آنائی کے شیر انسان - باب 5
باب پنجم
گائے کا قاتل
ملیریا کے شدید حملے کے بعد میں کچھ عرصہ کے لیے بیکار ہو کر رہ گیا تھا۔ اس لیے میں نے دو ہفتے ایک دوست کے پاس خلیج سیمانگکا میں گزارے۔ میرا دوست یہاں سروے کر رہا تھا۔ اس نے مجھے کئی بار خط لکھے کہ وہ کیسے شارکوں کا شکار کرتا ہے اور میرے اندر بھی اس شکار کا شوق پیدا کر دیا۔ سو میں نے موقعے سے فائدہ اٹھایا اور اس سے ملنے چلا گیا۔
تاہم شارک کا شکار میری توقعات سے کہیں مختلف نکلا۔ خلیج میں ایک پیراک پیپے پر بہت مضبوط قسم کی ڈوری باندھ دی جاتی تھی۔ اس کے دوسرے سرے پر ایک انسانی انگوٹھے جتنی موٹی تار پر تین بڑے فولادی آنکڑے لگا دیے جاتے تھے۔ پھر آنکڑے پر گوشت کے ٹکڑے پھنسا کر اسے سمندر میں پھینک دیتے تھے۔ چونکہ اس جگہ شارکیں بہت تھیں، اس لیے اکثر کامیابی ہوتی تھی۔ اگر شارک کانٹا نگل لیتی تو پیراک پیپے کے مسلسل ابھرنے اور ڈوبنے سے پتہ چل جاتا تھا۔ پھر جا کر اسے نکالا جاتا تھا۔ نکالنے کے لیے ایک پرانا انجن استعمال ہوتا تھا جو ایک فولادی ڈھانچے سے بندھا ہوا تھا۔ پہلے پہل اتنا انتظار کیا جاتا تھا کہ شارک اس پیراک پیپے سے لڑ کر تھک جائے اور پھر ڈوری انجن سے منسلک کر دی جاتی تھی۔ اگر شارک لڑائی کے قابل ہو اور ڈوری کو کھینچنا شروع کر دے تو انجن سمیت ہر کوئی اس کے پیچھے کھینچا چلا جاتا تھا۔
تاہم مجھے بنسی سے شکار زیادہ پسند ہے۔ خلیج میں مچھلیوں کی کثرت تھی اور مناسب جسامت کی مچھلیاں بہ آسانی اور تھوڑی کوشش سے مل جاتی تھیں۔ اس جگہ ٹونگ کول، ببارا، بارا کوڈا اور کئی دوسری اقسام کی مچھلیاں عام پائی جاتی تھیں۔ ہم نے خاموشی سے اپنی ڈوری کے ساتھ پوری خلیج کا چکر لگایا۔ کانٹے پر مرغی کے پر لگے ہوئے تھے جو ہمارے پیچھے پیچھے سطح پر تیرتے آ رہے تھے۔ کانٹا ہم نے تیل کے کنستر کو کوٹ کر اس کے ٹکڑے سے بنایا تھا۔ وہ بھی لہروں پر اس طرح ناچ رہا تھا کہ ہر شکاری مچھلی اسے دیکھ کر دھوکہ کھا جاتی۔
بعض اوقات کم عمر شارکوں سے ہمیں الجھن ہوتی۔ ایسے لگتا جیسے تاریک پانیوں سے طوفانی بادل اٹھ رہا ہو۔ پاس پہنچتے تو پتہ چلتا کہ شارکوں سے ڈر کر دوسری مچھلیاں بھاگ رہی ہوتی تھیں۔ یہ شارکیں ایک مسئلہ تھیں اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے ہمیں راستہ نکالنا پڑا۔ ہمارے پاس ہمیشہ تاڑ کے پتے موجود رہتے تھے۔ تاڑ جنگلی کھجور کی ایک قسم ہے اور اس کے پتے سخت اور رگدار ہوتے ہیں۔ ماضی میں جاوا کے علما مذہبی احکامات اس درخت کے خشک پتوں پر لکھتے تھے اور پھر انہیں باندھ کر کتاب جیسی شکل دی جاتی تھی۔ اس طرح قدیم احکامات آج بھی محفوظ رہ گئے ہیں۔ لالچی شارکوں کا علاج یہی پتے تھے۔ ہم نے ایک شارک پکڑ کر اس کے بالائی پر میں پرانگ سے سوراخ کر کے ایک پتہ گزارا اور اسے واپس پانی میں پھینک دیا۔ باقی شارکوں نے جب اس کے پر سے بندھے پتے کی کھڑکھڑاہٹ سنی تو ڈر کر بھاگ کھڑی ہوئیں۔ یہ شارک بیچاری ان کے پاس رہنے کی کوشش کرتی اور وہ سب اس سے دور بھاگتیں۔ اس طرح ان تمام شارکوں سے ہمیں نجات مل گئی۔
اس طرح اس خلیج میں دن گزرتے رہے۔ سارا دن میں آرام کرسی پر لیٹا رہتا اور بخار سے ہونے والی نقاہت دور کرتا رہتا اور بوڑھا خانساماں میری خدمت کرتا رہتا۔ فارغ وقت میں میں ساحل پر جا کر کبھی مچھلیاں پکڑتا تو کبھی سنائپ کا شکار کرتا۔ مجھے تو خطرہ محسوس ہونے لگا کہ کہیں سست اور موٹا نہ ہو جاؤں۔ اچانک ایک شیر کی آمد سے حالات بدل کر رہ گئے جو غیر متوقع تو تھا ہی مگر برا نہیں ثابت ہوا۔
سب سے پہلے میرے دوست کو ایک کمپونگ کے نمبردار نے ہرکارے کے ذریعے پیغام بھیجا کہ اس کے کمپونگ کو ایک انتہائی شیطان شیر نے دہشت زدہ کر رکھا ہے اور تھوان اس کے خلاف کچھ کریں۔ میرا دوست اس وقت کام پر تھا اور سہ پہر کو کھانے کے وقت واپس لوٹا۔ میں نے اسے نمبردار کا پیغام دیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یہ جمعے کا دن تھا۔ میرے دوست نے اگلے روز صبح روانہ ہونے کا سوچا مگر دوپہر تک انتظار کرنا پڑا تاکہ پورا اختتامِ ہفتہ کام سے دور رہ سکے۔ یہ کمپونگ ساحل سے زیادہ دور نہیں تھا اور امید تھی کہ ہم اندھیرا ہونے سے پہلے پہنچ جائیں گے۔ جمعہ کی شام کو ہم نے ہرکارے سے اس بارے طویل مگر دلچسپ گفت و شنید کی۔ شیر نے مویشی خوری کی عادت ڈال لی تھی۔ کئی ماہ قبل اس نے پہلی گائے ہلاک کی تھی۔ یہ گائے ایک متروک کھیت میں چر رہی تھی۔ اس وقت سے شیر نے کمپونگ کے ساتھ رہائش رکھ لی اور مسلسل مویشی مارنے لگا۔ شام چار بجے کے بعد گاؤں کے باسی باہر رہنے سے ڈرتے تھے کہ شیر بہت نڈر ہو گیا تھا۔ علی الصبح اور دن کے وقت بھی شیر کھیتوں میں چلتا دکھائی دیتا تھا۔ جتنی دیر شیر گائےیا کتے مارتا رہا، اس سے پیدا شدہ نقصان کی تلافی ممکن رہی۔ مگر چند دن قبل شیر کمپونگ میں گھسا اور آدمیوں کے شور کے باوجود ایک بچھڑے کو اٹھا لے گیا۔ شیر بالغ نر ہوگا کہ ہرکارے نے میز کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ اتنا اونچا تھا۔
ہم نے شام کا باقی وقت اپنے ہتھیاروں اور سامان کی دیکھ بھال میں گزارا۔ میرے دوست کے پاس بیلور یا شکاری لالٹین نہیں تھی۔ ہاشم میرے ساتھ تھا اور اسے ایک ایسا لالٹین بنانا پڑا۔ میرے دوست نے گھر میں موجود تمام لالٹین ہاشم کے سامنے رکھ دیے۔ ہاشم نے تیل سے جلنے والا ایک لالٹین اٹھایا اور تیل کے کنستر کا ایک حصہ کاٹ کر اس نے منعکس گر بنا لیا ۔ یہ لیمپ بہت اچھا کام کرتا تھا مگر اسے بہت زیادہ جھکانا ممکن نہیں تھا، ورنہ بہت زیادہ دھواں اٹھنے لگ جاتا اور منعکس شدہ روشنی بیکار ہو جاتی۔ اس کے علاوہ حرارت سے شیشہ بھی ٹوٹ سکتا تھا۔ خیر، ہم نے بہتری کی توقع رکھی۔
