Jump to content

آنائی کے شیر انسان - باب 3

From Wikisource

باب سوم

قاتل

جنگل میں ایک بدنامِ زمانہ لفظ ہے، آدم خور۔ عموماً آدم خور سے مراد انسانی گوشت سے پیٹ بھرنے والے شیر ہوتے ہیں۔ یہ فرض کر لینا حماقت ہے کہ تمام شیر ہی آدم خور ہوتے ہوں گے۔ قدرتی طور پر شیر محض جنگلی جانوروں کا شکار کرتا ہے اور انسان سے ہر ممکن طور پر دور بھاگتا ہے۔ تاہم غصے کی حالت میں یا جب انسان اچانک بہت قریب پہنچ جائے یا پھر جب مادہ کے ساتھ اس کے بچے بھی ہوں تو شیر کی طرف سے حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس کا رویہ موسم کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔ افزائشِ نسل کے دور میں شیر زیادہ جارحانہ مزاج ہو جاتے ہیں۔

عموماً شیر جب بہت بوڑھا ہو یا کسی وجہ سے بہت کمزور ہو جائے اور اپنے قدرتی شکار یعنی چوپایوں کو ہلاک کرنے کے قابل نہ رہ جائے تو آدم خور بنتا ہے۔ پہلے وہ آسان شکار کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ایسا شیر انسانی آبادی کے قریب منتقل ہو جاتا ہے اور پالتو مویشیوں پر حملہ شروع کرتا ہے جن میں گائے، بکریاں اور کتے بھی شامل ہوتے ہیں۔ اکثر فصل یا لکڑی کاٹتے ہوئے جھکے انسان پر شیر حملہ کرتا ہے۔ جب ایک بار شیر انسان کا شکار کر لیتا ہے تو پھر کسی اور شکار کی طرف توجہ نہیں دیتا۔ پورا علاقہ دہشت کی زد میں آ جاتا ہے۔

اور بھی کئی جانور ہیں جو آدم خور بن جاتے ہیں۔ مگرمچھ اس کی ایک مثال ہے۔ ذیل میں ایک ایسے ہی مگرمچھ کے بارے بتاتا ہوں۔

یہ مگرمچھ دریائے موسی میں سکون سے رہتا تھا۔ ایک بار اس کی دوسرے بواجہ سے شاید مادہ پر لڑائی ہو گئی۔

ہاشم نے مجھے بتایا کہ اس جگہ چند نر مگرمچھ ہیں۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ مگرمچھ اپنی جنس کے دیگر مگرمچھوں کو ایک جگہ برداشت نہیں کر سکتے۔ جب کوئی مگرمچھ کسی دریا کے ایک حصے کو اپنی قیام گاہ اور شکارگاہ کے طور پر چن لے تو پھر شاذ ہی کسی دوسرے نر مگرمچھ کو اس جگہ آنے کی اجازت دیتا ہے۔ مادائیں ایک دوسرے پر معترض نہیں ہوتیں۔ تاہم اگر نر آ جائے تو پھر ماداؤں میں لڑائی چھڑ جاتی ہے۔ ان دو مگرمچھوں میں ہونے والی لڑائی کو چشمِ تصور سے دیکھا جا سکتا ہے۔

جس مگرمچھ کا ذکر کرنے لگا ہوں، اسے شاید کسی طاقتور نر نے اس کے علاقے سے نکال باہر کیا تھا۔ یہ مگرمچھ کوئی کمزور جانور نہیں تھا۔ اس کی لمبائی سولہ فٹ تھی اور جسم پر پرانے زخموں کے نشانات تھے۔ جب یہ جانور پانی میں اترتا تو عجیب سی آواز پیدا ہوتی۔ اس کی شکل سے ہی بے رحمی اور قاتل ہونا واضح تھا۔ اس جنگ سے تو کوئی زخم نہیں بنے لیکن اس کی کمینگی اپنی مثال آپ تھی۔

اس مگرمچھ کے بارے مجھے پہلے پہل ایک تانی (کسان) نے بتایا جو کھیتوں سے واپسی پر اپنی گائیں دریائے موسی کی ایک شاخ پر پانی پلانے کو لے گیا تھا۔ اس ندی میں کوئی مگرمچھ نہیں تھے کہ یہاں مچھلیاں نہ ہونے کے برابر تھیں۔ مگرمچھ نہ ہونے کی وجہ سے یہ کسان سست ہو رہا تھا اور گائیوں کو پانی پر لانے سے قبل اس نے پانی پر لاٹھیاں مار کر شور نہیں کیا۔ جب تھکا ہارا کسان اور اس کی گائیں کام سے فارغ ہو کر ندی پر پہنچے تو سب سے اگلی گائے کو ندی سے ایک بہت بڑے مگرمچھ نے تھوتھنی نکال کر پکڑا اور پانی میں گھسیٹ کر لے گیا۔ عظیم الجثہ بواجہ، انتہائی ڈراؤنا خواب۔ تانی نے بتایا کہ اس نے بھاگ کر گائے کی دم پکڑی اور مدد کے لیے چلانے لگا۔ بدقسمت گائے نے تکلیف اور خوف کی شدت سے زور تو لگایا مگر خود کو چھڑا نہ سکی۔ اگلے روز اس کی بیوی نے دریا کے کنارے پر اگے ہوئے ایک درخت کے نیچے گائے کی باقیات دیکھیں۔ اس دن کے بعد سے جب بھی مویشی پانی پر لائے جاتے تو کسان خوب شور و غل مچا کر یا پانی پر لاٹھیاں مار کر مگرمچھ کو بھگا دیتے۔

