے کھڑا ہوا تو میں نے اسے مار لیا۔

ساڑھے دس بجے ہم برآمدے میں واپس بیٹھ گئے تھے۔ ہم نے کل چار سور مارے تھے جو نیچے صحن میں ہاشم کی زیرِنگرانی دو لالٹین کی روشنی میں کاٹے جا رہے تھے۔

شراب پیتے ہوئے میں اور میرے دوست نے پھر اڈجاک کی بات چھیڑ دی۔ گفتگو جاری رہی اور پھر مچھروں سے تنگ آ کر ہم نے بستروں کا رخ کیا جو مچھردانی کے نیچے لگے ہوئے تھے۔ وہاں لالٹین کی روشنی میں بھی ہماری گفتگو جاری رہی اور روشنی کو دیکھ کر مزید پتنگے پہنچ گئے۔ آخرکار ہمارے میزبان نے بانس کی دیوار کے پار سے وعدہ کیا کہ وہ کل ہمیں ٹنڈجنگ سوڈنگ لے جائے گا تو ہم سو گئے۔

جس علاقے سے ہم نے ہو کر جانا تھا، وہ گھنے جنگلات سے بھرا ہوا تھا اور وہاں شیر بھی پائے جاتے تھے۔ ہم نے ایک تنگ راستہ لیا جس پر جگہ جگہ درخت اور جھاڑ جھنکار اگا ہوا تھا۔ بندروں کے ایک غول نے ہمارا پیچھا کیا اور ہم پر چلاتے ہوئے پھل اور شاخیں پھینکتے رہے۔

گننگ میں ایک پہاڑی پر چڑھے۔ پلانٹیشن اس کے دامن میں تھی۔ ایک کھائی کو عبور کر کے ہم زمین کے لمبوترے قطعے کو پہنچے جسے مقامی زبان میں پنگراک کہا جاتا ہے۔ یہ زمین ٹنڈجنگ سوڈنگ کے سامنے تھی۔ کھائی عبور کرنے سے ہمارا سفر ایک گھنٹہ مختصر ہو گیا کیونکہ عام راستے سے پہنچنے میں ساڑھے پانچ گھنٹے لگتے جبکہ ہم چار گھنٹوں میں پہنچ گئے۔ ہماری حیرت دیکھیے کہ اچانک ہم ساحل پر کھڑے تھے۔ سب سے پہلے باکو باکو کی تنگ پٹی آئی جو مینگروو پر مشتمل تھی۔ اسے بائیں جانب چھوڑ کر ہم آگے بڑھے اور جنگل چھدرا ہوتا گیا اور ہمارے سامنے سورج کی روشنی میں چمکتے سمندر کا بہترین نظارہ تھا۔ ۔

ساحل پر پہنچ کر ہم تازہ دم ہو گئے۔ جنگل کی گھٹن کے بعد اچانک ہمیں سمندر کی نمکین ہوا مل گئی۔ سورج کی روشنی میں چمکتے سمندر کا دوسرا کنارہ نظروں سے اوجھل تھا۔

سمندری لہریں زور سے ساحل سے ٹکرا رہی تھیں اور دودھیا سفید جھاگ پیدا ہو رہی تھی۔ ساحل پر خشک لکڑیاں بھی بکثرت پڑی تھیں۔ جگہ جگہ جنگل سے ڈھلوان نیچے اتر کر سمندر تک جاتی تھی۔ ان پر بڑی چھپکلیاں لیٹی دھوپ سینک رہی تھیں۔

پنگ کروک کے بارے ہمارا پہلا نظریہ یہی تھا کہ فطری قوتیں بہت عظیم ہیں اور ان کے آگے انسان کی کوئی حیثیت نہیں۔ اس کیفیت کا دباؤ بہت بڑھ گیا کیونکہ تاحدِ نگاہ ساحل پر کچھوؤں کے خول اور ڈھانچے بکھرے پڑے تھے۔ سورج کی روشنی، ریت اور پانی سے جیسے وہ چمکنے لگ گئے ہوں۔

