آنائی کے شیر انسان - باب 2
باب دوم
جنگل کی جنگلی حیات
جب مجھے پہلی بار جنگلی جانور کے شکار کا موقع ملا تو اس وقت کی کیفیت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ اس وقت میری عمر چودہ سال تھی۔ لڑکپن میں چھوٹی بندوق سے میں فاختائیں مارا کرتا تھا اور اپنے والد کے ساتھ ایک کمین گاہ میں چھپ کر بیٹھتا تھا کہ ایک دن انہوں نے مجھے اصلی دونالی بندوق تھمائی۔ پہلی بار میں درخت پر بیٹھ کر مجھے بگونڈ یعنی جنگلی سور کا شکار کرنا تھا۔ میرا دل آج تک اتنا تیز نہیں دھڑکا تھا جتنا اس وقت دھڑکا جب میں نے شکاری کتوں کی آواز سنی۔ جوش سے میرے دانت کٹکٹا رہے تھے۔ پھر بھی میں نے جمبگر (نوجوان جانور) ہلاک کیا۔ ہفتوں تک مجھے اپنی اہمیت کا احساس ہوتا رہا۔
اس وقت سے میں نے بے شمار جنگلی جانور شکار کیے ہیں اور ان کی اکثریت جنگلی سور سے زیادہ بڑی اور زیادہ خطرناک تھی۔ تاہم جنگل چاہے جتنا گھنا ہو اور جانور جتنا خطرناک، میں نے شکار کو کبھی بیزار کن نہیں پایا۔ ہر بار شکار سے مجھے کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملا کہ اس پر محنت اور مشقت لگتی تھی۔ اکثر تو یہ ساری مشقت رائیگاں جاتی۔ اس سے دل برداشتہ ہونے کی بجائے میرے جوش کو مہمیز ملتی۔ ہر شکار پر ملنے والا تجسس اور شکار کا تعاقب کرنے کی خوشی کبھی ختم نہیں ہوتی۔
اگرچہ یہ بات کچھ عجیب سی لگے، مگر میں نے ہمیشہ جنگلی جانوروں کو پسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے۔ سچا شکاری ہمیشہ مخصوص قوانین کی پابندی کرتا ہے جس سے جنگلی جانوروں اور شکار کے درمیان ایک طرح کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے۔ مزید براں گھنے جنگلات میں اکثر ایک شکاری کو پورے دن چل کر دوسرے مقام تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اس طرح ہر انسان مطمئن اور آرام سے رہتا ہے اور روز مرہ کاموں سے دل اچاٹ نہیں ہوتا۔ میں ایک پادری کو جانتا ہوں جو ہر کچھ عرصے بعد جنگلی سوروں کے شکار کو نکل کھڑا ہوتا ہےحالانکہ یہ سور اس کے کھیتوں کو کوئی نقصان نہیں دے رہے ہوتے۔
شکار کی بہت ساری اقسام ہوتی ہیں۔ ہر قسم کے لیے مخصوص عادات و اطوار کی ضرورت ہوتی ہے جسے ہر طرح سے تبدیل کیا جا سکے۔ ہر طریقے کا انحصار شکار کے مقام اور جانوروں کے خصائل پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر جاوا میں آبادیوں یا قصبوں کے آس پاس جہاں شیر ختم کر دیے گئے ہیں، جنگلی سورؤں کا رویہ ان سورؤں سے یکسر مختلف ہوتا ہے جو گھنے اور ناقابلِ عبور جنگلات میں رہتے ہیں اور وہاں انہیں درندوں کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ ایسے علاقے میں رہنے والے سور دن کے وقت پیٹ بھرتے ہیں اور دوپہر کے وقت گھنی جھاڑیوں یا بانس کے جھنڈ میں چھپ کر آرام کرتے ہیں۔ کسی بھی درندے کی آمد کا انہیں پتوں اور ٹہنیوں کی سرسراہٹ سے اندازہ ہو جاتا ہے۔ جہاں درندے نہ پائے جاتے ہوں، وہاں سور رات کے وقت نکلتے ہیں اور دن سارا کسی محفوظ جگہ گزارتے ہیں۔
یہی اصول ہرنوں پر بھی لاگو ہوتا ہے اگرچہ ہر ہرن مختلف صورتحال میں مختلف طریقے سے ردِ عمل ظاہر کرتا ہے۔ جن علاقوں میں درندے نہیں پائے جاتے، مثلاً بورنیو کے بلانگ (گھاس کے پہاڑی میدان)، یہاں دن کے وقت ہرنوں کے بڑے ریوڑ دکھائی دیتے ہیں۔ آباد علاقوں کے آس پاس یہ ہرن شبینہ ہو جاتے ہیں کیونکہ انسان ان کا شکار کرتے ہیں۔
اس طرح شکار محض بندوق اٹھانے اور باہر نکل جانے کا نام نہیں ہے۔ ہر نئی جگہ پر پہنچ کر پہلے تو اس جگہ سے واقفیت پیدا کرنی چاہیے اور مقامی حالات کے علاوہ جانوروں کا بھی مشاہدہ کرنا چاہیے۔ بصورتِ دیگر کئی کئی گھنٹے تک شکار کی کوشش بیکار رہے گی۔
سب سے زیادہ ہانکے، مچان، پیچھا کرنا، اور بیلورن (اندھیرے میں مصنوعی روشنی سے شکار کرنا) استعمال ہوتے ہیں۔ ہانکے کے لیے شکاری کسی اچھے مقام پر چھپ کر بیٹھ جاتا ہے اور کتوں اور ہانکے والوں کی مدد سے شکار کو شکاری کی سمت لایا جاتا ہے۔ عام طور پر جب جانور شکاری کی مچان کے پاس سے گزرتے ہیں تو وہ گولی چلاتا ہے۔ اس طرح کامیاب شکار کے لیے کافی توجہ دینی پڑتی ہے اور تجربہ اتنی آسانی سے نہیں آتا۔