اگلی صبح ہم ہر ممکن جلدی ہاشم اور ہرکارے کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ہاشم کے ذمے میرے سامان کی نگرانی تھی۔ پانچ میل کا سفر کم آباد علاقوں سے گزرا اور پھر بل کھاتا دریا ہمارے سامنے آیا جس کے ساتھ ایک چھوٹا گاؤں تھا۔ ہم نے ایک کشتی کرائے پر لی اور دو گھنٹے بعد منزل پر پہنچ گئے۔
کمپونگ دریا سے دو سو گز دور تھا اور درمیان میں جنگل کی پٹی کو صاف کر دیا گیا تھا۔ زیادہ تر اس صاف جگہ پر کاشتکاری کی گئی تھی اور باڑ لگا کر ہرنوں اور جنگلی سوروں سے بچاؤ کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔ کمپونگ میں بمشکل بیس گھر تھے جو ایک صاف ندی کے کنارے آباد تھے۔ گھروں کے درمیان مویشیوں کے باڑے تھے جن پر نرسل سے بنی چھتیں تھیں۔ دھواں اور دیگر بوئیں یہاں پھیلی ہوئی تھیں۔ بچوں اور کتوں کے غول نے ہماری آمد پر خوب شور مچایا۔
مجھے اور ہاشم کو نمبردار کے گھر لے جا کر ٹھہرایا گیا۔ ہاشم نے مچھردانیاں نصب کر دیں اور خیمہ وغیرہ عارضی طور پر باہر رکھ دیے۔ ایسی جگہوں کو خوب تسلی سے دیکھ لینا چاہیے کہ تکلیف دہ کیڑے پائے جاتے ہیں۔ اکثر کمرے میں داخل ہوتے ہی انہیں مار دینا چاہیے۔ مجھے اس چھوٹے کمرے میں شب بسری کی فکر نہیں تھی کہ مجھے پتہ تھا کہ دن کے وقت شیر کے نشانات دکھائی دے گئے تو ہم اگلی رات پرانگن یا مچان پر گزاریں گے۔
آمد کے بعد میں نے نمبردار سے طویل گفتگو کی۔ اگرچہ ہرکارے سے گفتگو کر کے ہمیں تمام تر باتیں پتہ چل چکی تھی، مگر نمبردار یہ سب باتیں ایک بار پھر سے ہمیں بتانے پر مصر تھا اور میں اسے مایوس نہیں کرنا چاہتا تھا۔ نمبردار کا چوڑے شانوں والا خوبصورت بیٹا بھی گفتگو میں شریک ہو گیا اور کچھ اور نوجوان دروازے کے باہر جمع ہو گئے۔ بار بار مجھے لفظ ‘مینک‘ سنائی دیتا رہا۔ مجھے پتہ تھا کہ اس لفظ کا مطلب ‘بزرگ‘ہے اور یہ ہمیشہ شیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ یہ لوگ مسلمان تھے مگر توہم پرستی عروج پر تھی اور مختلف جانوروں کے بارے بات کرتے ہوئے اپنے بزرگان کے نام سے مخاطب کرتے۔ تاہم جب کسی مخصوص شیر جیسا کہ اس شیر کا تذکرہ کرنا ہوتا تو اسے ‘بزرگ‘ کہتے۔ شاید اس طرح وہ اس شیر کی ناراضگی سے بچنے کی کوشش کرتے۔
مجھے ‘بزرگ‘ کی تمام تر تفصیل سننا پڑی اور اتنی دیر میں ہمارے لیے پرتکلف ضیافت تیار ہوتی رہی۔ سفر نے ہمیں بہت تھکا دیا تھا اور بھوک بھی کھل گئی تھی۔ کھانے کے اختتام پر میں ہاشم، نمبردار، اس کے بیٹے اور دو اور ساتھیوں کے ساتھ نکل کھڑا ہوا۔ یہ لوگ مجھے شیر کے آخری شکار کی باقیات کو لے جا رہے تھے۔ گاؤں کے چوک والے نشانات تو کب کے مٹ گئے تھے۔ تاہم یہ لوگ مجھے سیدھا لڈانگ کیجانب لے گئے جہاں جنگل شروع ہو رہا تھا۔ اس جگہ سے شیر کے پگوں کا پیچھا کرنا بہت آسان تھا۔ ہاشم کا کام شروع ہو گیا تھا۔ وہ شکاری کتے کی طرح نشانات کو سونگھتا ہوا سیدھا نرسل کے جھنڈ کی طرف بڑھا جو لڈانگ سے دو سو گز دور تھا۔ یہاں سے گزر کر ہم جنگل میں داخل ہو گئے۔ نرسلوں کی جگہ پر تو شیر کے پگ بالکل واضح دکھائی دے رہے تھے۔ انگریزی کے حرف وی کی شکل میں نرسل کچلے ہوئے شیر کے راستے کو صاف دکھا رہے تھے، یا کم از کم میں نے یہی سوچا تھا۔ تاہم نرسلوں میں گھستے ہی مسئلہ کھڑا ہو گیا کہ یہاں جنگلی سوروں اور ہرنوں کے راستوں میں شیر کے نشانات کھو گئے تھے۔ گرمی انتہائی شدید تھی اور شیر کے نشانات تلاش کرنا بہت مشکل۔ ہاشم نے خود ہی رہنمائی کا فریضہ اپنے سر لے لیا اور طویل گھاس سے بغیر کسی دقت کے لے کر ہمیں بڑھتا چلا گیا۔
جب ہم نرسلوں میں تین چوتھائی راستہ عبور کر چکے تو ہاشم جھک کر محتاط انداز میں چلنا شروع ہو گیا۔ اس نے مڑ کر مجھے دیکھا اور میں فوراً اس کے قریب پہنچ گیا کہ وہ چاہ رہا تھا کہ یہاں سے ہم دونوں ایک دوسرے کے قریب رہ کر پیش قدمی کریں۔
ہاشم کے تجربے کے مطابق شیر اپنے شکار کو ہمیشہ پانی کے پاس کہیں لے جاتا ہے اور پیٹ بھرنے کے بعد اسے شدید پیاس لگتی ہے۔ پانی پی کر وہ بقیہ لاش کو اسی جگہ چھوڑ کر خود ایسی جگہ تلاش کر کے گہری نیند سو جاتا ہے جہاں کوئی اسے تنگ نہ کرے۔
جب ہاشم نے نرسلوں کے جھنڈ میں چلنا شروع کیا تو اس نے آگے جنگل کے فاصلے کا اندازہ بھی لگا لیا اور فیصلہ کیا کہ نرسلوں میں دوسرے کنارے سے تھوڑا پہلے تک شیر سے ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ شاید شیر نے ان نرسلوں اور جنگل کے درمیان کسی جگہ اپنی پیاس بجھائی ہوگی۔ جب ہم اس جگہ پہنچے تو اس بات کے امکانات بہت زیادہ تھے کہ شیر دکھائی دے جائے۔
میں نے اپنی بندوق کا گھوڑا چڑھا دیا اور انتہائی احتیاط سے ہم لوگ آگے بڑھے۔ تاہم پیش قدمی آسان نہ تھی کہ نرسل ہمارے سر جتنے بلند اور ان کے پتے تیز دھار تھے۔
ہوا بالکل ساکن تھی اور اس جگہ حبس بہت زیادہ تھا۔ چھپ کر چلنا بہت دشوار ہو گیا تھا۔ نیچے جھک کر چلتے ہوئے ہماری پیش قدمی سست تھی اور راستہ بھی پوری طرح دکھائی نہیں دیتا تھا۔
نم اور بو دار ہوا سے ہمارے گلے میں عجیب کیفیت ہو رہی تھی۔ پسینہ بہہ رہا تھا۔ اس تنگ سے راستے پر مجھے فکر ہونے لگی۔ میں نے بہت بار خود کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ شیر اس وقت گہری نیند سو رہا ہوگا اور ہاشم اسے پہلے تلاش کر لے گا۔ اس جگہ اونچے نرسلوں کے بیچ، جہاں چھ فٹ دور دیکھنا ممکن نہیں، میں خود کو غیرمحفوظ محسوس کر رہا تھا۔
آخرکار میری تسلی ہوئی جب نرسل چھٹنے لگے اور پھر چند قدم بعد اچانک ختم ہو گئے۔ اب ہمارے سامنے گھنی جھاڑیوں کا ایک نشیبی علاقہ تھا جس کے درمیان پانی کھڑا تھا۔ طویل خشک سالی کے باعث اس جگہ کنارے خشک ہو چکے تھے اور ان پر بے شمار ہرنوں اور جنگلی سوروں کے کھروں کے نشانات خشک ہو چکے تھے۔ بعض جگہوں پر تو جانوروں کی آمد و رفت سے مٹی باریک دھول کی شکل اختیار کر چکی تھی۔
