آنائی کے شیر انسان - باب 10

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

باب دہم

آنائی کے شیر آدمی

میں آپ کو جنگلات میں ہونے والے چند عجیب واقعات کے بارے بتا چکا ہوں کہ جن سے میری زندگی کے عجیب تجربات وابستہ ہیں۔ انسان کسی چیز کے بارے سن کر اسے سنجیدگی سے سمجھتا ہے یا پھر اس پر استہزائیہ انداز میں مسکرا دیتا ہے، یہ دونوں رویے اس کی زندگی پر اثر ڈالتے ہیں۔ جنگلی زندگی گزارنے والے لوگوں کو استہزاء پسند نہیں اور ایسا رویہ اختیار کیا جائے تو وہ بیزار ہو جاتے ہیں۔ تاہم اگر ان لوگوں کی باتوں کو بظاہر توجہ سے سنا جائے تو جنگل اور فطرت کے بارے بہت سی نئی اور خوبصورت چیزیں پتہ چلتی ہیں۔

قدرتی طور پر مجھ میں جنگل کے باشندوں کی باتیں سننے اور ان کو ہنسے بغیر برداشت کرنے کی عادت ہے اور ان کے طور طریقے اور ان کے ماحول کی پراسراریت کا مذاق نہیں اڑاتا۔ سو، جب چند برس جاوا میں گزارنے کے بعد مجھے سماٹرا جانے کا حکم ملا تو میں بہت خوش ہوا۔ سماٹرا میں فطرت پورے جوبن پر ہوتی ہے اور ایسے علاقے بھی بکثرت ہیں جہاں انسان کا پیر نہیں پہنچا۔ ہاشم نے جب روانگی کا سنا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔

ہاشم کی برسہا برس کی خدمات سے خوش ہو کر میں نے اسے ڈبل بیرل ساوؤر رائفل خرید کر دی تھی۔ رائفل پا کر ہاشم ایسے خوش تھا جیسے کسی بچے کو اس کا پسندیدہ کھلونا مل جائے۔ برسوں پہلے جب ہاشم مقامی شکاری کے فرائض سرانجام دیتا تھا تو اس کے پاس استعمال شدہ پرانی فوجی رائفل تھی۔ اس بوسیدہ رائفل کے مقابلے میں ساوؤر رائفل انتہائی خوبصورت تھی اور عمدہ کام کرتی تھی۔ پرانی رائفل کا چلانا اپنی جگہ خطرناک تھا۔ جب بھی وہ رائفل چلتی تو دو ہی ممکنہ صورتحال ہوتیں، یا تو شکار کو گولی لگتی یا پھر شکاری کو جان کا خطرہ ہوتا۔

جب ہماری روانگی کا وقت آیا تو ہم دونوں جاوا سے روانہ ہونے اور سماٹرا پہنچنے کا سوچ کر انتہائی خوش تھے۔

سماٹرا پہنچ کر ہم پلمبنگ ضلع میں دریائے للانگ سے بیس میل کے فاصلے پر ایک دلدلی علاقے میں پہنچ گئے۔ اس سے زیادہ بری جگہ میں نے آج تک نہیں دیکھی کہ اس جگہ ملیریا اور کالے بخار کی وبا پھیلی ہوئی تھی۔

میرے ملازمین کے نزدیک حفظانِ صحت کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ انہیں بار بار ہدایت کرتا رہا کہ ان بیماریوں سے کیسے بچا جا سکتا ہے مگر انہوں نے کان نہ دھرے۔ بار بار میں نے فورمینوں کو حکم دیے کہ وہ میرے احکام کی پابندی کرائیں مگر ناکام رہا۔ ہر شام دلدلی علاقے سے مچھروں کے بادل اٹھ کر حملہ آور ہوتے مگر میرے مزدوروں کی عقل میں یہ بات نہ آتی۔ ہر روز سورج غروب ہوتے ہی میرے حکم کے مطابق بیرکوں کے ساتھ الاؤ جلائے جاتے اور مجھے ہر روز فورمینوں کی ڈیوٹی لگانی پڑتی کہ وہ نگرانی کرتے رہیں، ورنہ جس قلی کے ذمے آگ کی دیکھ بھال ہوتی، وہ چند منٹ بعد سو جاتا اور آگ بجھنے میں زیادہ دیر نہ لگتی۔ ہر چند روز بعد میں فورمینوں کے ساتھ جا کر بیرکوں کے آس پاس کی جھاڑیاں کٹواتا اور پانی کی نکاسی کا نظام دیکھتا کہ درست کام کر رہا ہے یا نہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قلی پینے کے پانی کے سلسلے میں کتنے لاپرواہ ہیں۔ پانی کے برتنوں پر مچھروں کے ہزاروں لاروے تیر رہے ہوتے تھے اور قُلی ہاتھ سے انہیں ہٹا کر پانی پینا شروع کر دیتے۔

اس طرح ہماری مسلسل کوشش کے باوجود قُلی باقاعدگی سے بیمار ہوتے رہے۔ اس علاقے میں نہ تو کوئی سرکاری ڈاکٹر تھا اور نہ ہی فوجی ڈاکٹر، اس لیے مجھے ہی ڈاکٹر کے فرائض سرانجام دینے پڑ رہے تھے۔

ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ میرا تمام تر فارغ وقت انہی کاموں میں گزرتا اور شکار کا وقت نہ مل پاتا۔ مجھے اس کا زیادہ افسوس یوں بھی ہوتا کہ ہمارے آس پاس کے جنگلات ہر قسم کے شکار سے بھرے ہوئے تھے۔ دلدلی علاقے میں ہر قسم کے آبی پرندے بھی مل جاتے تھے۔ پانی والی جگہوں پر مگرمچھ بھی تھے۔ جہاں ہم کام کر رہے تھے، مقامی لوگوں کے بقول یہاں سے تین میل دور پہاڑی ڈھلوانوں پر گینڈے کے پگ عام ملتے تھے۔ جنگلی جانوروں کی گزرگاہوں کے پاس والے درختوں پر شیر کے پنجوں کے نشان، ان کے پگ وغیرہ تو روز ہی دکھائی دیتے تھے۔ اس کے علاوہ ہرنوں اور سور بھی عام پائے جاتے تھے۔