انڈونیشیا کے بعض علاقوں میں ہانکے کے سخت اصول وضع کیے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر سیلیبس اور کئی چھوٹے جزائر میں ہرنوں اور جنگلی سوروں کے ہانکے میں مقامی شکاری گھوڑے کی ننگی پیٹھ پر سوار شامل ہوتے ہیں اور ان کے پاس پھندے، نیزے اور چاقو ہوتے ہیں۔ جنگل کے کنارے پر پانچ سو گز جتنا جھاڑ جھنکار صاف کر دیا جاتا ہے اور شکاری یہاں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کا کام جانور کو گولی مارنا نہیں ہوتا بلکہ جونہی جانور جنگل سے بھاگ کر نکلے تو اسے کچھ دیر بھاگنے کا موقع دینا ہے۔ یہ منظر بہت ہیجان انگیز ہوتا ہے کہ شور مچاتے گھڑ سوار اپنے گھوڑوں کی گردن پر جھکے ہوئے شکار کا پیچھا کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی جانور اس صاف خطے سے نکل کر دوسری جانب پہنچ جاتا تو اسے امان دے دی جاتی اور گھڑ سوار اپنے نیزے لہرا کر اور شور مچا کر اسے داد دیتے۔ تاہم اگر جانور بہت زیادہ خوفزدہ ہونے کی وجہ سے بھاگنے کی بجائے واپس لوٹ آتا ہے تو پھر شکاریوں کو اجازت ہوتی ہے کہ وہ جیسے چاہیں شکار کر لیں۔ میں نے ایسے کئی ہانکوں میں حصہ لیا ہے اور ان کی خوشگوار یادیں میرے ساتھ ہیں۔
رات کے وقت شکار کے لیے عموماً پورے چاند کی رات کو پانی کے تالابوں پر انتظار کیا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پر اس سے بہت خوبصورت تجربات ملتے ہیں تو کئی جگہ پوری رات ایک بھی گولی نہیں چلائی جاتی۔ بعض اوقات میں نے تالاب کے کنارے پوری رات بیٹھ کر ہر قسم کے جنگلی جانوروں کی آمد و رفت کو دیکھا ہے۔ آبی پرندے شور مچاتے پانی پر جمع ہوتے تھے۔ ایک بار کنارے پر موجود جھاڑ جھنکار سے ایک مادہ اودبلاؤ اپنے تین بچوں کے ساتھ تالاب پر آئی۔ ادھر ادھر توجہ سے دیکھنے کے بعد اس نے پانی میں چھلانگ لگائی اور چھوٹےچھوٹے دائروں میں گھومنے لگی تاکہ اس کے بچے بھی پانی میں اتریں۔ بچے جھجھکتے رہے اور کنارے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ اچھلتے اور شور مچاتے رہے۔ یہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
پھر مادہ اودبلاؤ ڈھلوان کنارے پر تھوڑا سا چڑھی اور بچوں کو اپنی پیٹھ پر سوار ہونے کا اشارہ کیا۔ بہت کوشش کے بعد بچے سوار ہوئے اور مادہ نے پھر پانی کا رخ کیا۔ کنارے سے بمشکل ایک گز دور جاتے ہی اس نے ڈبکی لگائی اور تینوں بچے خوفزدہ حالت میں فوراً شور مچاتے کنارے کی طرف تیرنے لگے۔ ان کے فوراً پیچھے ماں نے اپنا گول سر نکال کر تسلی کی کہ سارے بچے کنارے کے پاس ہی ہیں۔ جونہی کسی بچے کا سر پانی کے نیچے جاتا، مادہ فوراً اس کے نیچے جا کر اسے اوپر اٹھا لیتی۔ یہ کھیل دوبارہ شروع ہوا اور معصوم بچوں نے پھر ماں کی پشت پر سواری کی اور پھر یہی سارا عمل دہرایا گیا۔
اچانک کچھ عجیب سا ہوا۔ مادہ کو خطرہ محسوس ہوا اور اس نے فوراً ہلکی چیخ ماری اور ایک لمحے میں پورا خاندان نظروں سے اوجھل ہو گیا۔
مادہ نے قریب آتے ہوئے جنگلی سورؤں کی آمد بھانپ لی تھی جو انتہائی بے فکری سے شور مچاتے، لمبی گھاس میں سے گزر کر آ رہے تھے۔ عجیب بات ہے کہ سورنی ہمیشہ اپنے بچوں کو سب سے آگے بھیجتی ہے جبکہ دنیا میں باقی ہر جانور کی مادہ بچوں سے پہلے خود جا کر خطرے کا جائزہ لیتی ہے۔ سور کے بچے ہمیشہ پانی پر پہنچ کر پیاس بجھانے اور کیچڑ میں لوٹنیاں لگانے کی بجائے بہت دھینگا مشتی کرتے اور بہت شور مچاتے ہیں۔ ان کے شور سے گھبرا کر مرغابیوں کا ایک جھنڈ اڑ گیا۔ سور کے بچوں نے اس وقت تک سکون کا سانس نہیں لیا جب تک تالاب میں موجود ہر آبی پرندہ اڑ نہ گیا اور پانی پینے والے تمام دیگر جانور پریشان نہ ہو گئے۔
تاہم جب ان کی مائیں پہنچیں تو ان کا شور تھم گیا۔ انہوں نے آتے ہی بچوں کو ڈانٹا اور بچے گھبرا کر کنارے پر چڑھ گئے۔