اس جگہ ہم کچھ دیر بیٹھے رہے اور آس پاس کا جائزہ لیتے رہے۔ یہاں بھی ہوا بالکل ساکن تھی۔ سورج سوا نیزے پر تھا۔ ہمارے سامنے جنگل کے درخت بے برگ اور اونچے کھڑے تھے جیسے دیوار ہو۔ جنگلی بیلوں کے پتے بھی بالکل ساکن تھے۔ اس چھوٹے تالاب کے اوپر ایک بھنبھیری اڑ رہی تھی۔ تاحد نگاہ اور کوئی زندہ جانور نہیں دکھائی دے رہا تھا۔ لاش کہیں قریب ہی تھی کہ ہمیں متعفن بو آ رہی تھی۔
آخرکار ہاشم نے مجھے اشارہ کیا کہ محتاط رہوں۔ انتہائی احتیاط سے میں نے اپنی تین نالی بندوق اٹھائی اور تیار ہو گیا۔ پھر ہم لاش کو دیکھنے آگے کو بڑھے۔ جب ہم اس کے قریب آئے تو کسی جانور کے چھینکنے اور بھاگنے کی آواز آئی۔ یہ جانور زمین کے قریب رہ کر بھاگ رہا تھا۔ بندوق میرے شانے پر تھی مگر ہاشم نے مسکرا کر مجھے دیکھا اور ہونٹوں کی حرکت سے کہا، ‘منجاوک‘۔ یہ بڑی گوہ تھی جو ہماری آمد سے ڈر کر لاش کو چھوڑ کر بھاگی۔ شاید وہ شیر کے شکار سے اپنا پیٹ بھر رہی تھی۔ چند لمحے بعد ہم اس بچھڑے کی لاش پر پہنچ گئے۔ لاش تھوڑی سی بچی تھی۔ ہڈیاں، کھال کے ٹکڑے اور خون کا ایک بڑا تالاب دکھائی دیا جس پر مردہ خور سبز مکھیاں بھی توجہ نہیں دے رہی تھیں۔
شام کو چار بجے ہم گاؤں واپس لوٹے۔ ہماری کوشش رائیگاں گئی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ شیر بچھڑے کی باقیات پر کبھی نہ لوٹتا۔ اس لیے وہاں رات بسر کرنا بیکار رہتا۔ تھکے ماندے اور مایوس حالت میں واپس لوٹ کر میں کچھ آرام کیا اور اپنے ساتھی کی واپسی کا انتظار کیا۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد اس کی واپسی ہوئی اور ہم نے باقی بچی روشنی میں ندی پر غسل کیا۔ مقامی لوگ کچھ پریشان دکھائی دیے کہ یہ کئی ہفتوں سے شیر کی معمول کی گشت کا وقت تھا۔ تاہم یہ ندی اس جگہ سے نہیں بہتی تھی جہاں سے شیر گزرتا تھا۔ اس لیے ہمیں جنگل کی جانب سے کسی اندیشے کی فکر نہیں تھی۔ تاہم ہماری بندوقیں تیار رکھی رہیں۔
پانی انتہائی شفاف اور ٹھنڈا ہونے کے علاوہ چھوٹی مچھلیوں سے بھرا ہوا تھا۔ جب ہم ندی کی تہہ میں لیٹے تو اتنی دیر مچھلیوں کے غول ہمارے اردگرد تیرتے رہے۔ کچھ فاصلے پر ایک کنگ فشر بھی درخت کی شاخ پر بیٹھا ہمیں دیکھ رہا تھا اور اس کے رنگ انتہائی شوخ اور مخملی تھے۔ پہلے پہل تو وہ حیرت سے دیکھتا رہا کہ مچھلیاں کیوں ہمارے اردگرد تیر رہی ہیں۔ کچھ دیر دیکھنے کے بعد اس نے اڑان بھری اور پانی پر اڑتا ہوا چلا گیا۔ اس کی آواز پانی سے ٹکرا کر گونجتی رہی۔
غسل سے ہم بہت لطف اندوز ہوئے مگر اردگرد ماحول پر کڑی نظر رکھی۔ سارا گاؤں بالکل خاموش ہو چکا تھا حالانکہ وہ اپنے گھروں اور جھونپڑوں کے اندر محفوظ بیٹھے تھے۔ گاؤں سے مچھر بھگاؤ آگ والے الاؤ کے دھویں بل کھاتے اٹھ رہے تھے۔
میں نے اپنے دوست کو دن کی ناکام مہم کے بارے بتایا اور ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ شیر آج رات لازماً گاؤں کا چکر لگائے گا۔ ہم نے طے کیا کہ میرا دوسترات کو نمبردار کے گھر سونے کی بجائے کمپونگ کے دوسرے سرے پر واقع ایک اور گھر میں رات بسر کرے جہاں سے شیر عموماً گزرتا تھا۔ مویشیوں کے شور سے ہمیں شیر کی آمد کا علم ہو جاتا اور ہم دونوں میں سے کسی ایک کو گولی چلانے کا موقع مل سکتا تھا۔ چاند پورا ہونے والا تھا، سو رات کے ابتدائی چند گھنٹے تو روشنی رہتی۔
آہستہ آہستہ جنگل کے سائے اندھیرے میں مدغم ہوتے چلے گئے اور اندھیرا گہرا ہوتا گیا۔ دو پرندے گزرے جو بہت بلندی پر تھے اور ان کے پروں کی تیز حرکت کی آواز آئی۔ دور سے جنگل میں بندروں کی ہلکی آوازیں آ رہی تھیں۔ اس طرح ہم دس منٹ تک پانی میں لیٹے رہے۔
اچانک ہمیں زور کی دھاڑ سنائی دی جو اندھیرے میں پھیل رہی تھی۔ یہ آواز زمین کے قریب سے نکالی گئی تھی۔ کسی انجان سمت سے یہ درندہ آ رہا تھا۔ گہری آواز جو بڑھ کر طویل ہوتی گئی، ‘ہا۔ ۔ ۔ اوہب۔ ۔ ۔ ہا۔ ۔ ۔ اوہب‘۔
ہم دونوں نے اپنی بندوقیں اٹھائیں اور ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر چاروں سمت دیکھنے لگے۔ حیرت کی بات دیکھیے کہ اپنے تمام تر تجربے کے باوجود ہمیں نہ تو شیر کی سمت کا اندازہ ہو پا رہا تھا اور نہ ہی یہ جان پا رہے تھے کہ شیر دور ہے یا نزدیک۔
یہ آواز شکار کی تلاش میں نکلے ہوئے بنگال ٹائیگر یعنی شیر کی تھی جس کے پاس وقت کی کوئی کمی نہیں تھی اور نہ ہی اسے جنگلی جانوروں کا شکار کرنے کی کوئی ضرورت۔ شکار محض اپنی سلطنت کے دورے پر نکلا ہوا تھا اور سر زمین کے قریب جھکائے ہوئے وہ وقفے وقفے سے آواز نکال رہا تھا جو کبھی کھانسی سے مشابہہ ہوتی تو کبھی طویل دھاڑ لگتی۔ اس آواز کا مقصد آس پاس کے جنگلی جانوروں میں ہیجان پیدا کرنا تھا۔ عموماً شیر کے شکار کا علاقہ ایسا ہوتا ہے جہاں جنگلی جانوروں کی کئی پگڈنڈیاں آن کر ملتی ہیں۔ جنگلی سور اور ہرن ہمیشہ اپنے مخصوص راستوں پر چلتے ہیں۔ شیر کو بھی یہ بات پتہ ہوتی ہے اور اسی لیے وہ اپنا سر زمین کے قریب لا کر دھاڑتا ہے۔ اس طرح کسی جانور یا انسان کو علم نہیں ہو پاتا کہ خطرہ کہاں ہے۔ اس طرح ہیجان میں مبتلا ہو کر جانور اندھا دھند اپنے جانے پہچانے راستوں پر بھاگتے ہیں۔ اکثر خطرہ انہی راستوں کی جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھا ان کا منتظر ہوتا ہے۔
شیر کبھی اپنے دانتوں کی مدد سے شکار کو ہلاک نہیں کرتے۔ میں نے شیروں کے شکار کردہ انسانی اور حیوانی شکار جتنے بھی دیکھے ہیں، ان کی شہ رگ پر یا ان کی گردن کی ہڈی پر دانتوں کے سوراخ ہوتے ہیں اور یا تو ہڈی ٹوٹنے سے یا پھر خون کے بہنے سے موت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جہاں سے پکڑ کر شیر اپنا شکار ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتا ہے تو وہاں بھی دانتوں کے نشان پائے جاتے ہیں۔