میں اس کیفیت کی تب تو کوئی وضاحت نہیں کر سکا۔ سارا ماحول جیسے بیجان اور بنجر ہو، جیسے ایک بہت بڑا قبرستان ہو۔ جوش کھاتے سمندر اور ناریل کے خشک درختوں کے درمیان جنگل پھیلا ہوا تھا جس کے بعد کچھوؤں کے ڈھانچے تھے۔ اکثریت تو شاید کئی برسوں سے پڑے اور بالکل خشک تھے کچھ ایسے تھے کہ ان پر ابھی تک گوشت کے ریزے باقی تھے اور انہی سے تعفن اٹھ رہا تھا۔ سارے خول الٹے پڑے تھے اور بعض کی آنتیں پھولی ہوئی اور باہر نکلی ہوئی تھیں جو موٹے سانپوں سے مشابہہ تھیں۔ یہ منظر ناقابلِ فراموش تھا۔

کافی دیر تک ہم وہیں خاموشی سے کھڑے رہے۔ واحد آواز پتھریلے ساحل سے ٹکرانے والی لہریں تھیں جیسے کسی ساز پر ایک ہی دھن بار بار بجائی جا رہی ہو۔

پھر ہم نے اس منظر کے سحر سے خود کو آزاد کیا اور جھاڑیوں سے ہوتے ہوئے ساحل کو بڑھے۔ ہمارے رومال ہمارے ناکوں پر تھے اور ہم نے اس جگہ راستہ بنایا اور آگے بڑھتے رہے۔ مگر جب ہمت نہ رہی تو ہم نے فوراً واپسی کا رخ کیا تاکہ اس خوفناک مقام سے دور نکل جائیں۔

ہم جنگل میں ایک کشادہ قطعے پر رکے جس کے پاس شفاف ندی بہہ رہی تھی۔ ہمیں یہاں بھی لہروں کا شور سنائی دے رہا تھا مگر تعفن اب ختم ہو گیا تھا۔ ہم نے اس شفاف پانی میں اپنے منہ، سینہ اور ہاتھ پیر دھوئے اور سائے میں لیٹ گئے۔ ہم نے ساتھ لایا ہوا کھانا بغیر کسی خاص اشتہا کے کھایا۔ پھر ہماری واپسی کا وقت ہو چلا تاکہ اندھیرا ہونے سے قبل پلانٹیشن پر پہنچ سکیں۔

ایسا لگا کہ میرا ساتھی جیسے عین اسی لمحے مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں اشارہ کرنے کا انتظار کر رہا تھا۔ پھر میں نے توجہ دی تو احساس ہوا کہ ہاشم بھی کافی دیر سے کچھ کہنا چاہ رہا ہے۔ بغیر کچھ کہے، ہم تینوں ہی یہ سوچ رہے تھے کہ ہمیں رات یہاں گزارنی چاہیے۔ ہم نے اپنے میزبان سے پوچھا کہ آیا ہم اس کے ساتھ ایک رات اضافی گزار سکتے ہیں تاکہ اڈجاک کو کچھوؤں کا شکار کرتے دیکھیں۔

اس نے میری طرف دیکھا، سر ہلایا اور ہنسنے لگا۔ پھر اس نے آہستہ سے کہا، ‘چونکہ آپ نے یہ ذکر کیا ہے تو میں کہوں گا کہ میں خود کافی عرصے سے رات یہاں گزارنے کا سوچ رہا تھا۔ مگر سچ تو یہ ہے کہ یہ جگہ اتنی نفرت انگیز ہے کہ میں جھجھک جاتا ہوں۔ مجھے یہاں اکیلا آنا پڑتا کہ کوئی مقامی میرے ساتھ یہاں آنے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ چاہے جتنے بھی روشن خیال ہو جائیں، جنات سے بہت ڈرتے ہیں۔ اگر آپ لوگ چاہیں تو ہم یہیں رک جاتے ہیں۔ یہ منظر دیکھنے والے ہم پہلے انسان ہوں گے۔‘