مجھے اس سارے منظر سے اتنا لطف ملا کہ میں نے اپنی دو نالی بندوق اٹھانے کا ارادہ ترک کر دیا۔
پیچھا کرنے کے دوران آپ زمین پر رہتے ہوئے جانور کے پیچھے حرکت کرتے ہوئے اپنی بندوق تیار رکھتے ہیں۔ جونہی جانور بھاگتے یا مار میں آتے ہیں، انہیں گرا لیا جاتا ہے۔ جب رات کے وقت بیلور (شکاری لالٹین) کے ساتھ شکار کیا جاتا ہے تو اسے انڈونیشیا میں بیلورین کہتے ہیں۔ اوپر بیان کیے گئے دونوں طریقوں کی نسبت بیلورین کوئی زیادہ آسان نہیں۔ ان طریقوں میں نہ صرف طویل تجربہ درکار ہوتا ہے بلکہ اپنے حواس پر پوری طرح قابو بھی ہونا چاہیے۔ برسوں کا تجربہ بھی مدد کرتا ہے۔ اندھیرے میں لالٹین کی مدد سے بھی شکار کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ سائے ہر چیز کو دشوار تر بنا دیتے ہیں اور فاصلوں کا اندازہ درست نہیں رہتا اور تناسب بھی بگڑ جاتے ہیں۔ اس لیے جب تک طویل تجربہ اور مشق نہ ہو، ہر گولی اندازے سے ہی چلانی پڑتی ہے۔ میں نے بہت مرتبہ ایسے نشانہ بازوں کو رات کا نشانہ مسلسل خطا کرتے دیکھا ہے جو دن کے وقت بھاگتے ہوئے کسی بھی جانور کے کسی بھی حصے پر گولی چلانے کے قابل ہوتے ہیں۔
ان طریقوں کے علاوہ ان کو ملا کر نئے طریقے بھی بنائے جا سکتے ہیں، مگر اس کا انحصار مطلوبہ جانور اور اس کے اطوار پر ہوتا ہے۔
تاہم بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی۔ اصل شکار سے بہت کچھ سیکھا جاتا ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ گھنے اور ان چھوئے جنگلات میں بے شمار جانور رہتے ہیں۔ اگر نہ بھی بتایا جائے تو بھی آپ جانوروں کی گزرگاہوں، چھوٹے درختوں پر لگی خراشوں اور پیروں کے نشانات کے علاوہ رات کے وقت جنگل سے آنے والی آوازوں سے بھی جانوروں کے بارے اندازہ لگا سکتے ہیں۔ مگر گھنے اور وسیع جنگل میں کسی جانور کو دیکھنے کی خاطر باغیچوں اور دلدلوں کے علاوہ کچھ اور بھی درکار ہوتا ہے۔ اگر آپ بے پرواہی سے جائیں اور ہوا کے رخ کا خیال نہ رکھیں اور چلتے وقت آوازیں نکالتے رہیں تو ہر جانور آپ کی آمد سے آگاہ ہو کر دور بھاگ جائے گا۔ آپ کو ہاتھیوں کے قدموں کے نشانات سے رستا ہوا پانی، ان کے جسم کی بو اور دیگر علامات تو بہت دکھائی دیں گی مگر یہ تمام جانور آپ کے برعکس انتہائی خاموشی سے بھاگ جائیں گے۔
تاہم اگر آپ جنگلی جانوروں کی عادات اور ان کے رہنے کے مقامات اور ان کی آوازوں سے واقف ہوں تو آپ کو جنگلی جانوروں کو دیکھنے کے لیے گھنٹوں بیکار انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ میں نے مقامی باشندوں سے ہرنوں کے شکار کا طریقہ سیکھا ہے جس میں انہیں اپنی طرف بلایا جا سکتا ہے۔ بانس کا چھوٹا سا ٹکڑا درمیان سے کاٹ کر منہ میں رکھیں اور دونوں ہاتھوں سے اس کے گرد ہالہ بنا لیں۔ جب آپ اس بانس کے ٹکڑے کو مناسب طریقے سے بجائیں گے تو اس سے مادہ ہرن کی تکلیف بھری آواز نکلتی ہے جو کافی دور تک جاتی ہے۔ اس کے بعد آپ کو جھاڑیوں میں چھپ کر بیٹھنا ہے اور دیگر مادائیں آنا شروع ہو جائیں گی۔ کوشش کریں کہ آپ کے ساتھ کوئی اور بندہ بھی ہو جو آپ کی پشت سے پشت ملا کر بیٹھے کیونکہ اس آواز سے نہ صرف ہرن بلکہ شیر بھی متوجہ ہوتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا تھا کہ شیر اکثر یہی آواز نکال کر ہرنوں کو دھوکا دیتے ہیں۔ میں نے کئی بار شیروں کو دیگر انواع کے جانوروں کی آواز نکالتے سنا ہےجن میں دم توڑتے ہرن کی آواز سے لے کر بھینسے کی ‘مووو‘ کی آواز تک شامل ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار ایک کاشتکار اپنی ایک نالی بندوق لے کر اپنی زمینوں کے پاس ہی ہرن کے شکار کو گیا۔ اس نے یہ آواز نکالی اور اچانک اس کا سامنا شیر سے ہو گیا۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ جب شیر نے مادہ ہرن کی بجائے ایک کاشتکار کو چھوٹی اور بے ضرر بندوق کے ساتھ پایا تو کسے زیادہ دھچکا لگا ہوگا۔ خوش قسمتی سے دونوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔
میرے ہمراہی ہاشم نے، جو کہ بہترین کھوجی ہے، مجھے ایک بار مشورہ دیا تھا کہ اگر جنگل میں اچانک شیر سے سامنا ہو جائے تو کیا کرنا چاہیے۔ خوش قسمتی سے مجھے تو یہ نسخہ آزمانے کا کبھی موقع نہیں ملا مگر یہ نسخہ قابلِ عمل لگتا ہے، سو آپ کو بتا رہا ہوں۔ ہاشم کی ہدایت تھی کہ شیر کو دیکھتے ہی کبھی اس سے بھاگنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ اسی جگہ بے حس و حرکت رک کر درندے پر نظریں مرکوز رکھنی چاہیں۔ اگر شیر آدم خور نہیں تو یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ شیر آپ کو نقصان پہنچائے بغیر چل دے گا۔
یہ بھی ممکن ہے اور میرے علم میں بھی ہے کہ شیر کو انسان کی بو سب سے زیادہ بری لگتی ہے۔ ہاشم نے ایک اور وضاحت پیش کی تھی کہ چونکہ شیر نے ہمیشہ چار ٹانگوں والے جانور دیکھے ہیں، سو جب وہ انسان کو اپنی جانب آتے دیکھتا ہے تو سمجھتا ہے کہ انسان بہت بڑا چوپایہ ہے جس کی محض سامنے کی دو ٹانگیں دکھائی دے رہی ہیں۔ اس لیے شیر حملہ کرنے کی بجائے فرار کو ترجیح دے گا۔ اس نظریے میں جان ہے کیونکہ آدم خور کا پہلا اور عموماً زیادہ تر دوسرے شکار بھی عورتیں اور بچے ہوتے ہیں جو کھیت میں کام کرتے ہوئے یا لکڑیاں کاٹتے ہوئے جھکے ہوتے ہیں۔ جب انسان جھکا ہوا ہو تو ظاہر ہے کہ اس کی جسامت مختصر دکھائی دیتی ہے اور شیر ان پر جست لگانے سے نہیں کتراتا۔
لگے ہاتھوں اس غلط فہمی کا ازالہ بھی کر دوں کہ آدم خور شیر نہ تو بوڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی کمزور، جو اپنی کمزوری اور گھسے ہوئے دانتوں کی وجہ سے کمزور اور سست شکار کو تلاش کرتا ہے۔ اگر شیر نے انسانی شکار کر لیا ہے تو پھر اسے ہمیشہ کے لیے انسان کی کمزوری کا احساس ہو جاتا ہے کہ انسان کتنا ناتواں ہے۔ اگلی بار جب وہ انسان کو شکار کرنے لگتا ہے تو انسان پر اپنی برتری کا پورا احساس ہوتا ہے۔ آخرکار وہ تیز رفتار ہرنوں اور طاقتور جنگلی سور کا پیچھا چھوڑ کر صرف انسان کا شکار شروع کر دیتا ہے۔
خیر، ہاشم کی ہدایت کی طرف لوٹتے ہیں۔ اگر شیر دکھائی دے تو ساکن ہو کر اسے گھورنا شروع کر دیں۔ اگر شیر جست لگانے کو جھکے تو آپ بھی اسی طرح جھکیں۔ شیر سمجھے گا کہ آپ بھی اس پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے شیر فوراً فرار کی راہ اختیار کرے گا۔
آپ نے غور کیا ہوگا کہ شکار اتنا سادہ کام نہیں۔ اگر آپ شکار کی گہرائی میں جائیں اور زیادہ سے زیادہ ممکنہ صورتحال سے واقفیت پیدا کریں، مختلف جنگلی جانوروں کے مختلف حالات میں ردِ عمل کو دیکھیں تو آپ کے سامنے ایک نئی دنیا کھل جاتی ہے۔ یہ نئی دنیا ایک نشے کی مانند ہے۔ آپ اس سے جتنا پیئں گے، اتنا ہی آپ کا نشہ بڑھتا جائے گا جس سے آپ دور نہیں رہ سکیں گے۔ یہ آپ پر جادو کر دے گا اور آپ کے دورانِ خون میں شامل ہو کر آپ پر حاوی ہو جائے گا۔ بہت مرتبہ ایسا ہوگا کہ آپ سارے دن دلدلی جنگلات میں تیز بارش کے دوران پھرنے کے بعد بھوک اور تھکن سے نڈھال ہو کر اپنے کیمپ واپس آئیں گے تو آپ کا انگ انگ درد کر رہا ہوگا۔ آپ خود کو کوستے ہوئے کہیں گے کہ بس، اب اور شکار نہیں کرنا۔ مگر چند دن بعد جب آپ کی طبعیت بحال ہو چکی ہوگی اور آپ برآمدے میں آرام کرسی پر بیٹھے ہوں گے کہ جنگلی ہاتھیوں کے چنگھاڑنے کی آواز سنائی دے گی اور آپ اپنی تمام تر مشکلات کو یکسر بھلا کر پھر سے شکار کے لیے تیار ہونے لگ جائیں گے۔
جب آپ پہلی بار جنگل میں جائیں گے تو سب سے حیران کن چیز جنگل کا یکساں اور ایک ہی شکل کا سبزہ ہوگا۔ ہر درخت دوسرے سے عین مشابہہ ہوگا۔ ہر درخت کے اردگرد اسی جیسے لاکھوں درخت موجود ہوں گے۔ زیادہ تر درخت بہت بڑے اور تناور ہوں گے اور ان کے پتے چھتری کی شکل میں بہت اونچے ہوں گے۔ سورج کی روشنی کہیں کہیں سے پتوں میں راستہ بناتی نیچے تک پہنچتی ہے۔ جنگل کا فرش نرم اور لچکدار ہوتا ہے اور اس سے نمی اور وہ بو اٹھتی ہے جس سے احساس ہوتا ہے کہ یہاں نباتات گل سڑ رہی ہیں۔ جہاں سورج کی روشنی پڑ رہی ہو، وہاں خشک ٹہنیاں اور سوکھے پتے آپ کے قدموں تلے چرمرائیں گے۔