پھر بواجہ نے اپنا طریقہ واردات تبدیل کیا۔ جتنی دیر شور مچا، مگرمچھ دم سادھے پانی کی تہہ میں لیٹا رہا۔ پھر مویشی پانی پینے آئے تو مگرمچھ انتہائی خاموشی سے تیرتا ہوا گائیوں کی جانب بڑھا۔ اس کا سارا جسم پانی میں پوشیدہ اور محض نتھنے اور آنکھیں پانی سے اوپر تھیں۔ تاہم ریوڑ کے جانور محتاط تھے۔ جونہی انہیں چار ابھار اپنی جانب آہستگی سے بڑھتے دکھائی دیے تو تمام جانور پانی سے باہر کو بھاگے اور شور مچانے لگے اور بھگدڑ مچ گئی ۔ آخرکار بواجہ کو یہ علاقہ چھوڑ کر کسی اور جگہ منتقل ہونے پر مجبور ہونا پڑا۔

اس دوران اس کسان نے تیل تلاش کرنے والے میرے دوست کو اپنے نقصان کے بارے بتایا۔

پھر جو کچھ ہوا، وہ غیر معمولی تھا۔ عام طور پر مگرمچھ ایک دوسرے سے دور دور رہتے ہیں اور ہر مگرمچھ کو اپنا پیٹ بھرنے کو مل جاتا ہے۔ مقامی آبادی چونکہ تناسخ پر یقین رکھتی ہے، اس لیے وہ مگرمچھوں کو نقصان پہنچانے سے ڈرتی ہے کہ مبادا ان میں کسی بزرگ کی روح نہ حلول کر گئی ہو۔ سو مقامی لوگ انہیں دادا کہتے ہیں اور ان سے دور رہتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ مغربی افراد ایسی باتیں سن کر افسوس سے سر ہلاتے ہیں۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے کہ اندراگیری دریا کے مگرمچھوں، مالے کے سلطان اور اندراگیری کے شہزادے کے درمیان کوئی معاہدہ ہے۔ مجھے اس معاہدے کی تفصیل کا تو علم نہیں، اس لیے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ سلطنت کے پاس مگرمچھوں سے کبھی مسئلہ نہیں ہوا کہ وہاں مچھلیوں کی کثرت ہے۔ یہ جگہ ضلع امیر ملک کہلاتی ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ اس جگہ مگرمچھوں سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی، اگرچہ اس سے اوپر اور نیچے، ہر جگہ بواجہ کا مسئلہ شدید ہے۔ اس مبینہ معاہدے کے باوجود انسان اور بواجہ کا تعلق محض امن اور آشتی کا نہیں۔ اگر کوئی مگرمچھ انسانی شکار پر کمربستہ ہو جائے تو پھر آباؤ اجداد والے نظریے کو ایک طرف رکھ کر اس مگرمچھ کو ٹھکانے لگانے کا فوری انتظام کیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں یہ عام تصور پایا جاتا ہے کہ بعض حاجیوں کو خصوصی طاقت ملی ہوتی ہے جس کی مدد سے وہ بواجہ کو پکڑ سکتے ہیں۔ مجھے میرے کئی واقفانِ کار نے ایسے واقعات کا بتایا ہے کہ وہ آدم خور مگرمچھ کے پیچھے مہینوں خجل ہوتے رہے تھے۔ مگرمچھ ہمیشہ ان کی پہنچ سے دور رہا اور انسانی عقل مگرمچھ کی فطرت کا سامنا نہ کر سکی۔ پھر حاجیوں کو مدد کے لیے بلایا گیا۔ ایک مقررہ مدت تک وظیفہ پڑھنے کے بعد حاجیوں نے آدم خور کے لیے قربانی دی جس میں بانس کی پٹیوں سے بُنی ہوئی چھوٹی سی تھالی میں پیسانگ کا پتہ رکھ کر اس پر جلتی ہوئی اگربتیاں رکھی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ مرغی کے انڈے، ایک سفید مرغا اور بہت کچھ اور بھی رکھا جاتا ہے۔ پھر یہ قربانی دعا کے ساتھ دریا میں بہا دی جاتی ہے۔ شاید یہ دعا اس خاص مگرمچھ کے بارے مانگی جاتی ہے کہ حاجی اس کی جان کے درپے ہے۔ چند دن بعد پھر ایک بڑا مجمع دریا کنارے جمع ہوتا ہے اور ان کے درمیان مذہبی رہنما بیٹھا ہوتا ہے جو دریا سے درخواست کرتا ہے۔ تھوڑی دیر بعد ایک بہت بڑا مگرمچھ ابھر کر کنارے پر ایسے پہنچتا ہے جیسے اس پر کسی نے جادو کر دیا ہو اور پھر کنارے پر منتظر افراد اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے ہیں۔

یہ واقعات لازمی طور پر بہت مرتبہ ہوئے ہوں گے کہ بہت سارے لوگ ان کی گواہی دیتے ہیں۔ تاہم اس کی وجہ کے بارے شاید ہی کوئی جانتا ہو۔

ہمارے تانی کا معاملہ کچھ الگ تھا کہ اس نے یورپی شکاری سے مدد مانگی تھی تاکہ اس کی قیمتی گائے کا شکار کرنے والا مگرمچھ اپنے انجام کو پہنچے۔ اس شکاری نے ایک بہت بڑا فولادی آنکڑہ اپنی زمینوں پر بنایا اور اس پر ایک مردہ بندر باندھ دیا۔ پھر اس چارے کو پانی کے اوپر اور سطح کے قریب لٹکا دیا گیا تاکہ مگرمچھ کو متوجہ کیا جا سکے۔ جہاں جنگل دریا تک آتا ہے، وہاں ایک انچ جتنی جگہ بھی خالی نہیں ہوتی۔ بندر بیلوں سے لٹک کر پانی پیتے ہیں۔ ایسے ہی مواقع پر مگرمچھ بندروں کو شکار کرتے ہیں۔