ہم نے اس منظر کے لیے مناسب مقام تلاش کرنا شروع کر دیا۔ ہمیں ساحل کے نزدیک ایک کھائی سی دکھائی دی۔ اس جگہ ساحل سے آنے والی ہوا بلا روک ٹوک گزر رہی تھی، اس لیے بو سے ہمیں کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ گھنی جھاڑیوں نے پیچھے موجود جنگل سے ہمیں چھپا رکھا تھا۔ اونچے درختوں کا سایہ خوشگوار تھا اور اس جگہ سے ہمیں آس پاس کا سارا ماحول صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ہم نے سائے میں کچھ دیر سونے کی کوشش کی کیونکہ رات کو ہمیں سونے کا موقع نہ ملتا۔

اس جگہ خاموشی اور ٹھنڈک تھی۔ اوپر موجود درخت کی شاخوں سے دیکھا تو بہت اوپر ایک گدھ دائروں میں اڑ رہا تھا۔ کبھی کبھار وہ پر پھڑپھڑا لیتا۔ یہی دیکھتے دیکھتے میں سو گیا۔ ہاشم بیدار رہا کہ اس کے بقول اسے نیند کم آتی تھی۔ اس نے ناریل کے درخت سے ٹیک لگائی اور بیڑی پینے لگا۔ تلخ تمباکو کا دھواں نیند کے دوران میرے نتھنوں میں پہنچا اور مجھے تحفظ کا احساس ہوا کہ ہاشم پوری توجہ سے چوکیداری کر رہا ہے۔

جب ہاشم نے ہمیں بیدار کیا تو ہم پوری طرح تازہ دم ہو چکے تھے سورج خلیج کو جھک گیا تھا جس کے خدوخال ہمیں سرخ آسمان کے سامنے واضح دکھائی دے رہے تھے۔ رات کی آوازیں جنگل سے آنا شروع ہو گئی تھیں، جھینگروں کی جھائیں جھائیں اور پرندوں آوازیں سنائی دینے لگیں۔

ہم نے جلدی جلدی دوپہر کے بچے ہوئے کھانے کو ختم کیا اور جوتے اور کپڑے پھر پہن لیے اور رات کے لیے تیار ہو گئے۔ سورج اب غروب ہو گیا تھا۔ شفق آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جا رہی تھی اور پھر تاریکی چھا گئی۔ تقریباً پورا چاند سمندر سے ابھر آیا اور لال رنگ کا لگ رہا تھا۔ ابھی تو اس کی روشنی زیادہ نہیں تھی مگر جلد ہی اس کی روشنی تیز ہو جانی تھی۔ ساحل سے ٹکراتی لہروں سے اٹھنے والی جھاگ چمک رہی تھی جس کی وجہ سے ساحل کی لکیر مسلسل متحرک لگ رہی تھی۔

ہوا تیز تھی اور مچھروں کو ہمیں ستانے کا زیادہ موقع نہیں مل سکا۔ انتظار کی کیفیت ہمیں لطف دے رہی تھی۔

اچانک ہاشم نے میرا بازو تھاما اور جادوئی الفاظ کہے، ‘لیات، تھوان!‘ سمندر سے کوئی چیز ابھری ہوئی تھی۔ ایک تاریک جسم لہروں سے نکل رہا تھا۔ ہم نے دیکھا کہ اس کی بھاری جسامت کے ارد گرد لہریں لپٹ رہی تھیں اور آہستہ آہستہ یہ جسم رینگتے ہوئے ساحل پر آ رہا تھا۔

یہ بہت بڑا کچھوا تھا جو ساحل پر حفاظت کی خاطر آ رہا تھا جو ان کچھوؤں کی عادت ہے۔ جب یہ پوری طرح پانی سے باہر آ گیا تو ہمیں دکھائی دینا بند ہو گیا مگر اس جیسے اور بھی بہت سے کچھوے باہر آ رہے تھے۔ کچھ کچھوے ہمارے قریب تو کچھ ہم سے دور تھے۔

اس سے مجھے ایک اور منظر یاد آ گیا کہ مویشیوں کا ریوڑ جیسے کسی مذبح خانے کی طرف آہستہ آہستہ بڑھ رہا ہو۔ تاہم میری سوچوں کا سلسلہ اچانک جنگل سے آنے والی ایک عجیب سی چیخ سے ٹوٹ گیا۔ چیخ اچانک شروع ہوئی اور اچانک ہی ختم ہو گئی۔ بہت خوفناک چیخ تھی۔ شروع میں محض بھونکنے سے مشابہ اور آخر میں خون جما دینے والی چیخ بن گئی۔