اونچے اونچے درختوں سے گھنی بیلیں لپٹی ہوتی ہیں۔ درختوں کے نیچے اگا ہوا جھاڑ جھنکار آپ کی پیش قدمی کو مشکل تر بنا دیتا ہے اور راستے میں جگہ جگہ گرے درخت آپ کو روکتے ہیں۔ ہر چیز سبز ہوتی ہے، سبزے کے ہزاروں رنگ دکھائی دیتے ہیں اور کوئی اور رنگ نہیں ملتا۔
یہ پہلا تاثر ہوتا ہے۔ پھر آپ جوں جوں جنگل سے واقف ہوتے جاتے ہیں، دیگر رنگ بھی دکھائی دینا شروع ہو جاتے ہیں۔ جیسے ایک درخت جو گر کر کائی تلے چھپا ہوا ہے، اونچی بیل پر جھولتے پھول ہوں یا پھر کسی پرندے کا گھونسلہ۔
جب پہلی بار اتنے زیادہ سبزے سے پیدا شدہ الجھن ختم ہوتی ہے اور آپ ماحول سے مطابقت پیدا کر لیتے ہیں تو ان جنگلوں میں گھسنا مسرت کا سبب بنتا ہے اور جنگلی حیات کے مطالعے کا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ شروع شروع میں آپ کی آنکھیں اور کان اس خزانے سے واقف ہونے میں وقت لگاتے ہیں۔
اس جنگل میں کسی کو پیاس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جلد ہی آپ اپنے انگوٹھے جتنی موٹی گہری سبز بیل کو پہچاننا سیکھ لیں گے۔ اس بیل کو جب پرانگ کے وار سے ترچھا کاٹا جائے تو اس سے صاف شفاف اور سرد پانی نکلتا ہے۔
اس جنگل میں آپ کو کبھی کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور نہیں ہونا پڑتا۔ شاخوں سے بنے ڈھانچے پر آپ عظیم الجثہ ڈا ان سنگ نامی درخت کے چوڑے پتے ڈال کر آپ نہ صرف بارش بلکہ دھوپ سے بھی بچ سکتے ہیں۔ ان پتوں کے درمیان موٹی رگیں ہوتی ہیں۔ تجربہ کار بندے کے لیے اس جنگل میں کھانے کے قابل پتے اور گوشت بہ آسانی مل جاتا ہے اور ہنگامی صورتحال کے لیے درختوں کے سفید کیڑے اور ان کے بچے ہر وقت دستیاب رہتے ہیں۔
تاہم جنگل میں ہر چیز مفید اور اچھی نہیں ہوتی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بار ہاشم نے مجھے ایک درخت سے زبردستی کھینچ کر دور کیا۔ اس گھنے درخت کے پتے انسانی انگلی جتنے موٹے تھے اور اس کے تنے پر سفید دھبے پڑے تھے، جیسے چتکبرا گھوڑا ہو۔ پہلی نظر میں یہ درخت بے ضرر دکھائی دے رہا تھا۔ ہاشم نے انتہائی نفرت بھرے انداز میں اس درخت کا نام لیرونگ بتایا۔ اس کے مطابق اس درخت کا رس انسانی جلد پر بہت برے اثرات مرتب کرتا ہے۔ اس کا ایک قطرہ انسانی کھال کو جلاتا ہوا گوشت تک پہنچ جاتا ہے اور درد کی شدت سے انسان حواس کھو بیٹھتا ہے۔
کئی درختوں کے پتوں پر چھوٹے چھوٹے نوکیلے بال ہوتے ہیں اور چھونے پر خارش شروع ہو جاتی ہے۔ اگر اس درخت کا ایک خشک پتہ ہوا سے اڑ کر کسی ساکن تالاب میں جا گرے تو اس میں موجود تمام جاندار مر جاتے ہیں۔ جنگلی جانور کسی بھی ایسے درخت کے قریب بنے نئی تالاب پر اس وقت تک پانی نہیں پیتے جب تک وہ پوری تہہ کو دیکھ کر تسلی نہ کر لیں کہ اس درخت کا کوئی پتہ موجود نہیں۔
پرانے جنگلات حیران کن چیزوں سے بھرے ہوتے ہیں جو ہمیشہ مثبت نہیں ہوتیں۔ جنگل کی بدترین چیزوں میں سے ایک جونکیں ہوتی ہیں جو خطرناک نہیں ہوتیں۔ بعض مرطوب جگہوں پر تو یہ اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ جیسے ان کی بارش ہو رہی ہو۔ جونکیں عموماً گھنی جھاڑیوں سے لٹک رہی ہوتی ہیں اور اپنے حسی اعضا سے نیچے گزرنے والے گرم خون والے جانوروں کا انتظار کرتی رہتی ہیں۔ عموماً ان کی کمین گاہ جانوروں کی گزرگاہوں پر ہوتی ہے۔ جب کوئی جانور گزرتا ہے تو یہ اس پر گرتی ہیں اور اپنے دانتوں سے کسی جگہ چپکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ ان کے منہ میں دانت نما تین چیزیں ہوتی ہیں جو اُسترے کی مانند تیز ہوتی ہیں جن کی مدد سے یہ کھال کا کچھ حصہ اتار لیتی ہیں۔ ساتھ ہی ان کے منہ سے ایسا لعاب نکلتا ہے جو خون کو جمنے سے روکتا ہے۔ پھر یہ اتنی دیر خون چوستی رہتی ہیں جب تک انسان کی انگلی کے برابر لمبی اور موٹی نہ ہو جائیں۔ پھر یہ گر جاتی ہیں تاکہ آرام سے اپنی خوراک کو ہضم کر سکیں۔ ان کا دیے ہوئے زخم سے خون کچھ دیر تک بہتا رہتا ہے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ جونکیں کتنی دور اور خفیہ جگہوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ جب یہ بازو یا گردن پر ہوں تو احتیاط سے تمباکو کا پانی لگا کر انہیں آسانی سے اتارا جا سکتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ انہیں نوچ کر الگ نہ کیا جائے ورنہ بڑا زخم بن جائے گا جو بگڑ بھی سکتا ہے۔ مندرجہ بالا طریقے سے انہیں ہٹانا بہتر ہے اور پھر سگریٹ والے کاغذ سے زخم کو ڈھک دینا کافی رہتا ہے۔
ریتلے گھونگھے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جب ہمیں کسی جھیل کا سفید کنارہ دکھائی دیتا ہے جو صاف ستھرا ہو یا پھر دریا کا ریتلا کنارہ، جہاں مگرمچھ کا خطرہ نہ ہو تو انسان فوراً نہانے کا سوچتا ہے۔ نہانے کے بعد وہیں گرم اور نرم ریت پر لیٹ کر بدن خشک کرتا ہے۔ اس کی قیمت شام کو ادا کرنا پڑتی ہے جب ناقابلِ برداشت کھجلی شروع ہو جاتی ہے جو ناقابلِ رسائی مقامات پر ہوتی ہے، مثلاً ناخنوں کے نیچے۔ چوبیس گھنٹے بعد ناخنوں کے نیچے موجود سرخ دھبوں سے اس تکلیف کی وجہ کا علم ہوتا ہے جو ریتلے گھونگھے کے انڈے ہوتے ہیں اور انہیں انڈے دینے کو یہی جگہ پسند اتی ہے۔ جونہی انڈے سے بچے نکلیں گے، انہیں تازہ انسانی خون اور گوشت اور گرمی ملے گی۔
اس کے بعد بدترین تکلیف شروع ہوتی ہے۔ آپ اپنے سب سے وفادار ملازم کو بلاتے ہیں جو آپ کی لعن طعن اور گالیوں کو برداشت کر سکے۔ پھر آپ اسے کام شروع کرنے کا اشارہ کرتے ہیں۔ اس دوران آپ کا ملازم پہلے ہی بانس کی انتہائی باریک مگر مضبوط پھانس اتار کر اسے آگ دکھا چکا ہوتا ہے۔ انتہائی معذرت خواہانہ انداز میں آپ کو دیکھتے ہوئے ملازم کام شروع کرتا ہے۔ آپ کی ٹانگ کو انتہائی مضبوطی سے پکڑ کر ناخنوں کے نیچے موجود سرخ نشان میں پیوست کر دیتا ہے۔ یہ کام کافی احتیاط طلب ہے کہ انڈوں تک پہنچنے سے پہلے انگارہ نہیں بجھنا چاہیے، ورنہ بیکار ہو جائے گا۔ اس طرح ایک ایک کر کے تمام انڈے جلا دیے جاتے ہیں۔ چند گھنٹوں تک یہ انتہائی تکلیف دہ کام جاری رہتا ہے اور آپ ہمیشہ کے لیے محتاط ہو جاتے ہیں۔
فطرت میں کوئی چیز رحم دل نہیں ہوتی۔ ہر زندہ چیز کو زندہ رہنے کے لیے مسلسل جہد کرنی پڑتی ہے اور اپنی ہر حس اور ہر عصب سے پورا کام لینا ہوتا ہے۔ ان کی زندگی مسلسل خطرے اور موت کا سامنا کرتی رہتی ہے۔
فطرت میں خوبصورت پرندوں میں ارگوس مرغِ زریں سے زیادہ کوئی خوبصورت نہیں۔ اس کے پر اور رنگ مور سے بھی زیادہ خوبصورت ہوتے ہیں۔ مشرقی اور مغربی مون سون کے درمیان ڈیڑھ ماہ کے وقفے میں آپ کو جنگل میں اگر کہیں بالکل صاف ستھرا اور جھاڑ جھنکار سے پاک قطعہ دکھائی دے تو ارگوس مرغِ زریں کا گھونسلہ ہوگا۔ یہ جگہ تقریباً دو مربع میٹر اور گول شکل میں ہوتی ہے اور یہاں سے پتے، گھاس، ٹہنیاں وغیرہ، ہر چیز صاف کر دی جاتی ہے۔ یہ سب محنت نر کی ہوتی ہے جو اپنے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سے اس جگہ کو صاف کرتا ہے۔ گھاس وغیرہ کو صاف کرنے کے لیے یہ اپنی گردن کو اس کے تنے پر گھما کر چونچ کی مدد سے زور لگا کر اکھاڑتا ہے۔ اسے یہ سب جگہ صاف کرنے پر پورا دن لگ جاتا ہے۔ پھر نچلی شاخوں پر کھڑے ہو کر نر شور مچاتا ہے۔
اب اس کا سارا وقت مادہ کی تلاش میں گزرتا ہے۔ جب اسے ایک یا دو یا تین مادائیں مل جائیں تو وہ انہیں اپنے گھونسلے تک لے کر آتا ہے۔ مادائیں اس نر کے ساتھ لاپرواہی سے چلتی آتی ہیں کہ جیسے انہیں کوئی پرواہ نہیں اور راستے میں کہیں چر چگ لیا تو کہیں کچھ اور کھا لیا۔
مطلوبہ مقام پر پہنچ کر مادائیں اپنی مرضی کی جگہیں تلاش کر کے بیٹھ جاتی ہیں اور نر ایک بار پھر اس جگہ کا معائنہ کرتا ہے۔ اگر ہوا کے ساتھ کوئی پتہ اڑ کر آیا ہے یا پھر گھاس کی کونپل اگنے لگی ہے تو اسے صاف کر دیتا ہے۔ پھر وہ ملاپ کے لیے اپنا انوکھا رقص شروع کرتا ہے۔ نر اپنے پر پھیلا کر کبھی انہیں گھماتا ہے تو کبھی اپنے سر کو پروں کے درمیان چھپاتا ہے اور گھومتے ہوئے دھوپ میں اپنے رنگوں کی نمائش کرتا ہے۔