ندی میں پشت سے پشت ملائے ہم بیٹھے چاروں طرف شیر کو تلاش کرتے رہے اور گھبراہٹ کا سبب تیزی سے کم ہوتی ہوئی روشنی تھی۔ شیر کی آواز اب مسلسل چھوٹے وقفوں سے آ رہی تھی۔ پھر اچانک خاموشی چھا گئی۔ بعجلت ہم نے کپڑے اٹھائے اور پوری رفتار سے گاؤں کو بھاگے۔ اس حالت میں بھی ہم ایک دوسرے کی پشت سے پشت ملا کر گئے تاکہ ہر طرف حملے سے خبردار رہیں۔
میں نے اپنے دوست کو اس کے مطلوبہ گھر تک پہنچایا اور پھر وہ دروازے پر کھڑا ہو کر نگرانی کرنے لگا اور میں نے بھاگ کر نمبردار کے گھر کا رخ کیا جہاں ہاشم دروازہ کھولے میرا منتظر تھا۔ ہاشم کا پہلا سوال ہی یہ تھا،‘ آپ نے آواز سنی؟‘ میں نے اثبات میں سر ہلایا اور ایک بار پھر پیچھے مڑ کر دیکھا۔
دھندلکا اب آبادی پر پھیل گیا تھا اور ہر چیز کے خدوخال گم ہو گئے تھے۔ ہر چیز ایک دوسرے سے مل کر ایک طرح سے بے رنگ ہو رہی تھی اور رات کی آوازیں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ کہیں دور بارہ سنگھا ایک بار چلایا، پھر دوسری بار اور پھر تیسری بار آواز آئی۔ کسی باڑے سے گائے گھبرا کر حرکت کی۔ ہوا میں عجیب سی بے چینی طاری تھی۔ پہلے والے شور کی نسبت یہ خاموشی زیادہ تکلیف دہ ہو رہی تھی۔ ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے ساری تاریکی شیر کے خوف سے ملبوس ہو۔
ہم نے بعجلت اپنا رات کا کھانا کھایا جو چاول اور نمکین مچھلی پر مشتمل تھا اور اب تک ٹھنڈا ہو گیا تھا۔ کھانا نمبردار نے پیش کیا۔ اس مکان میں اب ہم کل تین افراد تھے کہ نمبردار کی بیوی اور بچے نمبردار کے سسرال رات گزارنے گئے تھے۔ کھانے کے بعد ہم مچھردانیوں میں گھس گئے۔ میں نے نمبردار سے کہا کہ تیل سے جلنے والا ایک چھوٹا لالٹین ساری رات جلتا رہے اور ہاشم کے پاس مشعل تیار تھی۔ تیل کی لرزتی روشنی میں میں بہت دیر تک پہلو بدلتا رہا اور پھر نیند آ ہی گئی۔ گھر کے نیچے مویشیوں کے باڑے سے آنے والی پریشان جانوروں کی آوازیں مجھے جگائے رہیں اگرچہ اس کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ شیر قریب پہنچتا تو جانوروں کی آواز ہمیں جگا دیتی۔
پتہ نہیں میں کتنی دیر سویا مگر اچانک نیچے موجود مویشیوں کے شور سے آنکھ کھل گئی۔ کتے زور زور سے بھونک رہے تھے اور گائیں باڑے کے اندر بھاگ رہی تھیں اور ان کی ٹکر سے باڑے کی دیواریں گونج رہی تھیں۔ کچھ دور سے ایک عورت کے چیخنے کی آواز آ رہی تھی۔
چونکہ میں شیر کے بارے سوچتا ہوا سو گیا تھا، اس لیے پہلا خیال یہی آیا کہ شیر آ گیا ہے۔ میں نے مچھردانی کے نیچے سے نکل کر اپنی تین نالی بندوق بھری جو پاس ہی رکھی تھی۔ میں نے دیکھا کہ ہاشم نمبردار سے سرگوشیوں میں بات کر رہا ہے۔ پھر اس نے مشعل جلا کر اسے ہلایا جلایا تاکہ زیادہ سے زیادہ روغن آگ پکڑ لے۔ پھر ہم دروازے پر پہنچے اور اسے احتیاط سے کھولا۔
ہلکی چاندنی گاؤں میں پھیلی ہوئی تھی مگر زیادہ تر جگہیں سائے میں تھیں۔ ہاشم نے مشعل کو اونچا اٹھایا مگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ اگر شیر ہماری جانب دیکھتا تو ہمیں اس کی چمکتی آنکھیں دکھائی دے جاتیں۔
پھر ہاشم نے مجھے شیر کی طرف اشارہ کیا جو پانچ گھر چھوڑ ایک باڑے میں شکار میں مصروف تھا۔ ہمیں عورت کی چیخیں، بچے کے رونے کی آواز اور پھر گھر میں مرد کی آواز آئی جو فرش بجا بجا کر اور ڈانٹ کر شیر کو بھگانے کی کوشش کر رہا تھا۔ شیر نے جواب میں محض ایک غصیلی غراہٹ نکالی۔ پھر میں نے دیکھا کہ ایک تاریک جسم باڑے سے باہر نکلا اور دوسرا تاریک جسم اس کے پیچھے گھسٹ رہا تھا۔ کچھ لمحوں کے لیے سبز رنگ کے نقطے چمکتے دکھائی دیے اور میں نے اندازے سے ان پر گولی چلائی۔ فاصلہ ستر گز ہوگا۔ گولی سے اتنا فرق پڑا کہ شیر کی رفتار تیز ہو گئی۔ لمبی لمبی چھلانگیں لگاتا ہوا شیر دوسری گولی چلانے سے قبل گم ہو گیا۔
میں نے خالی نالی بھری اور پھر ہاشم کے ساتھ تیزی سے نیچے اترا تاکہ دیکھ سکیں کہ شیر نے کیا تباہی مچائی ہوگی۔ سارا گاؤں شور مچا رہا تھا اور ہر دروازے سے روشنی جھانک رہی تھی۔ مرد پوچھ رہے تھے کہ کیا شیر مارا گیا ہے۔ ہاشم میری بے عزتی کو محسوس کر چکا تھا اور اس نے جواب دیا، ‘شیر کو گولی لگی ہے مگر وہ مرا نہیں۔‘ دروازے فوراً ہی بند ہو گئے۔
باڑے کی ایک دیوار مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھی۔ حیران کن طور پر شیر نے انسانی بازو کی موٹائی کے تنے توڑ کر راستہ بنایا تھا۔ اندر کا منظر میدانِ جنگ لگ رہا تھا۔ چار مردہ گائیں پڑی تھیں۔ ان کی آنکھیں ابلی ہوئی اور زبانیں منہ سے نکلی ہوئی تھیں۔ ان کی گدی پر پنجوں کے نشانات تھے اور خون کا ایک قطرہ بھی دکھائی نہیں دیا۔ ہاشم نے ٹوٹے تنوں پر لگے ہوئے چند سفید بال دکھائے جس سے ثابت ہوا کہ ہم نے درست دیکھا تھا۔ شیر پانچویں گائے ساتھ لے گیا تھا۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ اتنے وزنی جانور کے ساتھ شیر کیسے چھلانگیں لگاتا ہوا بھاگا ہوگا۔
پو پھٹنے سے قبل ہم تیار تھے۔ سارے گاؤں والے متاثرہ باڑے کے گرد جمع تھے۔ اس کا غریب مالک انتہائی پریشان تھا۔ اس کی پریشانی سمجھنا آسان تھی۔ کمپونگ والے امیر نہیں ہوتے اور ایک ہی رات میں ایک ہی بندے کی پانچ گائیں ماری جائیں تو یہ بہت بڑی مصیبت تھی۔
جتنا جلدی ممکن ہوا، ہم روانہ ہو گئے۔ اس بار ہم نے مقامی لوگوں کو ساتھ نہیں لیا تاکہ شور سے شیر بیدار نہ ہو جائے۔ جتنا زیادہ لوگ ساتھ جاتے، اتنا زیادہ شور ہوتا اور شیر فرار ہو جاتا۔