تاہم بندر کی لاش والا نسخہ کامیاب نہ رہا۔ ہر دوسرے دن نیا بندر لگانا پڑتا تھا مگر وہ بھی بیکار جاتا۔ شاید مگرمچھ اتنے بھی بھوکے نہیں تھے کہ پھندے میں آن پھنستے۔ ایک بار ایک مچھیرے کو اس پھندے کے عین نیچے ایک مگرمچھ آرام سے لیٹا دکھائی دیا مگر اس نے بے حس و حرکت بندر کی لاش کو کھانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ آخرکار اس شکاری کو یہ بات سمجھ آ گئی کہ مگرمچھ زندہ اور متحرک بندر کا شکار کرتے ہیں، سو لاش سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔ عوامی خواہشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے شکاری نے بہت ہچکچاہٹ سے ایک زندہ بندر اس پھندے سے باندھ دیا۔ وہ بندہ کنارے پر چھپ کر مگرمچھ کا منتظر رہا۔ اسی دوپہر کو ایک مگرمچھ اس بندر کے گرد لمبے چکر کاٹتا رہا۔ شاید مگرمچھ کو شبہ ہو گیا ہوگا، اس لیے اس نے فوراً حملہ نہیں کیا۔ رات کے وقت اس نے حملہ کیا اور بیچارے بندر کی چیخیں اچانک تھم گئیں۔

شکاری کو فوری اطلاع دی گئی اور وہ بیچارہ لالٹین اور بندوق کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچا۔ اس کا خیال تھا کہ پھندے والا درخت مگرمچھ کے وزن سےجھکا ہوا ہوگا۔ مگر اس کی مایوسی دیکھیے کہ اس آنکڑے پر تازہ گوشت لگا ہوا تھا اور بواجہ غائب تھا۔ آخرکار بھوک کی وجہ سے بواجہ نے بندر پر حملہ تو کیا تھا مگر جونہی اس کے جبڑے آنکڑے سے ٹکرائے، اس نے چھوڑ دیا ہوگا۔

اب اس مگرمچھ کو محض کشتی پر بیٹھ کر ہلاک کرنا ہی رہ گیا تھا۔ دن کے وقت وہ کسی جزیرے یا ریتلے کنارے پر ہی ملتا، آبادی کے پاس بھی نہ پھٹکتا تھا۔ مغرب کے وقت یہ دیہاتوں کا رخ کرتا جب لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلانے لاتے۔

تیز دھوپ میں دو دن کی تلاش کے بعد میرے دوست نے ہمت ہار دی۔ اس نے دو مگرمچھ ہلاک کر لیے ہوتے مگر وہ مطلوبہ مگرمچھ سے بہت چھوٹے تھے۔ ایک بار اسے ایک بہت بڑا بواجہ دکھائی دیا مگر قبل اس کے کہ ملاح کشتی کو اتنا قریب لے جاتے کہ وہ گولی چلا پاتا، مگرمچھ پانی میں کود کر فرار ہو گیا۔

پھر اچانک چبر انگن (ہوا سے پھیلنے والی خبر) آئی۔ مجھے ایسے یاد ہے جیسے یہ کل کی بات ہو۔ کہا گیا کہ فلاں کمپونگ میں ایک عورت دھندلکے کے وقت جنگل سے آ رہی تھی اور دریا کے کنارے رک کر اس نے اپنے مٹی سے بھرے پیر دھونے چاہے اور بواجہ اسے اٹھا لے گیا۔

جب عورت واپس نہ لوٹی تو ہر طرف ہیجان برپا ہو گیا۔ اس کا شوہر مشعل اور کلہاڑی لے کر جنگل میں دریا کے کنارے کو لپکا۔ کنارے پر اسے بیوی کی ٹوکری دکھائی دی جس میں متوفیہ نے جڑی بوٹیاں اکٹھی کی تھیں۔ ساری صورتحال کا اندازہ کر کے اس کے شوہر نے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور پھر بیوی کا جواب سننے کی ناکام کوشش کی مگر ہر طرف رات کی خاموشی چھائی رہی۔

تین دن بعد اسی کمپونگ کے ایک اور آدمی کو اس عورت کی پھٹی ہوئی ساڑھی اور کچھ ہڈیاں دریا کے کنارے دکھائی دیں ۔ بواجہ اب آدم خور بن چکا تھا۔

پھر کمپونگ کے ہر آدمی نے بواجہ کے شکار میں حصہ لیا۔ کلہاڑیوں اور بھاری نیزوں سے مسلح ہو کر لوگ اپنی اپنی کشتیوں میں بدلہ لینے کو سوار ہو گئے۔ پانی میں مضبوط جال لگا دیے گئے جن میں سے کئی جالوں کو کسی بہت طاقتور جانور نے چیر ڈالا۔

لوہے کے آنکڑوں پر گوشت کے ٹکڑے لگا کر پانی میں ڈالے گئے۔ میرے دوست نے کئی دن تک کوشش کی۔ مگر سب ناکام رہے۔

دو ہفتے بعد دریا کے مزید اوپر کی جانب سے ایک کمپونگ سے خبر آئی کہ دو بھینسیں ماری گئی ہیں۔ کچھ دن بعد ایک اور کمپونگ کے نمبردار کا بہترین کتا مارا گیا۔

بدقسمتی سے جب لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہوتا ہے تو وہ اپنی عام زندگی کو لوٹ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ لاپروا اور غیر محتاط ہو جاتے ہیں اور بواجہ کو پھر نیا موقع مل جاتا ہے۔ دریا کے کنارے آباد کمپونگ کے بچے چھوٹی کشتیوں میں دریا میں گھومتے رہتے ہیں۔ جونہی وہ چلنے کے قابل ہوتے ہیں، پانی سے ان کا تعلق شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح کا ایک بچے کی چھوٹی کشتی کو الٹا کر بواجہ اسے اٹھا لے گیا۔ اس بچے کی الٹی کشتی دریا سے ملی۔