تاہم اس شاندار نمائش میں نر کے لیے بڑا خطرہ چھپا ہوتا ہے۔ جنگل کے رہنے والے اس کے بارے جانتے ہیں اور اس کا آسانی سے شکار کر لیتے ہیں۔ جب انہیں جنگل میں کہیں ایسی صاف جگہ دکھائی دے تو وہ اس جگہ بانس کی انتہائی باریک پٹی گاڑ دیتے ہیں جس کے کنارے چاقو کی طرح تیز ہوتے ہیں۔ جب نر واپس آتا ہے تو بانس کو گھاس سمجھ کر چونچ سے اکھاڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ یہ انتہائی سختی سے گڑی ہوتی ہے، اس لیے نر کی چونچ پھسلتی ہے اور یہ پٹی اس کی گردن پر پھر جاتی ہے اور نر وہیں ہلاک ہو جاتا ہے۔
فطرت میں نمائش سے موت بھی آ سکتی ہے۔ مگر یہ مت سوچیے کہ ایسا ظلم محض انسان کرتے ہیں۔ انسان میں دوسرے جانوروں کے برعکس اپنے دفاع کے لیے پنجے یا دانت نہیں ہوتے۔ اس لیے انسان کو اپنے دفاع کے لیے ہمیشہ تیار رہنا پڑتا ہے۔ جس طرح جانور ایک دوسرے کو ہلاک کرتے ہیں، وہ عموماً انسان سے کہیں زیادہ درندگی والے ہوتے ہیں۔
ایک بار میں ہاشم کے ساتھ سنائپ کے شکار پر گیا جو دریائے سردانگ کے نچلے سرے پر واقع اس دلدلی علاقے میں بکثرت پائے جاتے تھے۔ ایک بار ہم لوگ گیارہ بجے واپس اس جگہ لوٹے۔ سورج بلند ہو چکا تھا اور گرمی شدید ہو رہی تھی۔ پانی پر سورج کا عکس گرمی کی شدت میں مزید اضافہ کر رہا تھا۔ جنگل کے کنارے تیز زرد رنگ کے کانو کانو کی چوڑے پتوں والی جھاڑیاں تھیں۔ ان جھاڑیوں میں کہیں کہیں مردہ درخت ایسے نکلے ہوئے تھے جیسے ڈھانچے ہوں۔ جگہ جگہ ایلیفنٹ گراس بھی تھی۔
اچانک میں نے دیکھا کہ ہاشم جو میرے سامنے بیٹھا تھا، اچانک کھڑا ہوا اور اس چیز کو گھورنے لگا جو ہمارے سامنے دریا میں بہتی آ رہی تھی۔ اس کی شکل و صورت مگرمچھ جیسی تھی جو مٹیالے زرد رنگ کی تھی اور اس پر کہیں کہیں سخت ابھار بھی تھے۔
ہاشم نے مڑ کر میری جانب دیکھا اور سمجھ گیا کہ میں اس چیز میں دلچسپی لے رہا ہوں۔ اس نے کشتی کا رخ اس چیز کی جانب موڑ دیا۔
یہ چیز مگرمچھ ہی تھی، مردہ ‘بواجا‘۔ دس فٹ لمبا اور کنارے پر الٹا ہوا پڑا تھا۔ اس سے اٹھنے والی بو اگرچہ متعفن تو نہیں تھی مگر آسانی سے متلی پیدا کر سکتی تھی۔
‘تھوان، میں آپ کو کچھ دکھاتا ہوں۔‘ ہاشم نے کہا۔ پھر اس نے ملاح کو اشارہ کیا کہ کشتی کنارے پر لے جائے۔ کنارے پر پہنچ کر ہم اترے۔ ہم نے بواجا کو پانی سے باہر نکالا۔ مجھے اس کی آنکھوں کی جگہ خالی حلقے دکھائی دیے جن میں دریا کا زرد پانی حرکت کر رہا تھا۔
مگرمچھ کو پشت کے بل لٹا کر ہاشم نے اپنی پرانگ نکالی اور مجھے محتاط رہنے کا کہا۔ جونہی پرانگ مگرمچھ کے جسم میں داخل ہوئی، اس سے انتہائی بدبودار مواد کا فوارہ نکلا اور اسی جگہ سے سبزی مائل زرد رنگ کے کیکڑوں کی بہت بڑی تعداد نکل کر کناروں میں سوراخ کر کے چھپنے لگی۔
میرا جی متلانے لگا اور میں نے منہ موڑ لیا۔ پتہ نہیں ہم کشتی تک کیسے واپس آئے۔ دریا میں کشتی ڈولنے لگی اور گھر واپس پہنچ کر برانڈی کی دو خوراکیں لینے کے بعد جا کر مجھے آرام آیا۔ اس کے بعد ہاشم بات کرنے آیا۔ ایسے وقت مجھے احساس ہوتا ہے کہ یہ زندگی اور ہاشم میرے لیے کتنے اہم ہیں۔ میں تھکا ماندہ برآمدے میں آرم کرسی پر نیم دراز رہا اور بیڑی میرے منہ میں تھی اور گلاس ساتھ رکھا تھا۔ ہمارے اردگرد چاروں طرف فطرت پھیلی ہوئی تھی۔ ہاشم ستون کے ساتھ ٹیک لگا کر آرام سے بیٹھ گیا۔ اس کا بوڑھا اور بدصورت چہرہ بذاتِ خود ذہانت کا شاہکار لگ رہا تھا۔ آرام کی یہ گھڑیاں بہت قیمتی ہوتی ہیں۔ اس نے مجھے مگرمچھ کے دردناک انجام کے بارے بتایا جس سے مجھے فطرت کے ایک اور بے رحم چہرے کا علم ہوا جہاں ہر وقت بقا کی جدوجہد جاری رہتی ہے۔
ہاشم نے بتایا کہ بواجہ کے دشمن بہت کم ہوتے ہیں۔ اس کی بے پناہ طاقت اور پانی میں ڈبونے کی صلاحیت کی وجہ سے شاید ہی کوئی جانور اس پر حملہ کرتا ہو۔