میرا دوست، ہاشم اور میں، ہم تین شیر کے پنجوں کے نشانات کے تعاقب پر نکلے جو سیدھی انہی نرسلوں کو جا رہی تھی۔ ہاشم ہماری رہنمائی کر رہا تھا۔ شبنم سے بھیگے نرسلوں پر شیر کے جسم کی بو محسوس ہو رہی تھی۔ ہاشم نے راستے پر ہمیں خون کے نشانات بھی دکھائے۔
اس روز اونچے نرسلوں سے گزرنا اتنا مشکل تھا جتنا گزشتہ روز۔ بعض اوقات جب جنگلی سور ہمارے قریب سے مگر نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے بھاگتا تو ہم چونک جاتے۔
ایک بار پھر ہم بغیر کسی رکاوٹ کے پانی کے تالاب تک پہنچ گئے اور شیر کے پنجوں کے نشانات تالاب کے بائیں سے ہو کر گزرے۔ ہاشم نے اس جگہ رک کر چند لمحے کچھ سوچا اور پھر سر ہلا کر ہمیں واپس مڑنے کا اشارہ کیا۔ اس نے دیکھ لیا کہ شیر کا شکار سو گز آگے کھلی جگہ پر پڑا تھا۔ امکان تھا کہ شیر نے پیٹ بھرنے کے بعد پانی پی کر انہی نرسلوں کے کنارے کسی جگہ سونے کا ارادہ کیا ہوگا۔ کوئی بھی جانور یا انسان شیر کی پیش قدمی کا پیچھا کرتے ہوئے آگے بڑھتا تو شیر کے قریب سے گزرتا اور شیر بیدار ہو جاتا۔
اس طرح ہم لوگ دو سو گز واپس لوٹے۔ پھر ہاشم نے رہنمائی کا فریضہ سنبھالا۔ اس بار اس نے ایک سمت جانے والے جنگلی سوروں کے راستے کا انتخاب کیا۔ جب ہم اس راستے پر سو گز چلے تو ہاشم مڑ کر دوسری سمت چلنے لگا۔ اب تالاب کو جانے والا پرتجسس اور اعصاب شکن کام ایک بار پھر شروع ہو گیا۔
ہاشم عجوبہ روزگار تھا۔ وہ ہمیں لے کر لاش سے دس گز قریب پہنچا۔ نرسلوں کے کنارے پر بیٹھ کر ہمیں لاش صاف دکھائی دے رہی تھی۔ لاش پر مردار خور سبز مکھیوں کا بادل جمع تھا اور بہت بلندی پر ایک گدھ اڑ رہا تھا۔
ہم نے آس پاس کا بغور جائزہ لیا اور شیر کی موجودگی کا سوچا۔ تیس گز دور کافی بڑا درخت تھا مگر اس پر بہت کم پتے تھے۔ عام طور پر شیر جب پیٹ بھرتا ہے تو اس کا رخ ہمیشہ اس جانب ہوتا ہے جہاں سے اسے خطرہ محسوس ہو۔ مثال کے طور پر کسی راستے یا لڈانگ یا کھیت کی جانب رخ کر کے۔ تاہم چونکہ لاش اس وقت درخت اور لڈانگ کے درمیان موجود تھی، اس لیے جب شیر اپنا پیٹ بھرنے آتا تو اس کی پشت درخت کی جانب ہوتی اور ہمیں گولی چلانے کا کچھ موقع مل سکتا تھا۔ دوسری جانب ہمیں یہ فائدہ تھا کہ شیر کے زیادہ امکانات یہی تھے کہ وہ انہی نرسلوں میں لیٹا ہے اور جب شکار پر آتا تو ہمارے سامنے سے گزرتا اور ہم اسے دیکھ لیتے۔
لاش کافی اونچی جھاڑیوں کے بیچ پڑی تھی۔ اگر ہمیں شکار کا اچھا موقع چاہیے تھا تو ہمیں کچھ جھاڑیاں کٹوانا پڑتیں جو کہ ایک اور مسئلہ تھا۔ شکار پر واپس لوٹتے ہوئے شیر ہمیشہ کچھ وقت جھاڑیوں میں چھپ کر ماحول کا جائزہ لیتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کیسے، مگر ہمیشہ شیر کو اس جگہ چھوڑ کر جانے کے بعد جھاڑیوں وغیرہ میں ہونے والی معمولی سے معمولی تبدیلی کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔ اگر تبدیلی دکھائی دے جائے تو پھر شیر لاش کے گرد جھاڑیوں میں چھپ کر دائروں میں چکر لگانا شروع کر دیتا ہے مگر قریب نہیں جاتا۔ یہاں میں تجربہ کار شیر کی بات کر رہا ہوں۔ گائے کے قاتل شیر کے بڑے پگوں سے صاف ظاہر تھا کہ یہ تجربہ کار شیر ہے۔
ہم لوگ کچھ دیر وہیں بیٹھ کر تمام امکانات کو دیکھتے رہے اور آس پاس کے واقفیت پیدا کرتے رہے۔ مگر ہمیں درخت کے علاوہ اور کوئی بہتر امکان نہ دکھائی دیا۔
میرا ساتھی ہاشم کے ساتھ گاؤں کو لوٹا تاکہ مزدور، پتلے تنے اور رسیاں لائے۔ یہ سامان مچان بنانے کے لیے ضروری تھا۔ اس مقصد کے لیے ہمیں کہیں دور سے کٹائی کرنی پڑتی کہ شیر یہیں کہیں سو رہا تھا۔
میں اس جگہ رک کر پوری توجہ سے آوازیں سننے کی کوشش کرتا رہا۔ لاش سے تعفن اٹھ رہا تھا اور ایک گوہ اس کی طرف آئی تو مکھیوں کا بادل اڑا۔ آسمان پر کئی گدھ اڑ رہے تھے جو اب قریب ہوتے جا رہے تھے اور ایک تو لاش کے قریب زمین پر اتر آیا تھا۔ گوہ پھنکاری۔ گدھ نے شاید مجھے دیکھ لیا تھا اور لاش کے قریب نہ آیا۔
کافی دیر بعد مجھے اپنے پیچھے نرسلوں میں سرسراہٹ سنائی دی۔ میں نے اپنی بندوق کا گھوڑا چڑھایا اور ساتھ ہی جنگلی مرغ کی آواز نکالی۔ میں نے ہاشم کے ساتھ یہ اشارہ مقرر کیا تھا۔ نرسلوں سے فوراً جواب آیا اور مجھے پتہ چل گیا کہ ہاشم اور میرا دوست واپس آ گئے ہیں۔ جلد ہی وہ دکھائی دینے لگے۔ میرا ساتھی اپنے ہمراہ دو دیہاتی لایا تھا جو ہماری بندوقوں کی حفاظت میں رہتے ہوئے ہر ممکن خاموشی سے درخت پر مچان بناتے۔
شیر کے شکار کے لیے بنائی جانے والی مچان میں کئی مسائل ہوتے ہیں۔ پہلے تو یہ کہ مچان اتنی بلند ہو کہ شیر جست لگا کر اس تک نہ پہنچ سکے۔ دوسرا اتنا زیادہ بلند بھی نہ ہو کہ مصنوعی روشنی میں درست نشانہ لگانے میں دقت پیش آئے۔ مزید یہ کہ مچان کو ہر ممکن طریقے سے درخت کے عمومی خدوخال جیسا ہونا چاہیے تاکہ شیر کو واپس آتے ہوئے تاریک آسمان کے پسِ منظر میں درخت کو دیکھ کر کوئی اچنبھا نہ ہو۔
ہوا کے رخ کے بارے ہمیں کوئی پریشانی نہیں تھی۔ درخت نرسلوں سے اتنا دور تھا کہ ہماری بو کبھی بھی شیر تک نہ پہنچ پاتی۔
نصف گھنٹے بعد مچان تیار تھی اور میں نے اس کی مضبوطی جانچی اور پھر ہم گاؤں کو واپس لوٹے۔
ہم نے احتیاط سے لاش کے آس پاس کچھ شاخوں اور جھاڑیوں کو پرانگ کی مدد سے کاٹ دیا تاکہ گولی چلانے میں سہولت رہے۔ اگرچہ یہ شکار کے اصولوں کی خلاف ورزی تھی مگر اس کے بغیر گزارا بھی نہیں تھا۔ عموماً یہ اصول پیشہ ور شکاریوں کے لیے ہوتے ہیں جو باقاعدگی سے شکار کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے جیسے کبھی کبھار شکار کرنے والے لوگوں کا ساتھ اکثر قسمت دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ شیر کیا کرے گا۔ ہر شیر کی اپنی انفرادی شخصیت ہوتی ہے اور انسانوں کی طرح ان کا رویہ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔ ایک شیر ہو سکتا ہے کہ دوسرے کی نسبت زیادہ جارح مزاج ہو یا غیر محتاط ہو یا پھر زیادہ ظالم ہو۔ اس کے علاوہ ہر درندے کا تجربہ بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