کمپونگ کے لوگ پھر ڈر گئے اور کچھ عرصہ خبردار اور محتاط رہے۔ دریا سے پانی لانے کے لیے خواتین ہمیشہ مسلح مردوں کے ہمراہ جاتی تھیں اور بچوں کو ان کی کشتیوں پر جانے سے روک دیا گیا اور مچھیروں نے لمبے دستے والی کلہاڑیاں ساتھ لے جانا شروع کر دیا۔

اب یہ کہنا تو ممکن نہیں تھا کہ آیا یہ سب وارداتیں ایک ہی مگرمچھ نے کی ہیں یا ایک سے زیادہ نے۔ تاہم تمام لوگوں کا شک ایک ہی مگرمچھ پر تھا جو انسانی اور حیوانی جانوں کے ضیاع کا سبب تھا۔ میرا دوست اسی کا پیچھا کرتا رہا تھا۔ میرے دوست نے لوگوں سے درخواست کی اگر یہ مگرمچھ اس جگہ دوبارہ دیکھا جائے تو اسے اطلاع دی جائے۔ مقامی لوگ اسے ‘قاتل‘ کے نام سے پکارتے تھے۔

مشرقی اور مغربی مون سون کے درمیانی وقفے میں ‘قاتل‘ کے بارے کوئی اطلاع نہیں آئی۔ معلوم نہیں کہ یہ کہاں گیا۔ ہاشم نے مجھے ہر ممکن طور پر اس کے شکار کو تیار کرنے کی کوشش کی۔ اس کا خیال تھا کہ یہ مگرمچھ مادہ کی تلاش میں کہیں نکل گیا ہوگا۔ مادہ کا ملنا اس مگرمچھ پر کوئی اچھا اثر ڈالتا یا نہ ڈالتا، مگر عارضی طور پر لوگوں کی جان چھوٹ گئی تھی۔

پھر مشرقی مون سون کے دوران ایک مچھیرے نے بتایا کہ اس نے ایک بہت بڑے بواجہ کو دریا کے ریتلے کنارے پر دیکھا۔ بواجہ اس کی آمد سے خبردار ہو کر پانی میں کود گیا۔ مچھیرے نے ڈر کے مارے اپنی کشتی کو بھگایا۔ مچھیرے نے کہا کہ اگر تھوان دیکھنا چاہیں تو وہ ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ مگر تھوان اپنی سب سے بڑی بندوق ساتھ لے جائیں کہ بواجہ بہت بڑا تھا۔

ہاشم نے یہ سب سنا تو جوش میں آ گیا۔ میں نے جانے کا فیصلہ کیا اور متعلقہ ساز و سامان اکٹھا کر لیا۔ پھر میں نے ایک بڑا سمپان یا کشتی منگوائی اور دو ملاح بھی بلا لیے اور ہاشم کے ساتھ روانہ ہو گیا۔ ہر ممکن تیزی سے ہم دریا کے اوپر کی جانب روانہ ہوئے اور چند گھنٹے کی مشقت کے بعد ہم لوگ ایک کمپونگ جا پہنچے جہاں میرا مندرجہ بالا دوست بانسوں سے بنی بیرک میں رہتا تھا۔ دو ماہ بعد اس سے ملاقات ہوئی اور وہ بہت خوش دکھائی دیا۔

شام میں ہم لوگوں نے منصوبہ بنایا۔ مچھیرے کی اطلاع کے مطابق ہم نے متعلقہ جگہ کی نشاندہی کر لی۔ ہم نے اس جگہ تک زمینی راستے سے جانے کا سوچا۔ اگلے روز دو بجے دوپہر کے بعد ہم مطلوبہ جگہ پہنچ سکتے تھے۔

اور ہم پہنچ گئے۔ دلدلی علاقے، گھنی جھاڑیوں اور سخت مشقت کے بعد ہم ڈیڑھ بجے اس جگہ پہنچ گئے۔ ہم نے دریائے موسی سے نکلنے والے ایک ندی کے کنارے قیام کا فیصلہ کیا۔ اس جگہ کچھ زمین ہر قسم کے جھاڑ جھنکار سے پاک تھی اور اطراف میں مموسا جیسی جھاڑیاں تھیں۔ اس جگہ خیمے گاڑنے کا فیصلہ ہوا۔ جتنی دیر ہمارے قلی خیمے گاڑتے، ہم نے دریائے موسی کے کنارے اس ریتلی بار کی تلاش شروع کر دی جہاں بواجہ دیکھا گیا تھا۔ پندرہ منٹ بعد وہ جگہ نظر آ گئی۔ یہ جگہ بیس فٹ چوڑی اور تیس فٹ لمبی تھی اور اس جگہ خشک ٹہنیاں اور چھوٹے مردہ درختوں کے تنوں کا ڈھیر پڑا تھا۔ اس کے پیچھے سرکنڈوں کی چوڑی پٹی تھی اور پھر سبز اور خشک جھاڑیاں بھی۔ اس جگہ ریت پر بہت بڑے مگرمچھ کے پیروں کے نشان واضح تھے۔ ہمیں مگرمچھ تو نہیں ملا مگر ہاشم نے ایک دلچسپ چیز دریافت کر لی۔ اس نے ہم سے الگ ہو کر سرکنڈوں کا رخ کیا تھا اور وہاں اسے مگرمچھ کا گھونسلہ اور انڈے دکھائی دیے۔ اس نے دوڑ کر ہمیں اطلاع دی۔