بعض اوقات جب بواجہ ہاتھی کے بچے کو پکڑ لے تو ہاتھی اس پر حملہ کرتے ہیں۔ ہاتھی ان کی کمر کے گرد سونڈ لپیٹ کر شور مچاتے ہوئے اسے پانی سے نکال کر زمین پر پھینک دیتے ہیں۔ دیگر جانور اس وقت مگرمچھ سے لڑتے ہیں جب ان پر حملہ کیا جائے (چاہے وہ پانی کے اندر ہو یا پانی کے کنارے)۔ جان بچانے کے لیے کوئی بھی جانور مگرمچھ سے لڑ سکتا ہے۔ بعض جانور بہتر لڑ سکتے ہیں تو بعض کو قدرتی طور پر فائدہ ملا ہوتا ہے۔ ہرن، جنگلی سور اور دیگر کھردار جانور نہیں بچ سکتے۔ جب بھی ان جانوروں کو گھسیٹ کر پانی میں لے جایا جاتا ہے تو یہ جی جان سے لڑتے ہیں۔ مگر بواجہ کی طاقت کے سامنے ان کی ایک نہیں چلتی۔
شیر اور تیندوے اپنے آپ کو بچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مگرمچھ اپنے شکار کو دبوچتے ہی پانی کے نیچے لے جاتا ہے مگر پھر اوپر آتا ہے۔ اکثر اس کی پانی کی سطح پر آمد فوراً ہی ہوتی ہے مگر چونکہ موت کے ڈر سے شکار ہونے والا جانور اپنے سانس کا خیال نہیں رکھ پاتا، اس لیے وہ قبل از وقت مر جاتا ہے۔ بچاؤ کا اصل وقت وہی ہوتا ہے جب مگرمچھ پہلی بار اسے اوپر لاتا ہے۔ اس وقت اگر شیر یا تیندوا اپنے پنجوں کو مگرمچھ کی آنکھوں پر آزمائیں تو تکلیف کی شدت سے مگرمچھ انہیں چھوڑ دیتا ہے اور وہ اپنی جان بچا کر بھاگ جاتے ہیں۔
اگرچہ بندر کی طاقت شیر یا تیندوے سے کہیں کم ہوتی ہے، مگر ان کے پاس بچنے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ شرط یہ ہے کہ جب مگرمچھ انہیں دبوچے، وہ زندہ رہ جائیں۔ قدرتی طور پر جونہی مگرمچھ انہیں پکڑتا ہے، وہ ٹٹول کر اس کی آنکھوں کو نوچتے ہیں۔ جنگل کے باسی بھی یہی تربیت دیتے ہیں کہ ‘جونہی مگرمچھ آپ کو دبوچ کر پانی کے اندر لے جانے لگے، گہرا سانس لے کر آہستہ آہستہ سانس نکالا جائے اور گھبراہٹ نہ طاری ہو۔ پھر اپنے آزاد ہاتھ سے بواجہ کی آنکھوں کو دبایا جائے۔ جونہی آپ کو مگرمچھ کا منہ کھلتا محسوس ہو، فوراً اپنا سانس روکے ہوئے نیچے کی طرف ترچھے تیرتے ہوئے مگرمچھ سے دور ہوتے جائیں کیونکہ درد کی شدت سے مگرمچھ پانی کی سطح پر پہنچ کر اپنی دم بہت زور سے پٹخے گا‘۔
اگرچہ میں نے ذاتی طور پر اسے نہیں آزمایا مگر اس طریقے میں اتنی مشکل صورتحال میں اپنے اعصاب کو قابو رکھنا بہت مشکل کام ہے۔ مجھے یقین ہے کہ چند افراد ہی اس قابل ہوں گے کہ اس طریقے کو کامیابی سے آزما سکیں۔ بندر بھی یہی کام لاشعوری طور پر کرتے ہیں۔
جب مگرمچھ کی آنکھیں اس طرح نوچ لی جائیں تو اس کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔ آنکھوں سے بہنے والا خون نیچے بہتا ہوا چھوٹے کیکڑوں تک پہنچتا ہے جو شکار کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ مگرمچھ اگر ان زخموں کے مندمل ہونے تک کنارے پر رہ سکے تو اس کی جان بچ جاتی ہے۔ مگرمچھ کافی عرصہ بھوکا رہ سکتا ہے۔ اس کی زبان نہیں ہوتی، اس لیے اسے ذائقے کا علم نہیں ہوتا۔ میں نے انسانی مٹھی کے برابر حجم کے پتھر مردہ مگرمچھوں سے نکالے ہیں۔ بھوکا مگرمچھ بھوک کی حالت میں جب کچھ نہ ملے تو پتھر بھی نگل لیتا ہے تاکہ پیٹ خالی نہ رہے۔ بہرحال ہاشم کا یہی خیال تھا اور مجھے اس سے بہتر اور کوئی نظریہ نہیں مل سکا۔
اگرچہ مگرمچھ خوراک کے بغیر طویل عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں، مگر بچاؤ یا خوراک کی تلاش میں اسے پانی میں جانا ہی پڑتا ہے جہاں کیکڑے اپنی بے حد طاقتور قوتِ شامہ سے اسے تلاش کر لیتے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کیکڑے ان زخموں میں گھسنا شروع کر دیتے ہیں۔ سطحی زخم سے کیکڑے اپنا پیٹ بھرتے ہوئے اس کے جسم میں گھس جاتے ہیں اور آخرکار بواجہ مر جاتا ہے۔ بواجہ کی تکلیف کا اندازہ آپ لگا سکتے ہیں جو پانی میں رہتا ہے اور کیکڑے اس کے جسم کو کھاتے رہتے ہیں اور جب اعضائے رئیسہ ختم ہوتے ہیں تو مگرمچھ کی تکلیف ختم ہوتی ہے۔
بے شک جنگل میں آپ کو بہت زیادہ خوشیاں بھی ملتی ہیں مگر یاد رہے کہ بہت زیادہ ظلم اور تکلیف بھی ، اور آپ زندگی کے بارے سوچتے رہ جاتے ہیں۔