دن کا بقیہ حصہ ہم نے کچھ آرام کیا کہ ساری رات ہم نے جاگ کر گزارنی تھی۔ گھروں کے اندر بہت حبس تھا اور چونکہ پچھلی رات ہر قسم کے حشرات ہمیں تنگ کرتے رہے تھے، اس لیے ہم نے گاؤں کے باہر سائے میں اپنے خیمے گاڑے اور رک سیک سے تکیے کا کام لیا اور خوب گہری نیند سو گئے۔ ہاشم نگرانی کا فریضہ انجام دیتا رہا۔ دوپہر کو تین بجے ہاشم نے ہمیں جگایا۔ مختصر غسل کے بعد ہم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور نکل کھڑے ہوئے۔ ہاشم نے اپنے ساتھ دو چھوٹے تکیے، پانی کی بوتل اور پان کے پتے اور بیلور بھی اٹھا لیا۔
ہم نسبتاً دیر سے پہنچے۔ جہاں سفید فام افراد شکار کرتے ہیں، ان علاقوں میں تین بجے تک مچان پر بیٹھ جانا چاہیے۔ تاہم ایک نظر ڈالتے ہی ہمیں علم ہو گیا کہ شیر لاش پر واپس نہیں آیا۔ ہم تیزی سے درخت پر چڑھے اور مناسب جگہوں پر بیٹھ کر آئندہ پیش آنے والے واقعات کا انتظار کرنے لگے۔
سہ پہر نسبتاً آہستگی اور خاموشی سے گزری۔ نرسلوں کے اوپر گرم ہوا لہرا رہی تھی۔ سورج آہستہ آہستہ مغربی افق کی طرف اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھا اور آخرکار سرخ تھالی بن گیا۔ ہم نے جنگل کے کنارے پر جنگلی سوروں کے غول کو گزرتے دیکھا۔ دوسری جانب ایک بارہ سنگھا تالاب پر آیا۔ بارہ سنگھا وہاں رک کر کافی دیر تک ہر سمت ہوا کو سونگھتا رہا۔ جب اسے خطرہ نہ محسوس ہوا تو پھر دو مادائیں محتاط انداز میں نکل کر پانی پینے آئیں۔ جب بندروں کا ایک غول شور مچاتا وہاں آیا تو ایک لمحے کو مادہ بارہ سنگھا جھجھک گئیں۔ جب بندر پانی پینے لگے تو ان کے شور و غوغا سے مادائیں چھینکنے لگیں اور نر نے زمین پر کھر مارنے شروع کر دیے۔ ایک بڑا نر بندر جس کی سفید مونچھیں تھیں، اونچی شاخ پر بیٹھا نگرانی کر رہا تھا۔
اس طرح جنگل اور تالاب میں زندگی کے آثار دکھائی دیے۔ وقفے وقفے سے آہستہ بولتے ہوئے آبی پرندے پانی سے اڑتے ہوئے گزرتے رہے۔
پھر سورج غائب ہو گیا۔ بارہ سنگھے پھر جنگل میں داخل ہو گئے اور ان کے کان کھڑے اور گردنیں آگے کو بڑھی ہوئی تھیں۔ بندر بھی چلے گئے۔ ایک بار پھر ان کا درختوں پر کھیل شروع ہو گیا۔
سائے گہرے ہونے لگے اور سکوت چھا گیا۔ دھندلکے کا مختصر وقفہ آیا اور پھر ہر قسم کی روشنی بند ہو گئی۔ ایسا لگا جیسے پوری فطرت ساکت ہو کر منتظر ہو۔ عجیب سی کیفیت چھانے لگ گئی۔
میں نے ہاشم کو ہدایت کی کہ وہ بیلور جلا کر کسی شاخ سے اس طرح لٹکا دے کہ اس کی مدھم روشنی لاش پر پڑتی رہے۔ لاش ہمیں صاف تو نہیں دکھائی دے رہی تھی مگر پھر بھی ہمیں یہ پتہ تھا کہ لاش ہے کہاں۔
شاید آپ کو عجیب لگے کہ ہم نے مصنوعی روشنی کے لیے لیمپ جلا کر شیر کے شکار کے لیے استعمال کیا۔ تاہم یہ بات یاد رہے کہ اگر روشنی بہت زیادہ تیز اور متحرک نہ ہو تو شیروں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پہلے پہل جب انہیں روشنی دکھائی دے گی، وہ اسے کچھ دیر تو دیکھتے رہیں گے، مگر لاش پر جانے سے جھجھکیں گے نہیں۔ بدقسمتی سے بیلور کچھ ایسے انداز سے لٹک رہا تھا کہ جلد ہی اس سے دھواں اٹھنے لگتا اور روشنی تھراتھرانے لگ جاتی۔ ہاشم کو بخوبی احساس تھا اور اس نے اپنی قمیض سے ایک دھجی پھاڑی اور ایک مناسب شاخ توڑ کر اس کے گرد دھجی لپیٹ دی۔ اس طرح جب بھی ضرورت پڑتی، وہ لالٹین کے شیشے کو صاف کر لیتا۔
چاند نکل آیا اور باریک ہلال کی شکل میں دکھائی دیا۔ جنگل پر طاری خاموشی کافور ہو گئی اور ہر طرح کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں۔ جھینگروں کا راگ شروع ہو گیا۔ مچھروں نے ستانا شروع کر دیا مگر پان کے پتے اس سے بچاؤ کا سبب تھے۔ ہم نے پتے کچل کر ان کے رس کو اپنے جسم کے کھلے حصوں پر لگایا۔ جنگلی جانوروں کو پان کے پتوں کی خوشبو سے اجنبیت نہیں محسوس ہوتی اور بھاگتے نہیں۔
تاریکی میں ہمارے اعصاب پر دباؤ بڑھ رہا تھا۔ جتنی دیر روشنی رہی اور ہمیں آس پاس کے مناظر دکھائی دیتے رہے، یہ کیفیت قابلِ برداشت تھی۔ مگر تاریکی میں چھٹی حس بیدار ہو گئی جو حیاتیات کی کسی کتاب سے ثابت نہیں مگر ہر انسان اس سے بخوبی واقف ہے۔ یہ کیفیت ہمارے اندر بہت گہرائی میں ہوتی ہے اور عام طور پر اس کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ تاہم جب رات کو ہم بیٹھے بڑے جانوروں کا انتظار کر رہے ہوں تو اچانک ہماری چھٹی حس بیدار ہو جاتی ہے۔ بعض لوگوں کو جلد پر کسی نہ کسی جگہ سنسنی کا احساس پیدا کر کے کسی جانور کی آمد کا احساس دلاتی ہے حالانکہ آنکھیں اور کان اسے بہت بعد میں جا کر دیکھ اور سن پاتے ہیں۔
ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑا کہ شیر نے اپنی موجودگی کا احساس دلایا۔ ستر گز دور نرسلوں کے کنارے سے چھینک نما آواز نے ہمیں احساس دلایا کہ شیر آ رہا تھا کہ کوئی مداخلت ہوئی ہے۔ شاید ہماری بو ابھی تک راستے پر موجود ہو یا پھر ہماری مچان دکھائی دے گئی ہو۔ اب ہمیں ہر ممکن طور پر ساکت بیٹھنا تھا۔ مگر کتنی دیر؟
چاند نرسلوں کے قریب ہو رہا تھا اور جنگل کے کنارے تالاب تک اندھیرا چھا چکا تھا۔ بار بار ہم کوشش کرتے کہ نرسلوں کے کنارے شیر کی چمکتی آنکھیں دیکھ سکیں مگر ناکام رہے۔ اگر شیر اس جانب سے آ رہا ہوتا تو شاید آنکھیں سکوڑے ہوئے تھا۔ ہمارے اردگرد اتنی خاموشی تھی کہ چھینک کی آواز وہم لگ رہی تھی۔ مگر ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہوا کہ ہمیں غلط فہمی نہیں ہوئی۔ ہم سانس بھی احتیاط سے لے رہے تھے۔ شیر کی قوتِ سماعت اتنی تیز ہوتی ہے کہ ہاشم نے ہمیں مچان پر بیٹھنے سے قبل ناک صاف کرنے اور ناک کے لمبے بال کاٹنے کا کہا۔ سانس لیتے ہوئے لمبے بالوں سے گزرتی ہوئی آواز جو ہمیں بمشکل سنائی دیتی ہے، شیر فوراً سن لیتا ہے۔