ہاشم اس بات سے بہت چڑتا تھا کہ میرا کتنا وقت قلیوں کی دیکھ بھال پر ضائع ہو رہا ہے۔ تجربہ کار فارسٹ رینجر ہونے کی وجہ سے وہ ملیریا سے بچاؤ کی تمام تدبیروں پر سختی سے کاربند رہتا تھا اور ویسے بھی ملیریا کے خلاف اس کے جسم میں قدرتی مدافعت بھی تھی۔ تقریباً روز ہی وہ اپنی رائفل لے کر جانوروں کا پیچھا کرتا۔ بسا اوقات وہ قلیوں کو خوش کرنے کے لیے ہرن مار کر لاتا تو بعض اوقات میری خاطر کبوتر مار لاتا۔ اکثر وہ واپس آتا تو بتاتا کہ اس نے دلدلی زمین پر گینڈے کے پگ دیکھے تھے۔

اس جگہ مجھے آئے چار ماہ ہو چکے تھے کہ ایک روز سرکاری انجینیئر دورے پر آیا جو بہت دوستانہ قسم کا بندہ نکلا۔ سارے دن کے کام کے بعد شام کو اس کے ساتھ خوب نشست جمتی۔ جونہی ہمارا کام ختم ہوتا تو اس کے بعد سرکاری معاملات پر بات بالکل نہ کرتا۔ شام کے وقت اچھی گپ شپ رہتی۔

اس کا قیام ایک ہفتے کا تھا اور ہر روز وہ میرے ساتھ کام پر جاتا اور وقتاً فوقتاً کام کے حوالے سے اچھے اور دوستانہ مشورے دیتا۔ افسرِ بالا ہوتے ہوئے بھی بہت دوستانہ اور خوش اخلاق تھا۔ اس طرح کے سرکاری افسران کے دورے ہمیشہ مسرت کا سبب بنتے ہیں۔

اس انجینیئر کو شکار کا تو کوئی شوق نہیں تھا لیکن اسے لوگوں کے رسوم و رواج وغیرہ کے بارے جاننے کا بڑا شوق تھا۔ سرکاری کام سے فارغ ہو کر اس کا سارا وقت ہی مقامی لوگوں سے ملنے اور ان سے معلومات جمع کرنے اور ان کے رسوم و رواج کے بارے جاننے میں گزرتا تھا۔ گفتگو کے فن پر اسے عبور حاصل تھا۔

ایک شام گفتگو کے دوران شیر آدمیوں اور فالور ٹائیگرز کا ذکر چھڑ گیا۔ میں نے اس بارے اپنے تجربات کا ذکر بہت ہچکچاہٹ سے کیا۔ لیکن جو باتیں سنی تھیں، من و عن اسے بتا دیں۔ اس نے ان باتوں کو پوری توجہ سے سنا۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ میرے کہی ہوئی باتیں اس نے پہلے بھی سنی ہوئی ہیں اور اب اسے یقین آ رہا ہے۔ پھر اس نے مجھے ایک کہانی سنائی جو اسے قابل بھروسہ ذریعے سے ملی تھی۔ اس روز میں نے آنائی کے شیرآدمیوں کے بارے پہلی بار سنا۔

یہاں آنے سے چھ ماہ قبل یہ انجینیئر معائنے کی خاطر کسی ایسے ضلع گیا تھا جہاں فساد پھیل چکا تھا۔ اس کی حفاظت کی خاطر مقامی سپاہیوں کا ایک دستہ بھی اس کے ساتھ بھیجا گیا تھا۔ ان سپاہیوں کی کمان لاؤبل نامی ایک بیلجین بندے کے پاس تھی۔ ظاہر ہے کہ انجینیئر کا پسندیدہ موضوع ایک شام کیمپ فائر پر چھڑ گیا۔ جتنی دیر انجینیئر بولتا رہا، لاؤبل پوری توجہ سے اس کی بات سنتا رہا۔

‘آپ میری اس سنجیدہ بات پر مت ہنسیے گا۔ میں اس موضوع پر ایسے لوگوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتا جو اسے سن کر ہنس دیں‘۔ لاؤبل نے جواب دیا۔

لاؤبل ایک مہم کو شیروں کی کھائی میں لے گیا تھا۔ اس کھائی کو یہ نام وہاں موجود شیروں کی کثرت کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ یہاں پہنچ کر فوجیوں کے پاس راشن تھوڑا پڑ گیا، سو لاؤبل نے ایک دن شکار کرنے کا سوچا تاکہ تازہ گوشت میسر ہو سکے۔ اس جگہ بہت کم آبادی تھی اور جنگل انسانی اثرات سے پاک تھا۔ ایک فوجی کو ساتھ لے کر لاؤبل کھائیوں اور جنگل میں شکار کرنے کی نیت سے نکلا۔ تاہم ان کے شکار کا اختتام غیر متوقع طور پر ہوا۔ انہوں نے پتھروں پر چھلانگ لگاتے ہوئے ایک پہاڑی ندی عبور کرنی تھی کہ لاؤبل کا پیر پھسلا اور ٹخنے میں موچ ا گئی۔

فوجی نے اسے دریا سے نکالا اور انہوں نے واپسی کا دشوار سفر شروع کیا۔ اچانک ہی فوجی نے لاؤبل کی توجہ ساتھ موجود عمودی پہاڑی کے اوپر جنگل کے ایک قطعے سے اٹھتے ہوئے دھوئیں کی طرف مبذول کرائی۔ انہیں محسوس ہوا کہ یہاں انسان رہتے ہوں گے۔ لاؤبل نے سوچا کہ اگر وہ اس جگہ رک جائے تو اس کا ساتھی فوجی اس کے لیے مدد لینے آسانی سے جا سکے گا۔

گھنٹے بھر کی انتہائی دشوار چڑھائی کے بعد وہ اوپر پہنچے تو ان کے سامنے ایک سادہ سی جھونپڑی تھی۔ ایک بوڑھی عورت بیٹھی سبزیاں پکا رہی تھی۔ اور کوئی ذی روح وہاں نہ تھا۔ بوڑھی عورت نے دونوں کا استقبال خوش دلی سے کیا اور انہیں بیٹھنے کو بنچ دی۔ پھر بوڑھی عورت ان کے لیے بھنی ہوئی مکئی سے بنا قہوہ لے آئی۔ تھوڑی دیر بعد فوجی نے کیمپ کا رخ کیا اور لاؤبل بوڑھی عورت کے ساتھ اکیلا رک گیا۔