مادہ مگرمچھ اپنے انڈے سڑتے ہوئے پتوں سے بنے گھونسلے میں دیتی ہے۔ سورج اور سڑتے ہوئے پتوں کی نمی اور حدت سے یہ انڈے سینچے جاتے ہیں۔ جب بچے انڈوں سے نکلتے ہیں (ان کی لمبائی 16 انچ ہوتی ہے اور بہت تیز طرار ہوتے ہیں)، مادہ مگرمچھ انہیں گھونسلے میں مردہ مچھلیاں لا کر دیتی ہے۔ سڑتی مچھلیوں اور پتوں انتہائی شدید تعفن نکلتا ہے۔

تاہم اس روز گھونسلے میں مچھلیاں نہیں تھیں، کہ بچے ابھی انڈوں سے نہیں نکلے تھے۔ ہم اپنے کیمپ کو واپس لوٹے اور ندی میں نہا کر تازہ دم ہو گئے۔ پھر ہم نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور آرام کرنے اور اگلے روز کے بارے سوچنے لگے۔

سورج ابھی نکلا ہی تھا کہ ہم لوگ روانہ ہو گئے۔ جب ہم دریا کو پہنچے تو دیکھا کہ پانی میں ہلچل مچی ہوئی تھی اور مگرمچھ کے نشانات ابھی بھی نم تھے۔

ہم نے کچھ دیر رک کر انتظار کیا اور پھر میرا دوست جھاڑیوں سے باہرنکلا۔ ابھی وہ چند گز ہی گیا ہوگا کہ ہاشم چلایا ‘اواس، تھوان!‘ (دیکھیں جناب)۔

ریتلے کنارے کے بائیں جانب جھاڑیاں ہلیں اور ایک بڑے مگرمچھ کا سر نکلا۔ اس نے اپنے بھاری اور بھدے جسم کو پھیلے ہوئے پنجوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ اتنا بڑا جانور زمین پر کیسے اتنی تیزی سے حرکت کر سکتا ہے۔

میرا دوست دہشت کی وجہ سے اسی جگہ رک سا گیا مگر فوراً اس کا شکاری تجربہ مدد کو آیا۔ اس نے فوراً اپنی ماؤزر رائفل کندھے پر لگائی اور اسی لمحے اس کی گولی پانی کے اوپر سے گزر گئی۔

سنائپ اور دیگر آبی پرندے شور مچاتے اڑ گئے اور درختوں پر بندروں کا شور سنائی دیا۔ پھر میں نے دیکھا کہ بواجہ اپنے پچھلے پیروں پر اٹھا اور مجھے اس کا سنہرا پیٹ دکھائی دیا۔ اس نے شور کیا۔ میں نے اپنی رائفل کے دیدبان سے اس کے پیٹ کو دیکھا اور اس کے گلے کا نشانہ لے کر گولی چلا دی۔

مجھے گولی لگنے کا دھکا سنائی دیا اور عین اسی لمحے میرے دوست نے ایک طرف جست لگائی تاکہ مگرمچھ اس پر نہ گرے۔ مجھے بازو پر ہاشم کا دباؤ محسوس ہوا جو مجھے پیچھے ہٹنے سے روک رہا تھا۔ مگرمچھ مڑ کر گرا اور اس کی طاقتور دم پتوں اور شاخوں کو اڑانے لگی۔ ریت بھی ہوا میں اڑ رہی تھی۔ کیچڑ بھی اڑ رہا تھا۔ کچھ دیر بعد مگرمچھ کی حرکات تھم گئیں۔ اس کی سرد اور کمینی نگاہیں ہمیں گھور رہی تھیں۔

ہم نے اپنے چہروں سے کیچڑ ہٹایا اور ایک دوسرے کو خوشی سے دیکھا۔

میرے دوست کی چلائی ہوئی گولی مگرمچھ کی کنپٹی کے پاس لگی اور اچٹ کر دریا کے اوپر سے زوں زوں کرتی گزری۔ جب اس دھکے سے پریشان ہو کر مگرمچھ اچھلا تو مجھے اس نے بہترین موقع دیا اور میں نے کامیاب نشانہ لیا۔ میری چلائی ہوئی بھاری گولی اس کے گلے سے ترچھی گزری اور ریڑھ کی ہڈی کے ایک مہرے کو توڑ گئی۔

ہاشم نے انڈوں کے گرد لکڑی کے کھونٹے گاڑ دیے تاکہ مگرمچھ کے بچے انڈوں سے نکل کر فرار نہ ہو جائیں۔ چینی خریدار ان بچوں کا معقول معاوضہ دیتے ہیں۔ وہ ان بچوں کو ایک گز لمبائی تک پالتے ہیں اور پھر ہلاک کر کے ان کی کھال کو مہنگے داموں یورپ بیچ دیتے ہیں۔

میں اور میرا دوست اپنے گھروں کو لوٹ گئے اور فیصلہ کیا کہ جونہی آدم خور کی اطلاع ملی، واپس لوٹ آئیں گے۔

ہاشم دو روز بعد لوٹا۔ اس نے مقامی مچھیرے کو پیسے دے کر ان انڈوں کی نگرانی کا کام سونپ دیا۔

اس سے اگلے دن ہمیں پتہ چلا کہ میرے دوست کی رہائش گاہ کے نزدیک ایک کمپونگ سے آدم خور نے ایک بکری ہڑپ کر لی تھی۔ اسی شام میں اور ہاشم وہاں جا پہنچے۔ توقع سے پہلے ہی مغرب کے وقت ہم دوست کی رہائش گاہ پر پہنچ چکے تھے۔ فوراً ہی ہمیں تیز کافی پیش کی گئی جس سے ہماری تھکن دور ہو گئی۔