منٹ پر منٹ گزرتے گئے مگر کچھ نہ ہوا۔ ہمیں تو یہ منٹ بھی طویل مدت لگ رہے تھے اور اعصابی دباؤ بہت بڑھ گیا تھا۔ ہماری آنکھیں نرسلوں کی جانب دیکھ دیکھ کر پھٹنے والی ہو رہی تھیں۔ چونکہ مدھم چاندنی سیدھی ہماری آنکھوں میں پڑ رہی تھی، اس لیے ہماری آنکھیں بھی تقریباً بند تھیں۔
اچانک ہمارے عقب سے ایک خشک ٹہنی ٹوٹنے کی آواز آئی۔ ہمارے علم کے بغیر شیر نرسلوں سے چلتا ہوا ہمارے عقب تک پہنچ گیا تھا۔ یہ بات خلافِ توقع اور ناپسندیدہ تھی۔ اب یہ ضروری تھا کہ ہم میں سے ایک پیچھے کو منہ کر کے بیٹھے۔ تاہم آواز پیدا کیے بغیر ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ چونکہ یہ کام لازمی کرنا تھا اس لیے میں نے انتہائی آہستگی سے اپنا سر موڑنا شروع کر دیا۔ مگر مطلوبہ سمت تک میں گردن نہ موڑ سکتا تھا۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ شیر ہمارے عقب سے ہمیں دیکھ رہا ہے اور شاید جست لگانے کے لیے حساب لگا رہا ہوگا۔
میں نے بے چینی سے مزید آواز کا انتظار کیا مگر خاموشی رہی۔ میری کنپٹیوں پر خون کی گردش اتنی تیز تھی کہ مجھے لگا کہ شیر بھی سن لے گا۔ اچانک میں پسینے میں نہا گیا۔
بظاہر بہت طویل مدت کے بعد دوبارہ آواز آئی۔ اس بار شیر عین ہمارے پیچھے غرایا۔ میرے اعصاب اتنے تنے ہوئے تھے کہ غراہٹ کی آواز بادلوں کی گرج لگی۔ مجھے علم ہے کہ میں چونک گیا۔
شیر کو ہماری موجودگی کا علم ہو گیا تھا اور اس کے ذہن میں ہزاروں سوال آئے ہوں گے۔ کمپونگ میں مٹرگشت کے دوران ظاہر ہے کہ شیر نے انسانی بو سونگھی ہوگی مگر وہ بو انسانی آبادی سے منسلک تھی۔ مگر کسی انسان کا اس کے شکار اور پانی پینے کے مقام تک آنے کا یہ پہلا واقعہ تھا جس کی وجہ سے وہ حیران اور محتاط ہو گیا ہوگا۔ اس کے علاوہ شیر بے صبرا بھی ہو گیا ہوگا کہ اسے بھوک لگی ہوگی اور اس کا کھاجا چند گز دور موجود تھا۔ شاید اس کی فطرت اسے اندھیرے سے نکل کر خطرے میں آنے سے روک رہی ہوگی۔
معلوم نہیں کہ کتنی دیر میں شیر کے عقب سے حملے کی دہشت میں مبتلا رہا۔ صرف میرے طویل شکاری تجربے نے مجھے پیچھے مڑنے سے روکے رکھا۔
پھر آہستہ آہستہ اور محتاط انداز سے ہاشم نے اپنا ہاتھ میرے بازو پر رکھا۔ یہ اس بات کی علامت تھی کہ ابھی کچھ دیکھنے کے قابل ہے۔ تاہم مجھے کچھ دکھائی نہ دیا۔ میں نے آہستہ آہستہ بندوق کو پھر سے تھاما۔ اس بار ہاشم نے انتہائی آرام سے بندوق والے ہاتھ کو پکڑ کر دوسری جانب موڑنا شروع کر دیا۔ جب اس نے ہاتھ ہٹایا تو مجھے علم تھا کہ اب مجھے اسی جانب دیکھنا ہے۔ میں نے آنکھوں پر پورا زور ڈالا۔ بیلور دھوئیں کی وجہ سے مدھم ہو رہا تھا۔ بس یہی امید تھی کہ شیر عین اس جگہ بیٹھا اور بیلور کی جانب دیکھ رہا ہوگا کہ اس کی آنکھیں روشنی کو منعکس کر رہی ہوں۔ ہمارے علم میں آئے بغیر شیر نے کیسے اس جگہ تک حرکت کر لی، حیران کن تھا۔ شاید یہ شیر بہت بے صبرا تھا یا پھر بہت نو آموز کہ سیدھا روشنی کی سیدھ میں بیٹھ گیا تھا۔
جتنی دیر یہ سوال میرے ذہن میں پیدا ہوتے رہے، میری آنکھیں درد کرنے لگیں۔ اچانک مجھے احساس ہوا کہ میں براہ راست شیر کی آنکھوں میں دیکھ رہا ہوں۔ غیر یقینی سی دو سبز گیندیں تاریکی میں دکھائی دے رہی تھیں۔ پھر وہ گم ہو کر پھر دکھائی دیں اور پھر کچھ دیر بعد گم ہو کر پھر نمودار ہوئیں۔ شیر نرسلوں کے کنارے پر لیٹا شاید اپنے پنجوں پر سر رکھے ہماری جانب بیلور کو تجسس سے دیکھے جا رہا تھا اور پلکیں جھپک رہا تھا۔
احتیاط اور انتہائی آہستگی سے میں نے دوسرے ہاتھ سے بندوق کا دستہ تھاما اور میرے انگلیوں کو لبلبی کا سرد احساس ہوا۔ اسی وقت مجھے عجیب طریقے سے پتہ چل گیا کہ یہ شیر اب ہم سے نہیں بچ سکتا۔ یہ عجیب کیفیت تھی مگر اس سے مجھے سکون ملا اور نشانے میں آسانی ہو گئی۔
آہستہ آہستہ میں نے ان آنکھوں کو دیکھتے ہوئے بندوق شانے تک اٹھائی۔ میرا اندازہ تھا کہ فاصلہ تیس گز کے قریب ہوگا۔ بلندی کی رعایت سے میں اس کی آنکھوں سے ایک انچ اوپر کا نشانہ لے کر گولی چلاؤں تو اس کی گردن آسانی سے ٹوٹ جائے گی۔ آنکھوں کے درمیان کا نشانہ بہتر نہیں تھا۔ شیر سیدھا ہماری جانب دیکھ رہا تھا اس طرح آنکھوں کے درمیان چلائی گئی گولی ناک کے درمیان لگتی۔
شانے پر بندوق لا کر میں نے شیر کو اپنے قابو میں محسوس کیا۔ گہرا سانس لے کر میں نے آہستہ آہستہ سانس نکالا۔ رائفل کا دیدبان بیلور کی روشنی میں واضح دکھائی دے رہا تھا اور شیر کی آنکھیں عین اس کے پیچھے دکھائی دے رہی ہیں۔ اچانک آنکھیں گم ہو گئیں۔ میں نے ان کے دوبارہ نمودار ہونے کا انتظار کیا۔ جونہی سبز رنگ کی روشنیاں دوبارہ دکھائی دیں، میں نے ہلکا سا بندوق کو اٹھا کر لبلبی دبا دی۔
پھر ہر چیز انتہائی تیزی سے واقع ہونے لگی۔ جونہی میں نے لبلبی دبائی، دونوں آنکھیں اچانک پوری طرح جلیں اور اوپر کو اٹھیں۔ جونہی میری گولی چلی، شیر نے اسی وقت لاش پر آنے کا فیصلہ کیا۔