جب اس نے بات کی تو پتہ چلا کہ بوڑھی عورت بیوہ ہے۔ اس نے بتایا کہ اس کے بچے بھی ہیں۔ اس کے کل آٹھ بچے ہوئے جن میں سے پانچ مر گئے۔ باقی تین جوان ہیں اور اس نے ہاتھ لہرا کر جنگل کی طرف اشارہ کیا کہ ‘یہیں کہیں‘ ہوں گے۔ پہاڑی کے پاس موجود یہ جنگل انتہائی گھنا اور دشوار گزار دکھائی دیتا تھا۔ پھر اس نے پوچھا کہ ‘تھوان (جناب)‘ یہاں کیسے آئے ہیں؟ شاید شکار کرنے؟ یہاں بارہ سنگھے بے شمار ہیں۔ آپ نے دیکھے تو ہوں گے؟ اگر اس کی مدد درکار ہو تو حاضر ہے۔

لاؤبل نے اس عورت کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا۔ تاہم اسے عجیب سا خطرے کا احساس گھیرے ہوئے تھا۔ اسے ایسا لگا کہ جیسے اس کے آس پاس، حتٰی کہ ہوا میں بھی خطرہ موجود ہو، لیکن وہ اسے جان نہ پایا۔ بظاہر ہر چیز ہی عجیب تھی۔ بوڑھی عورت یہاں پہاڑی پر اکلوتے جھونپڑے میں اکیلی رہ رہی تھی حالانکہ اسے تو کسی کمپونگ (دیہات) میں رہنا چاہیے تھا جہاں اس کے لیے زندگی آسان ہوتی۔ اس کے علاوہ اس کا جھونپڑا ستونوں کی بجائے زمین پر کیوں بنا ہے؟ حالانکہ یہاں شیر بکثرت ہوں گے۔

بوڑھی عورت نے پیار سے اسے دیکھا اور پھر پوچھا کہ اگر وہ کوئی مدد کر سکتی ہو تو حاضر ہے۔ جب لاؤبل جھجھکا تو عورت نے بتایا کہ وہ اس کے لیے موٹا تازہ بارہ سنگھا لے آئے؟

لاؤبل کے لیے انکار کرنا ممکن نہ رہا۔ اس لیے دونوں جھونپڑی سے ایک ساتھ نکلے۔ بوڑھی عورت عمر رسیدہ ہونے کے باوجود بہت پھرتیلی تھی اور پہاڑی بکری کی مانند پتھریلی پہاڑی پر چڑھ رہی تھی۔ لنگڑاتے لاؤبل کے ساتھ اس نے جھونپڑی سے سو گز دور خاصی اونچی چٹان کا رخ کیا اور لاؤبل کو کہا کہ وہ وہاں جا کر انتظار کرے۔ تکلیف کے باوجود لاؤبل وہاں چڑھا۔ اس جگہ سے آس پاس کا بھرپور نظارہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس سے پچاس گز اوپر جنگل سے نکلنے والے جانوروں کا اس نے شکار کرنا تھا۔

بوڑھی عورت غائب ہو گئی۔ پندرہ منٹ بعد لاؤبل نے ایک لمبی اور عجیب سی چیخیں سنیں جو بہت دور سے آ رہی تھیں۔ بوڑھی عورت کے لیے اتنی اونچی آواز میں چیخنا ناممکن لگ رہا تھا۔ تاہم چیخوں کی آوازیں کئی بار آئیں اور پھر خاموشی چھا گئی۔

لاؤبل نے انتظار جاری رکھا۔ ابھی تک وہ خوف والی کیفیت سے باہر نہ نکل سکا تھا مگر کھلی فضاء میں بیٹھنا اسے بہتر لگا۔ آس پاس کا سارا علاقہ اس کی رائفل کی زد میں تھا۔ تاہم ہر چیز بالکل ساکن تھی اور کوئی آواز بھی نہیں سنائی دی۔

نصف گھنٹے بعد اچانک ہی جنگل سے ایک بارہ سنگھا نکلا اور لمبی چھلانگیں لگاتا ہوا سیدھا لاؤبل کی طرف بڑھا۔ بارہ سنگھے کی آمد اتنی اچانک ہوئی تھی کہ ایک لمحے کو تو وہ رائفل اٹھانا بھول گیا۔ پھر چونک کر اس نے گولی چلائی۔ ہرن سیدھا اس کے سامنے بیس گز کی دوری پر گرا۔

سر جھٹک کر اس نے رائفل دوبارہ بھری۔ اس کا ارادہ تھا کہ نیچے اتر کر بارہ سنگھے کو قریب سے دیکھے کہ اچانک جنگل کے کنارے سے کسی جانور کے بھاگنے کی آواز آئی اور پھر ایک شاندار اور تنومند بارہ سنگھا اس کے سامنے نکلا۔ لاؤبل نے سوچے سمجھے بناء گولی چلا دی۔ تاہم گولی نشانے پر لگی اور بارہ سنگھا گرتا ہوا ایک چٹان کے سہارے رک گیا۔ اسی دوران جنگل سے کئی سؤر نکلے اور پھر ایک اور بارہ سنگھا۔ اس کے پیچھے جنگل بالکل خاموش تھا۔

جب چوتھا بارہ سنگھا اسی طرح نکلا تو لاؤبل سے برداشت نہ ہو سکا اور اس نے اپنی جگہ کھڑے ہو کر ہاتھ لہرائے اور چلا کر جنگل سے نکلنے والے ہر جانور کو خبردار کرنے لگا۔ جنگل سے نکلنے والا ہر جانور سیدھا لاؤبل کی سمت اس طرح لپکتا جیسے کسی شدید خوف نے اسے لاؤبل کی سمت بھاگنے پر مجبور کر دیا ہو۔ تاہم جب لاؤبل نے انہیں خبردار کرنا شروع کیا تو جانور اس کے قریب سے گھوم جاتے۔