مگرمچھ اپنے شکار کو پانی کے نیچے لے جاتا اور پھر سطح پر لا کر پھر نیچے لے جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک شکار مر نہ جائے۔ بندر یا چھوٹے جانور کو تو مگرمچھ سالم ہی نگل لیتا ہے۔ بچھڑا یا سانبھر وغیرہ ہوں تو اسے دریا کے کنارے کسی درخت کی جڑوں میں کھوکھلی جگہ پر لا کر زیرِ آب رکھ دیتا ہے۔ جب لاش گلنے سڑنے لگتی ہے تو اسے کنارے پر لا کر ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا جاتا ہے۔ ہاشم نے بتایا کہ اگر جانور کی ہڈیاں یا کھال بہت سخت ہو تو مگرمچھ اسے درخت سے ٹکرا کر پاش پاش کر دیتا ہے اور پھر کھاتا ہے۔ تاہم میں اس کی تصدیق کرنے کے قابل نہیں۔ آدم خور نے دو روز قبل بکری اٹھائی تھی، سو کنارے پر اس کی تلاش کا کام بہتر رہتا۔ تاہم ہمیں کوئی نشان نہ ملا حالانکہ ہم نے دریا کے بہاؤ اور مخالف سمت، کافی دور دور تک دیکھا۔ ہم نے ایک نوعمر مگرمچھ مارا جبکہ سورج کی گرمی سے ہمارا اپنا برا حال تھا۔

ہم شام کو کمپونگ کی جانب روانہ ہوئے۔ ابھی ہم نے اس جگہ سے گزرنا تھا جہاں دریا تنگ ہو کر 25 فٹ رہ جاتا تھا۔ اسی جگہ ایک کنارے کے پیچھے کمپونگ آباد تھا۔ دوسرے کنارے پر ہم نے ایک عجیب نظارہ دیکھا۔ پورے کمپونگ کے کمزور مویشی جمع ہو کھڑے دہشت سے کانپ رہے تھے۔ دریا کا پانی آہستہ آہستہ بہہ رہا تھا اور دوسرے کنارے پر کتے دور کھڑے بھونک رہے تھے۔ ظاہر تھا کہ یہ کتے اسی کمپونگ کے تھے اور دریا پار کرنا چاہ رہے تھے۔

ہاشم نے ملاحوں سے رکنے کا کہا اور ہنستے ہوئے ہمیں کہنے لگا: ‘آئیے ایک تماشا دیکھتے ہیں۔‘ مجھے اس کی کمینگی پر شدید غصہ آیا کہ وہ ہمیں دکھانا چاہتا ہے کہ کتے کیسے مگرمچھ کا نوالہ بنتے ہیں (بطور مسلمان، اس کے لیے کتے ناپاک جانور تھے)۔ مگر مجھے غلط فہمی ہوئی تھی۔

ہم نے رائفلیں تیار رکھیں اور بالکل خاموشی سے دیکھتے رہے۔ دس منٹ جب سورج کی آخری کرنیں جنگل پر پڑ رہی تھیں اور کتے بھی بھونک رہے تھے کہ ہم نے گھنی جھاڑیوں سے نکلتے مگرمچھوں کی آواز سنی جو دریا میں کود رہے تھے۔ ہاشم نے ہمیں مگرمچھ دکھائے جو کالے رنگ کے موٹے موٹے تنے لگ رہے تھے۔ ایک، دو، تین اور چار۔ چار مگرمچھ تھے۔ مگرمچھوں کے گزرنے سے پانی کی تاریک سطح پر انگریزی کے حرف V کی شکل کی لہریں بنتی جا رہی تھیں۔

پھر وہ پانی سے باہر نکلے۔ انتہائی خاموشی سے پہلا نکلا، جس سے پانی ٹپک رہا تھا۔ وہ ریت پر چڑھا، اس کے پیچھے دوسرا اور پھر تیسرا اور چند لمحے بعد چوتھا بھی نکل آیا۔ اپنے بھدے پنجوں پر چلتے ہوئے وہ بڑے کتے کی جانب جا رہے تھے جو دہشت سے بھونکتا ہوا پیچھے ہٹتا جا رہا تھا۔

ہم سانس روکے یہ منظر دیکھتے رہے۔ اچانک مجھے آنکھ کے کنارے سے اپنے دوست کی ماؤزر رائفل کی نیلے فولاد کی نالی اٹھتی دکھائی دی اور فوراً ہی ہاشم کا ہاتھ اٹھا اور نرمی سے رائفل کو جھکا دیا۔ میرے دوست نے پریشان ہو کر ہاشم کو دیکھا مگر ہاشم نے کنارے کی جانب پھر اشارہ کیا۔ وہاں پانچ گلڈاکر (کمپونگ کے کتے) دکھائی دیے جو انتہائی خاموشی سے بے آواز تیرتے ہوئے آ رہے تھے اور فوراً ہی دوسرے کنارے پر پہنچ گئے۔

پھر اچانک ہمیں بڑا کتا دکھائی جو مگرمچھوں سے بچنے کے لیے پیچھے کو ہٹ رہا تھا۔ وہ دوسرے کنارے کی جھاڑیوں کے پیچھے سے نکلا اور پانی میں کود کر فوراً اسے عبور کر گیا۔ میرے دوست نے خوشی سے نعرہ لگایا اور پھر اس کی رائفل سے ایک، دو اور پھر تیسرا شعلہ نکلا۔ ظاہر ہے کہ اس کا نشانہ مگرمچھ تھے جو اب کھسیائے ہوئے اور ریت پر تیزی سے دوڑ رہے تھے۔ منظر دیکھنے کے قابل تھا۔