جب یہ چیخ ختم ہوئی تو ایسا لگا کہ جیسے جنگل نے اپنی سانس روک لی ہو۔ پھر اچانک ایک اور چیخ کسی اور جانب سے آئی اور اس کا جواب مزید نئی سمت سے ملا۔ عجیب کمینگی سے بھرپور چیخیں تھیں۔ یہ اڈجاک تھے جو تیزی سے آ رہے تھے۔

سانس روکے ہم یہ شور سنتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اکا دکا اور چھوٹے گروہوں میں موجود کتے مل کر بڑے گروہ کو تشکیل دیتے جا رہے تھے۔

اچانک اگرچہ ہمیں کچھ دکھائی نہیں دیا مگر ہمیں پتہ تھا کہ وہ ساحل پر پہنچ گئے ہیں۔ ہمیں دوڑنے کی آواز آئی اور ساحل پر بھاگتے ایڈجاک کے پنجوں کی آوازیں آنے لگیں۔

میں نے جوش کی کیفیت میں دیکھنے کی کوشش تو کی مگر چاندنی اتنی مدھم تھی کہ کچھ نہ دکھائی دیا۔ جلد ہی ہماری آنکھیں اندھیرے کی عادی ہو گئیں اور ہمیں تاریک سائیوں کی ایک لہر سی ساحل کے ساتھ بھاگتی دکھائی دی۔

پھر اچانک مجھے کچھ دکھائی دیا اور میں نے بمشکل نعرہ روکا۔ شاید چاند کی روشنی کچھ تیز ہو چلی تھی۔ اب مجھے اڈجاک دکھائی دینے لگے تھے۔ میں نے بیس گنے، قاتل، بے رحم اور خون کے پیاسے اڈجاک۔ میں نے بندوق کا گھوڑا چڑھایا مگر ہاشم نے میرے بازو پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ ‘ڈجانگانگ، تھوان (ایسا مت کریں جناب)،‘ اس نے سرگوشی کی۔

مجھے اس کی بات سمجھ آ گئی۔ اڈجاک کے بارے جتنی بھی کہانیاں مشہور ہیں، سب کا ایک ہی نتیجہ ہوتا ہے کہ شکار کرتے اڈجاک کے غول پر کبھی گولی مت چلائی جائے ورنہ سارے کے سارے شکاری کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ ہمیشہ انتظار کرنا چاہیے کہ وہ اپنا پیٹ بھر لیں۔ اس کے بعد وہ اتنے خوانخوار نہیں رہ جاتے۔ سو میں نے ہاشم کے کندھے پر تھپکی دے کر اسے تسلی دی مگر اپنی بندوق تیار رکھی۔

ساحل پر بہت سارے پنجوں کی آواز آنے لگی اور کسی کسی وقت غراہٹ کی آواز بھی آ جاتی اور ہڈیوں کے چبائے جانے کی آواز بھی۔ میں نے کچھوؤں کو واپس سمندر کا رخ کر کے پانی میں غائب ہوتے دیکھا۔ مگر چند ایک پکڑے گئے تھے۔ چھ یا سات کتے ایک کچھوے پر حملہ کرتے ہیں اور ایک کتا اس کا سر کتر دیتا اور باقی سب مل کر اسے پشت کے بل الٹا دیتے۔ اس وقت ساحل پر محض بھونکنے اور کاٹنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ جلد ہی یہ کام بھی پورا ہو گیا اور کتوں نے بغیر سر والے کچھوؤں کو الٹا کر ان کے پیٹ کی ہڈیاں کاٹ دیں اور خون اور گوشت سے پیٹ بھرنے لگے۔ کبھی کبھی دو کتے لڑ پڑتے مگر جلد ہی ان کی لڑائی ختم ہو جاتی اور وہ پھر کچھوے پر پل پڑتے۔