جب پریشان، گھبرایا اور پریشان لاؤبل جھونپڑی میں پہنچا تو بوڑھی عورت چاول پکا رہی تھی۔

جب لاؤبل جھونپڑی میں داخل ہوا تو بوڑھی عورت نے پیار سے اسے دیکھا اور پوچھا کہ شکار کر لیا؟ جب لاؤبل نے کہا کہ ہاں، تو بوڑھی عورت اٹھی اور کھائی کے کنارے جا کر چیخی۔ اس کی چیخ جنگل اور کھائی کے پرلے سرے تک گونجتی ہوئی جا پہنچی۔

پھر واپس آ کر اس نے لاؤبل کو آگ کے ساتھ بیٹھنے کی دعوت دی۔ اس نے بتایا کہ کھانا تیار ہے اور اگرچہ سادہ سا ہی کھانا ہے، مگر ‘تھوان‘ کے ساتھ کھانے سے اس کی عزت افزائی ہوگی۔

بعد میں جب فوجی پہنچے تو ان کے پاس موٹی شاخوں اور ٹینٹ کے کپڑے سے بنا سٹریچر تھا۔ لاؤبل نے بوڑھی عورت سے اجازت چاہی اور فوجی یہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ لاؤبل نے نہ صرف اس عورت سے مصافحہ کیا بلکہ اس کے سامنے احتراماً جھکا بھی۔

شام کو آگ کے سامنے بیٹھ کر اور بھنا ہوا شکار کھاتے ہوئے فوجی بہت خوش ہو کر گپیں مار رہے تھے۔ لاؤبل مچھر دانی کے اندر اپنے بستر پر بیٹھا آگ کو گھورتے ہوئے اس عورت کے بارے سوچے جا رہا تھا۔

دو دن بعد جب لاؤبل چلنے کے قابل ہوا تو کیمپ منتقل کرنے کی تیاری ہوئی۔ تاہم روانگی سے قبل لاؤبل دو فوجیوں کے ہمراہ اس بوڑھی عورت کے لیے مختلف تحائف لے کر اس سے ملنے گیا۔ اس کے پاس دیگر تحائف کے علاوہ مچھر دانی اور کمبل بھی تھے۔ بوڑھی عورت انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور کسی ننھے بچے کی طرح ان سے باتیں کرنے لگی۔ فوجی اس کی جھونپڑی کے باہر کھڑے رہے۔ بوڑھی عورت نے بتایا کہ اس کا شوہر کسی زمانے میں شیر آدمی تھا۔ جب اس کی شادی ہوئی تو پورے گاؤں والوں نے اس کا حقہ پانی بند کر دیا۔ اس لیے یہ دونوں اپنے بچوں کو ساتھ لے کر اس پہاڑی پر جھونپڑی بنا کر رہنے لگے۔ اگرچہ یہ جگہ آنائی کے جنگلی علاقے میں تھی اور انسانی آبادی سے بہت دور، مگر وہ اپنی زندگی سے مطمئن تھی۔ یہاں اسے کسی جنگلی جانور سے کوئی خطرہ نہیں تھا کہ اس کے تینوں بیٹے بھی شیر آدمی تھے اور اس کی دیکھ بھال کے لیے مستعد رہتے تھے۔ اگرچہ ان کی آمد و رفت بہت کم ہوتی تھی مگر بوڑھی عورت کے کھانے پینے کا تمام تر سامان ہمیشہ مہیا کرتے رہتے تھے۔ تینوں بیٹے بہت ہوشیار اور فرمانبردار تھے اور بوڑھی عورت نے یہ بات بڑے فخر سے بتائی۔ اس نے پوچھا کہ کیا ‘تھوان‘ نے دیکھا نہیں کہ اس کی درخواست پر اس کے بیٹوں نے کیسے بارہ سنگھے اور دیگر جانور شکار کے لیے بھیجے؟ انہوں نے شیر کا روپ اختیار کر لیا تھا اور باقی کام آسان تھا۔

یہ تھی لاؤبل کی داستان۔ میں نے انجینیئر سے کہا کہ لاؤبل والا واقعہ ڈیڑھ سال پرانا ہے، کیوں نہ ہم چند دن کے لیے اس علاقے میں جا کر اس سے ملاقات کریں؟ کیا پتہ وہ بوڑھی عورت ابھی زندہ سلامت اور وہیں رہائش پذیر ہو؟ اسے یہ تجویز بہت اچھی لگی اور اس نے وعدہ کیا کہ وہ ہم دونوں کے لیے ایک ساتھ چھٹی کا بندوبست کر کے بتاتا ہے۔ ہم نے پورا پروگرام طے کر لیا اور مجھے یقین تھا کہ چھٹی لینا اس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

تین ماہ بعد جب ایک دن میں کام ختم کرنے والا تھا کہ مجھے اس انجینیئر کی طرف سے سرکاری مراسلہ ملا جس میں مجھے ہدایت کی گئی تھی ہے فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک تین ہفتے کی مقامی تعطیل لے لوں۔ ساتھ ہی نجی چٹھی منسلک تھی کہ 'فلاں تاریخ کو پڈانگ میں ملو‘۔

پڈانگ سے ہم شیروں کی وادی کے تین روزہ سفر پر روانہ ہوئے۔ تیسرے روز شام کو ہم آنائی کی وادی جا پہنچے۔ اونچی نیچی سوانا سرزمین پر بنی یہ کھائی پانی کے کٹاؤ سے بنی تھی۔ ہم کھائی کے کنارے دریائے آنائی کے ساتھ ساتھ بڑھتے گئے۔ اس جگہ پانی کے کنارے چمکدار پتھر بکثرت تھے اور اس کے کنارے اونچی جھاڑیاں تھیں جن پر پانی کے قطرے موجود تھے۔ سورج کی ترچھی کرنیں ان جھاڑیوں کے پتوں پر جب پڑتیں تو انتہائی خوبصورت منظر بنتا۔ اس کے بعد کھائی کا رنگ گہرا سبز ہوتا گیا جو مسلسل پانی کے بہاؤ کا نتیجہ تھا۔