ٹمٹماتی روشنی میں ہمیں ایسا لگا کہ جیسے کوئی دبا ہوا سپرنگ اچانک چھوٹا اور پھر واپس پیچھے جھاڑیوں پر گرا۔ انتہائی طاقتور دھاڑ سے ہمارے حواس مختل ہو گئے۔ آج تک میں نے کسی شیر کی ایسی دھاڑ نہیں سنی۔ شیر کی ہر دھاڑ مجھے اپنے چہرے پر گرم ہوا کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ شیر ہر ممکن طریقے سے اپنے غصے اور تکلیف کا اظہار کر رہا تھا۔ میں نے لرزتی روشنی میں دوبارہ شیر کا نشانہ لینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ میرے ہمراہی کا حال مجھے سے بہتر نہیں تھا۔ اس نے تو مچان پر کھڑے ہو کر شیر کو دیکھنے کی کوشش کی۔ صورتحال انتہائی حوصلہ شکن تھی۔ زمین سے محض پندرہ فٹ اونچائی پر ہم بیٹھے تھے اور نیچے زخمی شیر اندھیرے میں تھا۔ یہ فاصلہ انتہائی کم تھا۔ زخمی شیر سے زیادہ شاید ہی کوئی چیز خطرناک ہو۔ اس کا حملہ کسی طوفان کی مانند اور ناقابلِ دفاع اور مہلک ہوتا ہے۔
ہمارے آس پاس کا جنگل بیدار ہو گیا۔ بندروں نے چلانا شروع کر دیا اور جہاں شیر گرا تھا، وہاں سے دھاڑوں کے علاوہ خس و خاشاک کے حرکت کرنے کی آواز صاف آ رہی تھی۔ اپنی تین نالی بندوق کو تیار رکھتے ہوئے میں نے شیر کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور ذہن میں سوالات کی بھرمار تھی۔ شیر نے حملہ کیوں نہیں کیا؟ گولی کہاں لگی ہوگی؟ موٹی شاخیں شیر کے وار سے ٹوٹ پھوٹ رہی تھیں جو ہر طرف اپنے پنجے چلا رہا تھا۔ پھر مجھے ہاشم کی سرگوشی سنائی دی، ‘اور گولی مت چلائیں۔ بات ختم ہو گئی ہے۔ اگر دوبارہ گولی چلائیں گے تو اگر شیر ہلاک نہ ہوا تو اور بھی غصے میں آ جائے گا‘۔
پھر یہ ہنگامہ تھمنے لگا۔ ہر دھاڑ کے درمیان وقفہ بڑھتا گیا اور درمیان میں کھوکھلی کھانسی کی آواز آتی رہی۔ تاہم دھاڑیں جاری رہیں۔ پھر اچانک مجھے شیر کی آنکھیں دوبارہ دکھائی دیں۔ اگرچہ ایسا لمحے بھر کو ہوا مگر میرے لیے کافی تھا۔ ہم دونوں نے بیک وقت گولیاں چلائیں۔ نشانہ کافی مشکل تھا اور بارود کے دھوئیں نے مزید گولی چلانے کا موقع ختم کر دیا۔
گولیوں کی گونج سے بندروں کا شور بڑھ گیا۔ پھر اچانک ہر طرف انتہائی پریشان کن سکوت طاری ہو گیا۔ خاموشی جاری رہی۔
پندرہ منٹ بعد ہم انتہائی محتاط ہو کر نیچے اترے اور ہاشم نے اس دوران لالٹین کو صاف کر کے روشنی کو اس جگہ مرکوز کر دیا جہاں شیر گرا تھا۔ تاہم کچھ نہ ہوا۔ جنگل کا شور ختم ہو گیا تھا۔ کبھی کبھی کسی بندر کی چیخ یا دور کہیں سے بارہ سنگھے کی آواز سنائی دے جاتی۔ جھینگروں نے اپنا شور شروع کر دیا تھا۔ جہاں شیر گرا تھا، اس جگہ بالکل خاموشی تھی۔ باریک چاند اب جنگل کے اوپر آ چکا تھا۔
ہم نے درخت کے تنے کے پاس رک کر انتظار کیا اور ہاشم نے احتیاط سے بیلور نیچے لٹکائی۔ پھر خود بھی نیچے اتر آیا۔ لالٹین ہاشم نے اٹھایا اور ہم اس کے دونوں طرف بندوقیں تیار حالت میں اٹھائے ہوئے آگے بڑھے۔ بمشکل پچاس گز دور ہمیں ٹوٹی شاخوں اور پتوں کے بیچ ایک بے ہنگم جسم سا دکھائی دیا۔ ہم نے وہیں رک کر انتظار کیا۔ پھر میں نے زور سے سیٹی بجائی۔ تاہم ہر چیز ساکت رہی۔ پھر میں نے احتیاطاً مٹی کا ایک ڈھیلا اس پر پھینکا۔ کچھ نہ ہوا۔ شیر مر چکا تھا۔
ہم قدم قدم کر کے آگے بڑھے۔ قریب جاتے ہوئے ہیں اس کے مختلف حصے دکھائی دیے۔ گائے کا قاتل ہماری مخالف سمت منہ کیے پڑا تھا۔ شاید آخری جست کے وقت اس نے قلابازی کھائی تھی جس کی وجہ سے ہمیں اس کی آنکھیں محض ایک بار دکھائی دی تھیں ورنہ اس کی آنکھیں پوری طرح کھلی تھیں۔ آخر ہم اس کے قریب پہنچے اور میں نے اپنی بندوق سے ٹہوکا دیا۔ شیر نے حرکت نہیں کی۔ کامیابی کی خوشی چھا گئی۔
ہمارے سامنے گائے کا قاتل نر شیر پڑا تھا۔ بعد می ہم نے ماپا جو دس فٹ لمبا نکلا۔ اس کی گہری لکیروں والی کھال محفوظ تھی۔ اس کے طاقتور جبڑوں کے پاس سفید بالوں کی داڑھی سی تھی۔ میری پہلی گولی اس کی ریڑھ کی ہڈی پر لگی اور اس کی پچھلی ٹانگیں بیکار ہو گئیں۔ اسی وجہ سے نہ تو اس نے ہم پر حملہ کیا اور نہ ہی فرار ہو سکا۔ چونکہ گولی چلاتے وقت شیر آگے بڑھا تھا، سو گولی گردن سے پیچھے لگی۔ بعد میں چلائی گئی دونوں گولیاں ترچھی لگیں اور ایک گولی اس کے دل کو چھید گئی۔
خوشی کے ساتھ ہم نے ایک دوسرے کو گولیوں کے زخم اور شیر کا بہت بڑا سر اور اس کے پنجے اور دانت دکھائے۔ ہم نے اس کی کھال کو ٹٹولا جس کے نیچے اس کا جسم ابھی تک گرم اور پٹھوں سے بھرپور تھا۔
رات کے نو بج رہے تھے۔ ہمارا جوش ٹھنڈا ہو رہا تھا تو اچانک ہمیں گائے کی لاش سے اٹھتے تعفن کا احساس ہوا۔ اس جگہ ہمیں وقت گزارنے کا کوئی شوق نہیں تھا۔ آپس میں بات کر کے میں مچان پر چڑھ گیا جب کہ میرے دوست اور ہاشم نے گاؤں کا رخ کیا تاکہ قلیوں کو لے آئیں۔ ہاشم نے بیلور اٹھایا ہوا تھا۔ اگر میں نہ رکتا تو ممکن تھا کہ بڑی گوہ یا کوئی اور جانور شیر کی لاش سے پیٹ بھرنے لگ جاتا۔ جنگلی سور سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں تھا کہ شیر کی بو انہیں بھگانے کے لیے کافی تھی۔
ساڑھے گیارہ بجے چاند غروب ہو گیا۔ مجھے ابھی بھی کافی دیر تاریکی میں انتطار کرنا تھا اور وقفے وقفے سے مٹی کے ڈھیلے اور شاخیں وغیرہ شیر کی طرف پھینکتا رہا۔ آخرکار نرسلوں سے روشنی اور پھر شور آنا شروع ہو گیا۔ کل دس افراد آن پہنچے اور ان کی باتوں سے ہیجان ظاہر ہو رہا تھا۔ دو افراد کے پاس انسانی بازو جتنے موٹے ڈنڈے تھے جس پر شیر کو اٹھایا جانا تھا۔ انہوں نے شیر کو ہر طرح سے دیکھا اور باتیں کرتے رہے۔ ہم تینوں نے پورا دھیان رکھا کہ ہمارے شیر کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ مقامی اور چینی آبادی میں مظاہر پرستی عام ہے اور ان کا خیال ہے کہ اگر شیر کی داڑھی کے بال جلا کر سفوف بنا کر خوراک یا مشروب میں ڈال کر استعمال نامردی کا تیرِ بہدف علاج ہے۔
شیر کے پنجے باندھ کر اس میں ڈنڈے ڈال کر شیر کو اٹھایا گیا اور پھر نرسلوں سے ہوتے ہوئے کمپونگ کو روانہ ہو گئے۔
ڈیڑھ گھنٹے بعد ہم فاتحانہ کمپونگ میں داخل ہوئے۔ تاہم ساری رات ہاشم نے شیر کی نگرانی کی تاکہ کوئی اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