کتوں کو بحفاظت دوسرے کنارے پر پہنچتا دیکھ کر مجھے تسلی ہوئی اور میں نے بھی اس چھوٹے بواجہ پر گولی چلا دی جو پانی کو دوڑ رہا تھا۔ اس کے پہلو پر گولی لگی اور وہ پانی میں گم ہوا، پھر ابھرا اور شور مچاتا ہوا دور ہونے لگا۔ جنگل کے کنارے گولیوں کی گرج سے گونجی اور بندر شور مچانے لگے اور گاؤں سے بھی لوگوں کا شور سنائی دیا۔ کچھ دیر بعد ہر طرف خاموشی چھا گئی۔ دو مگرمچھ شدید زخمی پڑے تھے اور ایک پانی میں کود چلا تھا۔

ملگجے اندھیرے میں چلائی گئی گولیاں میرے دوست کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت تھیں کہ اس نے نسبتاً چھوٹے اور متحرک جانوروں پر گولیاں چلائی تھیں۔ ایک مگرمچھ کی دائیں آنکھ میں بڑا سا سوراخ تھا کہ میرے دوست کی ڈم ڈم (ٹکرا کر پھیل جانے والی) گولی لگی تھی۔ دوسرے مگرمچھ کو عین اس جگہ گولی لگی جہاں اگلی بائیں ٹانگ جسم سے جڑتی ہے۔ تیسری گولی کنپٹی کے پیچھے نرم جگہ پر لگی۔

اس وقت دریا عبور کرنے والے کتوں کی مدد سے ہم نے کئی بار آدم خور کا پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی۔

چند ہفتے بعد ہمیں پھر نئی اطلاع ملی۔ ایک مچھیرے نے اپنی کشتی کو دریا کے کنارے درخت سے باندھی ہی تھی کہ مگرمچھ نے اسے کشتی سے دبوچ لیا۔ تاہم اس مچھیرے نے جدوجہد جاری رکھی۔ جب مگرمچھ اسے پانی کے نیچے لے گیا تو اس نے سانس روکے ہوئے اپنا پرانگ نیام سے نکالا اور جونہی مگرمچھ سطح آب پر ابھرا، اس نے پرانگ سے مگرمچھ کے سر پر وار کیا۔ تکلیف کی شدت سے مگرمچھ نے اسے چھوڑ کر غوطہ لگایا اور خون کی دھار بہتی گئی۔ نیم بیہوش اور جریانِ خون سے کمزور بندہ بمشکل تیر کر کنارے تک پہنچا۔ اس کی تکلیف کا اندازہ لگائیے کہ اس کا بائیں بازو ٹوٹ چکا تھا۔ کنارے پر پہنچ کر وہ گر کر بیہوش ہو گیا۔

اگلی صبح بیچارہ رینگ کر اپنے کمپونگ پہنچا تو اس کے زخموں پر اس کی کیچڑ اور خون سے لتھڑی پٹیاں تھیں جو اس نے اپنے کپڑے پھاڑ کر بنائی تھیں۔ اس کا رنگ زرد ہو چکا تھا۔ اس کی بیوی نے جب اسے دیکھا تو ڈر سے اپنے ہوش کھو بیٹھی کہ وہ سمجھی کہ مگرمچھ اسے کھا گیا ہوگا۔

اب میرے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ میں نے ایک ہفتے کی چھٹی کی درخواست بھیجی تاکہ اس قاتل کو ختم کر سکوں۔ میں نے جواب کا انتظار کیے بنا ہاشم کو ساتھ لیا اور نکل پڑا۔ مجھے اس شرط پر مگرمچھ کے شکار کی اجازت ملی کہ میرا کام متاثر نہ ہو اور یہ خط مجھے نو دن بعد ملا جب تک مگرمچھ کا کام تمام ہو چکا تھا۔

ظاہر ہے کہ اس کام میں کوئی بہادری یا ناموری نہیں۔ ہمیشہ کسی بھی زخمی جانور کا پیچھے کر کے اسے تکلیف سے نکالا جاتا ہے۔ ہم نے تمام دریائی کنارے چھان مارے اور جہاں بھی خون کے نشانات ملتے، ہم خوش ہوتے۔ ہمارا کام دو دن میں پورا ہو گیا۔

پہلے دن دوپہر کے وقت ہم ایک درخت تلے آرام کر رہے تھے کہ ہمیں اپنی جانب بھاگتا ہوا ایک مچھیرا دکھائی دیا جو انتہائی ہیجان میں مبتلا اور اشارے کرتا آ رہا تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا، اس نے ‘قاتل‘ کو دیکھا ہوگا۔

جونہی اس کا سانس کچھ بحال ہوا، اس نے بتایا دو سو گز پیچھے اس نے ایک مگرمچھ دیکھا ہے جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ اس وقت مگرمچھ دریا کے عین وسط میں ریت کے ٹیلے پر لیٹا تھا۔

ہاشم اور میں نے اطمینان سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ یہ اچھی علامت تھی۔ مگر ہماری مشکلات اب شروع ہو رہی تھیں۔ جونہی اس نے مچھیرے کی کشتی دیکھی، وہ بیچین دکھائی دیا تھا۔ اب ہو سکتا ہے کہ ہمارے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اس جگہ کو چھوڑ چکا ہو۔ دوسرا جھکولے کھاتی کشتی سے میں کیسے سو فیصد یقین سے گولی چلا سکتا تھا۔