آنائی میں پہلی رات ہم نے ایک اونچی چٹان کے چھجے پر خیمے لگائے۔ اس اونچی جگہ پر خیمے لگانے کا فائدہ یہ بھی تھا کہ تیز ہوا کی وجہ سے مچھروں سے جان چھوٹ گئی تھی۔ اس جگہ ہمیں پورے علاقے کا بہترین نظارہ میسر تھا۔ ہمارے سامنے گھنا جنگل افق تک پھیلا ہوا تھا اور جگہ جگہ مختلف آبشاریں دکھائی دے رہی تھیں جو ڈوبتے سورج کی روشنی میں موتیوں کی طرح چمک رہی تھیں۔ ہمارے پاس بانس کے جھنڈ میں ہوا سرسرا رہی تھی۔ کھائی کے اوپر سے ایک ندی خاموشی سے بہہ رہی تھی۔ بائیں جانب کی ایک وادی میں چاول کے چھجے دار کھیت سبزے کے سمندر میں جزیرے کی مانند دکھائی دے رہے تھے۔ یہ کھیت اس وادی میں آباد ایک کمپونگ کی ملکیت تھے۔ نیچے درختوں کی چوٹیوں پر سرد ہوا چل رہی تھی۔

شام کو ہم خیموں کے باہر آرام کرنے کو بیٹھ گئے۔ مجھے سب سے زیادہ خوشی یہ تھی کہ پلمبنگ کے برعکس یہاں مچھروں کی بھنبھناہٹ نہیں سنائی دے رہی تھی اور ہوا چل رہی تھی۔ مدھم ہوتا ہوا آسمان بالکل صاف تھا اور اس وادی پر گنبد کی طرح چھایا ہوا تھا۔

ایسے لمحات میں انسان مکمل خوش ہوتا ہے اور اسے کسی چیز کی طلب نہیں رہ جاتی۔ آزادی کی روح بن بلائے مہمان کی طرح پہنچ جاتی ہے۔ اسے دیکھا تو نہیں جا سکتا لیکن اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے اور انسان اس سے لطف اندوز ہونے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

سو، یہ تھی آنائی کی سرزمین۔ یہیں کہیں وہ بوڑھی عورت اپنے شیر بچوں کے ساتھ رہتی تھی۔

دو دن بعد ہم لوگ مطلوبہ جھونپڑی تک پہنچ گئے۔ یہ مسطح زمین ایک بہت ڈھلوان پہاڑی کے اوپر کنارے پر واقع تھی۔ اس کے پاس ہی آبشار گر رہی تھی۔ اس آبشار سے گرنے والے پانی سے جھاگ کے بادل اڑ رہے تھے جسے ہوا مسلسل کاٹے جا رہی تھی۔

اس جگہ ہم نے چھ قلیوں کو خیمے گاڑنے کے لیے چھوڑ دیا ۔ ہاشم کو لے کر ہم دونوں نیچے اترنے لگے۔ جھونپڑی کے آس پاس کی جگہ بالکل صاف ستھری تھی۔ یعنی بوڑھی عورت ابھی بھی زندہ ہوگی یا پھر اس کے بیٹے یہاں آن کر رہنے لگ گئے ہوں گے۔ جب میرے ہمراہی نےدروازے پر دستک دی تو میں نے کنارے پر جا کر دیکھا کہ انتہائی گہری کھائی جیسے منہ کھولے منتظر ہو۔

دستک کا کوئی جواب نہ ملا۔ ہم نے دوبارہ دستک دی اور پھر اندر سے مدہم سی آواز آئی۔ پھر دروازہ کھلا تو اس میں پوپلے منہ والی ایک بہت بوڑھی عورت نے جھانکا۔ اس کے سینے پر ساڑھی لپٹی ہوئی تھی اور اس کے کندھوں کی ہڈیاں نمایاں تھیں۔ سفید بال اس کے کندھوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ اس کی ٹانگیں مینڈک کی مانند لمبی اور چپٹی تھیں۔ بے چاری بہت بدصورت خاتون تھی۔ تاہم اس کی آنکھیں انتہائی حیرت انگیز طور پر چمکدار تھیں اور دوستانہ جذبے سے بھری ہوئی۔

اس عورت نے ہمیں خوش آمدید کہا اور ساتھ موجود درخت کے سائے میں بیٹھنے کی دعوت دی۔ پھر اس نے کسی کو جھونپڑی کے اندر سے بلایا اور فوراً ہی طاقتور اور مضبوط نوجوان برآمد ہوا۔ اس نے ہمیں دوستانہ انداز سے اور دلچسپی سے دیکھا۔ اس نے ہمارے بیٹھنے کے لیے چٹائی بچھا دی۔

فوراً ہی ہماری توجہ اس کی جانب ہو گئی کہ وہ اس عورت کا ہی بیٹا ہوگا۔ چھدرے جسم کا لیکن بالکل عام سا نوجوان تھا جس کے لمبے بال چوٹی کی شکل میں بندھے ہوئے تھے۔ میں نے فوراً اس کے بالائی ہونٹ کو شیر انسان کی نشانی تلاش کرنے کو دیکھا مگر اس کے بالائی ہونٹ پر نشان عام انسانوں جیسا تھا۔ مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی۔

نوجوان نے فوراً ہماری توجہ کو محسوس کر لیا اور منہ پھیر کر بیٹھ گیا۔ بوڑھی عورت نے اسے ہمارے پینے کی خاطر کچھ لانے کا کہا۔ فوراً ہی نوجوان جھونپڑے سے لمبے بانس میں تاڑی کی بہترین شراب لایا۔ پھر ہم سے کچھ دور بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔

ماں کی خاطر اس کی فرمانبرداری دیکھ کر ہمیں بہت اچھا لگا۔ دوسرے لوگوں کی آراء اور اس تجربے کی روشنی میں مجھے یہ شیر آدمی بہت اچھی مخلوق لگنے لگے۔ تاہم جہاں یہ شیر آدمی شکار کرتے تھے، ان علاقوں کے باشندوں کی رائے اس کے بالکل برعکس تھی۔