اگر کسی کچھوے سے پیٹ بھرتے کتوں کے پاس سے کوئی کچھوا سمندر کو جاتے ہوئے گزرتا تو وہ اسے چھوڑ کر نئے شکار پر ٹوٹ پڑتے۔ یہ شکار ان کی بھوک مٹانے کو نہیں تھا بلکہ بے رحم قاتلوں کا قتل کرنے کا شوق تھا۔

ہر کچھ دیر بعد ایک آدھ کتا کسی جانب سٹک جاتا، شاید کچھوؤں سے پیٹ بھرنے کے بعد وہ نزدیکی چشمے سے پانی پینے جاتا ہوگا۔ سارا منظر اتنا بھیانک اور غیر حقیقی لگ رہا تھا کہ جیسے شیطانی قوتیں برسرِ پیکار ہوں۔ دور سے مزید کتوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔ شاید ان کتوں کے غول جگہ جگہ قتلِ عام میں مصروف ہوں گے کہ یہ بہت طویل ساحل تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ کئی کتے غائب ہوتے گئے مگر اب بھی کافی بڑی تعداد میں کتے موجود تھے۔

چاند ڈوب رہا تھا جب ہم نے دیکھا کہ اڈجاک بے چین ہونے لگ گئے۔ اب وہ ساحل پر کھانا چھوڑ کر گوشت کے ٹکڑے منہ میں دبائے جنگل کو بھاگنے لگے۔ اب ان کا شور بھی کم ہو گیا تھا۔

بھوری روشنی میں ہمارے سامنے پورا ساحل موجود تھا۔ ہر جگہ کچھوؤں کے ڈھانچے اور لاشیں بکھری پڑی تھیں اور اڈجاک ان کے درمیان بھاگ دوڑ رہے تھے۔ ہم نے دیکھا کہ کتے جنگل کی طرف ایک ایک دو دو کر کے بھاگ رہے ہیں۔ بار بار ان کے درمیان لڑائی شروع ہو جاتی اور پھر فریقین میں سے ایک بھاگ کھڑا ہوتا۔ ہمارے قریب ساحل پر لگ بھگ درجن بھر کتے موجود تھے مگر صاف لگ رہا تھا کہ وہ بھی بھاگنے کی تیاری میں ہیں۔ اتنی روشنی تھی کہ ہمیں صاف دکھائی دے رہے تھے اور بہت کم وقت بچا تھا۔ میں نے دوسروں کو اشارہ کر کے اس کتے کا نشانہ لیا جو ایک کچھوے سے گوشت نوچ رہا تھا۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ میرا جسم کیسے سرد ہو چکا ہے۔ پٹھے ساکن ہو چکے تھے اور انتہائی تکلیف کے ساتھ بمشکل دورانِ خون بحال کر کے میں نے نشانہ لیا اور لبلبی دبا دی۔

گولی کا دھماکہ بہت زور سے گونجا اور اڈجاک میں کھلبلی مچ گئی اور کتوں نے راہِ فرار اختیار کی۔ میرے بعد دو گولیاں اور چلیں اور بھاگتے کتوں میں سے دو اور گر گئے۔ میری دوسری گولی جنگل میں داخل ہوتے ایک کتے کو لگی اور قلابازی کھا کر وہ گرا اور اپنے پچھلے پنجوں کو بھنبھوڑنے لگا۔ میری تیسری گولی نے اس کا قصہ پاک کر دیا۔ اب ساحل پر ایک بھی اڈجاک نہیں بچا، جیسے کسی نے جادوئی چھڑی ہلا کر انہیں غائب کر دیا ہو۔ دور جنگل میں بندروں کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی۔

ہم اٹھے اور اپنے شل پٹھوں کو حرکت دی اور سگریٹ بنائے۔ رات کا ہمارا تجربہ کسی بھیانک خواب کی مانند لگ رہا تھا۔ اب ہمارے ساتھ صرف رات کی سرد ہوا اور بے چین سمندر تھا۔