ایک اور مشکل بھی تھی کہ ریت کا ٹیلہ بہاؤ کی سمت تھا اور مگرمچھ اس ٹیلے پر پوری طرح نہیں چڑھا تھا۔ جب بھی مگرمچھ کو شک ہو تو وہ ایسے ہی خبردار رہتے ہیں۔ عموماً مگرمچھ عام حالات میں ٹیلے پر چڑھ کر لیٹ جاتے ہیں اور ان کا رخ ہمیشہ پانی کی سمت ہوتا ہے تاکہ فرار میں آسانی ہو۔ پھر ان کے جبڑے کھلے ہوتے ہیں تاکہ پرندے ان کے دانتوں میں پھنسے گوشت کے ریشے نکال سکیں۔ یہ پرندے دانتوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ چوکیداری کا کام بھی کرتے ہیں۔ اگر انہیں کوئی بھی مشکوک چیز دکھائی دے تو فوراً شور مچاتے اڑ جاتے ہیں۔

قاتل کے موجودہ مقام کے بارے میرا تجربہ کام آیا۔ برسوں سے مگرمچھوں کا شکار کرنے کی وجہ سے مجھے علم تھا کہ جب مگرمچھ آدھا پانی میں لیٹا ہو تو بہاؤ کے ساتھ آنے والی کشتی ابھی بہت دور ہوتی ہے کہ مگرمچھ کو کسی نامعلوم ذریعے سے پتہ چل جاتا ہے اور وہ خبردار ہو کر پانی میں گھس جاتا ہے۔ تاہم جب پانی کے بہاؤ کے مخالف سمت جا رہے ہوں تو دس میں سے نو مرتبہ کامیابی ہو جاتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

بہت دماغ لڑانے کے بعد مجھے اس کا جواب مل گیا تھا۔ ایک بار میں نے ایک مگرمچھ شکار کیا اور اسے وہیں چھوڑ دیا کہ رات ہو رہی تھی۔ ارادہ تھا کہ اگلی صبح آ کر کھال اتاروں گا۔ اگلی صبح لوٹا تو دیکھا کہ دم کے بعض چھلکے دار حصوں پر بلبلے سے بنے ہوئے تھے اور یہ حصے ساری رات پانی میں رہے تھے۔ تعجب سے میں نے انہیں صاف کیا تو نیچے ننھے سوراخ دکھائی دیے جو شاید اعصاب کے سرے ہوں گے۔ چونکہ دم ساری رات پانی میں رہی، اس لیے سڑنے لگ گئی ہوگی اور گیس سے بلبلے بنے ہوں گے۔

اس طرح یہ معاملہ واضح ہو گیا۔ سخت کھال کے باوجود یہ اعصاب ہی مگرمچھ کو پانی میں ہونے والی کسی بھی غیر معمولی حرکت کے بارے آگاہ کرتے ہوں گے۔ یہ اتنے حساس ہوں گے کہ بہت دور چلنے والے چپو سے مگرمچھ کو کشتی کی آمد کا علم ہو جاتا ہوگا۔

چونکہ کشتی کی مدد سے ‘قاتل‘ کے قریب پہنچنا مشکل تھا، زمین پر سے گولی چلانا بھی مشکل کام تھا کیونکہ کناروں پر بہت گھنی جھاڑیاں اگی ہوتی ہیں اور نشانہ لینا مشکل ہو جاتا ہے۔

ہمیں جلدی کوئی حل نکالنا تھا۔ ہاشم نے کہا کہ اگر ہم کشتی کے ایک جانب سرکنڈے باندھ لیں اور چپو چلائے بغیر کشتی کو پانی پر بہنے دیں تو ہم مگرمچھ تک بغیر کسی شور کے پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے ہم نے ایسا ہی کرنے کا فیصلہ کیا۔ پانی میں بہتی کشتی کی رفتار اتنی آہستہ تھی کہ مجھے اکتاہٹ سے نیند آنے لگی۔

بغیر حرکت کیے کشتی پر بیٹھنا بہت مشکل کام تھا۔ سورج ہماری پشت جلا رہا تھا اور دریا جیسے رک سا گیا ہو۔

ایک موڑ مڑنے کے بعد ہمیں وہ ٹیلہ دکھائی دیا اور واقعی، وہاں جیسے درخت کا بہت بڑا تنا پڑا ہو، مگر مچھ دکھائی دیا۔ کشتی آہستہ آہستہ بہتی گئی۔ کشتی کو بہاؤ کے ساتھ رکھنا ہاشم کے لیے مشکل ہو رہا تھا اور بار بار ایسا لگتا تھا کہ کشتی بہاؤ میں غلط سمت جا کر ہمارے منصوبے پر پانی پھیر دے گی۔ میرا پسینہ ہر لمحہ بڑھتا جا رہا تھا اور ہمارا ساتھی رہنما میرے سامنے پسینے میں شرابور لیٹا تھا۔ بہت طویل انتظار کے بعد ہم اتنا قریب پہنچے کہ ہمیں مگرمچھ کے مختلف اعضا دکھائی دینے لگے۔ اس کے سر کا زخم بہت بڑا تھا اور ابھی مندمل نہیں ہو پایا تھا۔ ساری کھوپڑی پر مٹی اور پیپ دکھائی دے رہی تھی۔ صرف ایک آنکھ درست کام کر رہی تھی۔ اس کا بھاری جسم آدھا پانی میں اور آدھا پانی سے باہر تھا۔ اتنی بڑی جسامت کا مگرمچھ کسی اور ہی دنیا کی مخلوق لگ رہا تھا۔

ہم پانی کے ساتھ بہتے رہے اور کشتی بالکل بھی نہیں جھولی۔ ایک منٹ کو ایسا لگا جیسے فطرت نے اپنی سانس روک لی ہو۔ ایسا نشانہ شاید ہی میں نے کبھی لیا ہو۔

دو بھاری گولیاں کھانے کے بعد ‘قاتل‘ نے حرکت بھی نہیں کی۔ شاید گولیوں سے وہ فوری طور پر ہلاک ہو گیا ہو۔