سلام دعا کے بعد انجنیئر نے اپنے ساتھ لائے ہوئے تحائف انہیں پیش کیے جن میں کافی سارا تمباکو بھی تھا جو اس عورت کے بیٹوں کے لیے تھا۔ تحفے دیکھتے ہی نوجوان کی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں۔ ہم زیادہ دیر نہیں رکے۔ جب ہم روانہ ہوئے تو نوجوان ہمارے ساتھ آیا۔ ہم نے اس سے شکار کے بارے پوچھا تھا اور وہ ہمارے ساتھ ایک دن شکار کو جانے پر تیار ہو گیا۔ ہم نے اس شکار کے بارے اپنے تمام تر خوشی بھرے جذبات چھپائے رکھے۔

اگلی صبح جب ہم اپنے خیموں سے باہر نکلے تو نوجوان جھاڑیوں کے پاس بیٹھا ہمارا منتظر تھا۔ صبح کافی سرد تھی اور ابھی اندھیرا ہی تھا اور دھند چھائی ہوئی تھی۔ ہم نے ہاتھ ہلا کر اسے خوش آمدید کہا اور اس نے مسکراتے ہوئے جواب میں سر ہلایا۔ جتنی دیر ہاشم آگ کو بھڑکا کر ناشتہ تیار کرتا، ہم نے یخ بستہ ندی میں غسل کیا اور بدن خشک کر کے کپڑے پہنے اور آگ کے کنارے بدن سینکنے لگے۔ ہم سب نے مل کر مہمان کے ساتھ ناشتہ کیا اور شکار کا منصوبہ بنانے لگے۔ ہمارے مہمان نے تجویز دی کہ ہم لوگ یہاں سے کیمپ ہٹا کر ایک روز کے سفر پر واقع ایک اور بالائی وادی میں جا کر شکار کھیلیں۔ ہمارے لیے یہ بات کافی حیران کن تھی کیونکہ اس جگہ شکار کی کثرت تھی ۔ چونکہ ہمارا مقصد اپنے مہمان کے بارے زیادہ سے زیادہ جاننا تھا، اس لیے کچھ دیر ولندیزی میں بات کر نے کے بعد ہم نے اس کے منصوبے پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ ہمارا خیال تھا کہ ہمارے مہمان کو انسانی آبادی کے قرب و جوار میں شکار کھیلنا شاید پسند نہیں۔

ایک گھنٹے بعدہم لوگ روانہ ہو چکے تھے۔ پہلے پہل ہمارے راستے میں پہاڑ آیا، پھر ہم نے کھائی میں اترے اور جنگل کے کنارے چند گھنٹے چلتے رہے۔ جنگل گھنا ہوتا جا رہا تھا اور مناظر بہت خوبصورت تھے۔ سرزمین جنگلی ہوتی جا رہی تھی۔ جگہ جگہ گھنی گھاس میں چوڑے پتوں والی جھاڑیاں موجود تھیں اور جنگلی جانوروں کی گزرگاہیں بکثرت تھیں۔ عظیم الجثہ درختوں کے مردہ تنے بھی دکھائی دے رہے تھے جو گل رہے تھے۔ خوبصورت تتلیاں بھی بکثرت تھیں۔ جنگل کے کنارے سے پرندوں کی چہچہاہٹ سنائی دے رہی تھی۔ جنگل کے کنارے ہمیں بار بار بندروں کا غول دکھائی دے رہا تھا جو ہمیں توجہ اور تجسس سے دیکھتا جا رہا تھا۔ درختوں کے پتے مسلسل سرسرا رہے تھے۔

ایک بار ہماری آمد کی وجہ سے ایک نشیب میں درخت کے سائے تلے آرام کرتے دو ہرن بھاگ گئے۔ بھاگتے ہوئے ان کی قلانچیں بہت خوبصورت نظارہ پیش کر رہی تھیں۔ ایسے مناظر کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔

پرانے درختوں پر کائی کی اتنی موٹی تہہ جمی ہوئی تھی کہ درخت جھکے پڑ رہے تھے۔ جنگل میں بقا کی پرانی جدوجہد کی یہ ایک قسم ہے۔ ہر درخت اور ہر جھاڑی سورج کی زیادہ سے زیادہ روشنی پانے کی خاطر دوسروں سے زیادہ اونچے ہوتے ہیں۔ جو پودا یا درخت اس حیات آفریں روشنی تک نہ پہنچ پائے، وہ کمزور اور منحنی سا رہ جاتا ہے۔

جنگل کے بہت بڑے درختوں کو دیکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ ہمیشہ قائم رہیں گے۔ مگر مون سون کے موسموں میں ان پر کائی چڑھنے لگتی ہے اور ان کا رس پیتی جاتی ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں ان کی چھوٹی چھوٹی جڑیں درخت میں گڑتی جاتی ہیں اور کائی کا اوپر کو سفر جاری رہتا ہے۔ درخت کی چھال پر سبز کائی کی تہہ چڑھ کر بظاہر بہت خوبصورت لگتی ہے۔ تاہم آخرکار یہی معانقہ دونوں کے لیے مہلک ثابت ہوتا ہے اور پہلے درخت اور پھر اس کی طفیلیہ کائی موت سے ہمکنار ہو جاتی ہے۔ پھر کائی کی یہ موٹی بے رنگ تہیں تنوں اور شاخوں سے لٹکتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور جب زمین پر گرتی ہیں تو ایسے لگتا ہے کہ جیسے کپڑا گل سڑ رہا ہو۔

پھر وہ طفیلئے پودے نمودار ہوئے گوشت کھاتے ہیں۔ ان کے گوشت کے رنگ والے پھولوں سے سڑاند آتی ہے۔ اس بو کی وجہ سے بہت سارے حشرات پیٹ بھرنے کے لیے اس کی کھلی پتیوں کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم جونہی یہ حشرات ان پتیوں سے مس کرتے ہیں تو پتیاں بند ہو کر موت کا کمرہ بن جاتی ہیں۔ جب تمام تر رس چوس لیا جائے تو پھر پتیاں کھلتی ہیں اور بے جان اور سوکھی ہوئی بے جان لاش پھینک دی جاتی ہے۔ ایسے بھی گوشت خور پودے موجود ہیں جن سے خوشبو آتی ہے اور ان کے رنگ بہت خوبصورت ہوتے ہیں اور یہ پرندے رس چوسنے والے ہمنگ برڈز کو کھاتے ہیں۔