ہم نے طلوعِ آفتاب کا انتظار کیا اور پھر نیچے اتر کر اپنے شکاروں کو دیکھنے چل پڑے۔ پہلا کتا جو کچھوے کو نوچ رہا تھا، اسے کان کے نیچے گولی لگی تھی۔ اس کی سبزی مائل بھوری آنکھیں لمبی اور پیچھے کو جھکی ہوئی تھیں جیسے منگولوں جیسی شباہت ہو۔ اس کا سر لومڑی سے مماثل اور برف جیسے سفید دانت اور لال رنگ کے مسوڑھے تھے۔ عام کتوں کی نسبت اس کی ٹانگیں چھوٹی اور جسم لمبا تھا۔ اس کی کھال سرخی مائل بھوری تھی۔ دم خوب گھنی تھی۔ اس کے پنجے ابھرے ہوئے اور مضبوط، ناخن تیز، اس طرح یہ کتے تیز رفتاری سے جنگل کے راستوں پر بھاگ سکتے تھے۔ ان کتوں کی جسمانی ساخت اور فطرت کے بارے ہم نے کچھ بھی سنا تھا، جیسا کہ جنگل میں اور ساحل پر بے رحم قاتل، اکیلا کتا بزدل اور شرمیلا جبکہ غول میں نڈر۔

ہاشم نے جلدی جلدی دو کتوں کی کھال اتاری اور تیسرے کے سر کو کاٹ کر ساتھ اٹھا لیا۔ بعد میں ہم نے پلانٹیشن پر اس سر کو دفن کر دیا اور چند دن میں ہی چیونٹیوں اور کیڑوں نے ہڈیوں کے سوا سب کچھ ہڑپ کر لیا اورپھر اس کھوپڑی کو ہم نے مضبوط ڈوری کی مدد سے آبشار پر لٹکا دیا اور پانی نے چند دن میں اسے خوب رگڑ کر صاف کر دیا۔ اب میرے ساتھی کی الماری پر اڈجاک کی بہترین پالش کی ہوئی کھوپڑی رکھی ہے۔

واپسی کے بعد بھی بہت عرصے تک اس رات کے مناظر مجھے یاد آتے رہے۔ اب مجھے اچھی طرح علم ہو چکا ہے کہ مقامی لوگ کیوں اس جگہ آنے کو کسی قیمت پر تیار نہیں ہوتے۔

کچھوے اس مہلک مقام پر کیوں آتے ہیں، اس بارے میں محض اپنا خیال ہی پیش کر سکتا ہوں کہ جاوا کے جنوبی ساحل سخت اور چٹانی نوعیت کے ہیں اور ایسے ساحل کم پائے جاتے ہیں۔ کچھوؤں کو جلد یا بدیر ساحل پر جانا ہی ہوتا ہے، اور کچھ نہ سہی تو انڈے دینے کو تو جانا ہی پڑتا ہے۔ یہ صورتحال اتنی دردناک ہے کہ میں اس بارے نہیں سوچنا چاہتا۔

بعد میں جاوا کے ایک آتش فشاں کے پاس قائم ایک نیچر ریزرو کے نگران نے مجھے بتایا کہ اڈجاک اکثر کئی کئی ماہ کے لیے ساحل سے دور اور ہرے بھرے میدانوں میں جنگلی جانوروں کا شکار کرتے ہیں۔ جب یہ شکار کو گھیرے میں لیتے ہوئے چیختے ہوں گے تو شکار بیچارہ حواس کھو بیٹھتا ہوگا۔ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم کسی بھی فرد کے لیے یہ کتے ایک آفت سے کم نہیں۔ جہاں پہنچتے ہیں، وہاں کچھ ہی دنوں میں یا تو تمام جنگلی جانوروں کو بھگا دیتے ہیں یا پھر انہیں ہڑپ کر جاتے ہیں۔

اڈجاک کی محفوظ کی ہوئی کھال میرے گھر کی ایک دیوار پر ٹنگی ہے۔ مگر اس کے بال ایک سال بعد گرنے لگ گئے تھے۔ جس چینی کے ذمے میں نے اس کھال کو محفوظ کرنے کا کام لگایا تھا، اس نے لاپرواہی سے کام لیا تھا۔ بعد میں مجھے یہ کھال پھینک دینی پڑی کہ اس کی حالت خراب ہو گئی تھی۔ یہ کھال محض اس رات کی ایک یادگار تھی مگر مجھے اس رات کی کسی یاد کی ضرورت نہیں۔