جب سورج سر پر آیا تو ہمارے آس پاس کی سرزمین بھٹی کی مانند گرم ہو گئی اور ہم ایک چھوٹی سی ندی کے کنارے رکے جو جنگل سے ہماری جانب بہہ رہی تھی۔ یہاں تقریباً سارے کپڑے اتار کر ہم لوگ سائے میں بیٹھ گئے۔ ہمارے قلیوں نے بھی آرام کرنا اور گپ شپ شروع کر دی۔ انہوں نے ایک دوسرے پر پانی پھینکا اور بندروں کی نقالی کی جو ہمیں دیکھ کر چلا رہے تھے۔

جب آدمی جنگل میں اکٹھے ہوں تو ان میں تفاوت نہیں رہ جاتی اور تکلفات ختم ہو جاتے ہیں۔ شاید سورج نے پسینے کی شکل میں تکلفات کو ہمارے مساموں سے نکال لیا ہو یا پھر کیمپ فائر سے یہ تکلفات ختم ہو گئے ہوں اور ہم سب محض عام انسان بن گئے۔ تمام تر دنیاوی آلائشوں سے پاک، خالص عام انسان۔ غسل لے کر ہم تازہ دم ہوئے اور پھر ساتھ لائے ہوئے کھانے سے انصاف کرنے بیٹھ گئے جو ٹھنڈے چاولوں اور نمکین مچھلی پر مشتمل تھا۔ جب جسم خشک ہوئے تو کپڑے پہن کر ہم آگے روانہ ہو گئے۔

گرمی بہت شدید تھی اور جونہی ہم سائے سے نکل کر کھلی زمین پر آئے تو ہر طرف سورج کی روشنی ہمیں چندھیانے لگی۔ انجینئر کے ساتھ لائے گئے دو تازی کتے بھی گرمی سے پریشان ہو رہے تھے۔ ہمارے ساتھ لگ کر چلتے ہوئے وہ ہمارے معمولی سے سائے سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب ہمارے سامنے ایک چھپکلی گزری تو کتوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔

جلد ہی شیر آدمی دوسری سمت مڑ گیا۔ اب ہم جنگل میں داخل ہوئے اور یہاں ہمیں اپنا راستہ کاٹ کر بنانا پڑا۔ اس جگہ گرمی سے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہم گرم حمام میں داخل ہو گئے ہوں۔

آخرکار جب جنگل ختم ہوا تو ہم اپنی مطلوبہ وادی کے نچلے سرے پر پہنچ گئے۔ یہ وادی افق تک پھیلی ہوئی تھی اور گھنے جنگل پر مشتمل تھی اور اس کے وسط سے ایک دریا گزر رہا تھا جو کہیں کہیں چمکدار پٹی کی شکل میں دکھائی دیتا تھا۔

ہم وادی میں اترے اور جلد ہی کیمپ لگانے کی اچھی جگہ مل گئی۔ اس جگہ جھاڑیاں وغیرہ نہیں تھیں، سو ہمارے خیمے یہیں گاڑ دیے گئے۔ پتلی اور لمبی شاخیں کاٹ کر ان کی چھال اتارنے کے بعد انہیں چوکور شکل میں جوڑ کر خیمے کی بنیاد بنا دی گئی اور اس پر خیمے کا کپڑا لپیٹ دیا گیا۔ اگرچہ اس طرح خیمہ کوئی بہت زیادہ آرام دہ تو نہیں تھا لیکن اس سے بہتر یہاں ملنا ممکن بھی نہیں تھا۔ ہمارے قلیوں نے اپنے لیے اسی طرح شاخوں سے چوکور شکل دے کر ان پر چوڑے پتوں والی شاخیں جما دیں۔ راستے میں کئی جگہ ہمیں شیروں کے پگ دکھائی دیے تھے اس لیے ہم نے مناسب سمجھا کہ رات بھر آگ جلتی رہے۔ اس نیت سے میں نے ہاشم سے کہا کہ لکڑیاں جمع کر لے۔ تاہم ہاشم نے سرگوشی میں مجھے مطلع کیا کہ شیرآدمی نے جب اسے لکڑیاں جمع کرتے دیکھا تو منع کر دیا کہ ان کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگرچہ اس نے وضاحت نہیں کی لیکن قلیوں کو اس کی بات فوراً سمجھ آ گئی کہ اس موقع پر اس بندے سے بگاڑنا اچھا نہیں اور انہوں نے اس کی تجویز پر عمل کیا۔

نصف شب کے وقت ہاشم نے مجھے جگایا اور بتایا کہ شیرآدمی موجود نہیں۔ میں نے فوراً اپنی بندوق سنبھالی کہ اس جگہ بعض مقامی قبائل کے لوگ اس طرح کیمپ والوں کو قتل کر کے ان کا سامان لوٹ کر فرار ہو جاتے تھے۔ ہاشم نے مجھے سرگوشی میں کہا کہ آواز نہیں پیدا ہونی چاہیے ورنہ ہر کوئی بیدار ہو جائے گا۔ پھر اس نے کہا کہ اسے نیند کم آتی ہے، اس لیے وہ ساری رات اپنی رائفل سنبھالے پہرہ دے گا۔

میں نے اس کے بازو کو خاموشی سے تھام کر اشارتاً اس کا شکریہ ادا کیا۔ پھر میں نے احتیاط سے انجینئر کو اس طرح بیدار کیا کہ وہ گھبرا نہ جائے اور پھر اسے ہاشم کا بیان سنا دیا۔ ہم نے فیصلہ کیا کہ رات کے وقت ہم خیمے سے باہر نہیں نکلیں گے اور باری باری جاگتے رہیں گے۔

میری نیند گم ہو گئی تھی۔ مجھے مسلسل خیمے کے باہر کسی چیز کے حرکت کرنے کی آواز آتی رہی جس سے میں پریشان رہا۔ ایسا لگتا تھا کہ رات کبھی ختم نہیں ہوگی مگر آخرکار صبح کی روشنی نمودار ہو ہی گئی۔

ہم بندوقیں سنبھال کر خیمے سے باہر نکلے لیکن بظاہر ایسے گئے جیسے کسی چیز کی فکر نہ ہو۔ ہاشم معمولی سی آگ جلائے اس کے سامنے بیٹھا اسے تیز کر رہا تھا۔ اس کی بندوق ساتھ ہی رکھی تھی۔ قلی ندی میں نہا رہے تھے۔ ہاشم نے سر ہلا کر مجھے آبشار کی طرف متوجہ کیا اور بولا، ‘اُدھر‘۔ واقعی وہاں شیر آدمی نہا رہا تھا۔ طلوع ہوتے ہوئے سورج کی روشنی میں اس کا گہرا رنگ تانبے کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔

اس روز ہم نے شکار شروع کیا اور دو اچھے بارہ سنگھے مارے۔ شیر آدمی شکار شروع ہوتے ہی غائب ہو گیا مگر ہم نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی کہ ہاشم اور قلی بھی کتوں کے ساتھ ہماری نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ تاہم ہم یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے کہ دونوں بارہ سنگھے قلیوں اور ہاشم کے عین مخالف سمت سے دوڑتے آئے تھے۔ تاہم دن کے وقت ان لوگوں کی طرف سے ایک بڑا سور آیا جو گھنے جنگل کی وجہ سے بچ کر نکل گیا۔

رات کو شیر آدمی پھر کیمپ سے نکل گیا۔ تاہم مجھے اب پریشانی نہیں تھی۔ ہاشم پھر آیا اور سرگوشی کی، ‘تھوان، وہ پھر غائب ہے۔‘ تاہم میں نے آرام سے کروٹ لی اور جواب دیا کہ مجھے علم ہے۔ تاہم ہاشم نے میری بات پر کہا تو کچھ نہیں مگر چوکیداری پر بیٹھ گیا۔

اگلے روز ایک عجیب بات ہوئی۔ دوپہر کو شکار کے بعد ہم جب آرام کرنے بیٹھے تو ہمیں خیال آیا کہ شیری نامی ایک کتا غائب ہے۔ کسی آدمی نے اسے غائب ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ کیا پتہ اسے کسی جنگلی سور نے مار ڈالا ہو یا زہریلے سانپ نے ڈس لیا ہو؟

تاہم انجینیئر کتے کی گمشدگی پر بہت پریشان تھا۔ شیری اور بوریل، یہ دونوں کتے اس کے بہترین شکاری کتے تھے۔

شام کو جب ہم کیمپ میں آگ کے ساتھ بیٹھے تو شیرآدمی بظاہر شرمندہ حالت میں ہمارے پاس آیا۔ ہم نے تب توجہ دی جب ہاشم نے اس کی طرف ہماری توجہ مبذول کرائی۔ پاس آ کر وہ بولا، ‘جناب، ناراض نہ ہوں، مگر مجھے علم ہے کہ آپ کا کتا کہاں ہے۔‘

ہم نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اور پھر اسے سگریٹ دے کر پوچھا کہ وہ کیا بتانا چاہتا ہے۔ پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی کہ اپنے پرانگ کو میان سے نکالا۔ تاہم اس کا مقصد محض زمین پر آگ کی روشنی میں خاکہ بنانا تھا۔

اس نے سخت زمین پر ایک گہری لکیر کھینچی جو کسی ندی کو ظاہر کرتی تھی اور پھر اس کے کنارے پر ریت ڈالی اور بولا۔

‘میں آپ سے معافی کا خواستگار ہوں، مگر مجھے علم ہے کہ آپ کا کتا کہاں ہے۔ یہاں دیکھیے، اس جگہ کچھ جنگل سا ہے جہاں سے بارہ سنگھا آیا تھا۔ یہ بارہ سنگھا آپ کے کتوں نے بھگایا تھا۔ اس جگہ دریا آبشار سے دور ہٹتا ہے۔‘

پھر اس نے بغیر اجازت لیے فلاسک سے پانی اس راستے پر انڈیلا۔ پانی کچھ دور تک اس راستے پر بہنے کے بعد زمین میں جذب ہو گیا۔

‘آپ نے دیکھا؟‘ پھر اس نے ہمیں وہ جگہ دکھائی جہاں میں چٹان پر بیٹھا تھا۔

‘اس جگہ سے بارہ سنگھا نکلا اور دونوں کتے اس کے پیچھے لگے تھے۔‘ اس نے اس جگہ مزید پانی انڈیلا اور چھوٹی سی شاخ کو تین حصوں میں توڑ کر پانی میں ڈال دیا۔ پہلا ٹکڑا فوراً پانی عبور کر کے دوسرے کنارے پر ٹِک گیا۔ دوسرا بھی اس کے فوراً بعد دوسرے کنارے پر پہنچا۔ دوسرا ٹکڑا بوریل ہوگا کیونکہ بارہ سنگھا کے عین پیچھے وہ بھی پانی سے نکلا تھا۔

تاہم تیسرا ٹکڑا وہیں اس چھوٹی سی آبشار کے پاس دائرے میں گھومنے لگا اور گھومتے گھومتے ایک بڑے پتھر کے نیچے پھنس کر گھومنے لگا۔

اس دوران شیر آدمی پوری توجہ سے جھک کر اس منظر کو دیکھتا رہا اور آگ کی روشنی میں اس کے چہرے کا رنگ سرخ دکھائی دے رہا تھا۔

ہم پوری توجہ سے اس منظر کو دیکھتے رہے۔ پھر شیر آدمی بولا۔

‘جناب، اس جگہ آپ کا کتا موجود ہے۔ اگر آپ کل میرے ساتھ چلیں تو ہم کتے کو تلاش کر لیں گے۔‘

‘تمہیں یہ سب کیسے پتہ چلا؟‘ انجینئر نے پوچھا۔

‘میں نے خود دیکھا ہے’۔ جواب ملا

‘دیکھا ہے؟ تم نے میرے کتے کو مرتے دیکھا ہے؟’ انجینئر نے پرجوش انداز سے پوچھا۔

شیرآدمی نے اسے دیکھا۔ اس کے چہرے پر عجیب تائثرات تھے۔ شرمندگی سے اس نے اپنے اردگرد دیکھا اور بولا ‘میں نے دیکھا ہے، مگر اپنی آنکھوں سے نہیں، اپنی روح سے دیکھا ہے۔’ اس نے جھجھکتے ہوئے ہاتھ لہرا کر کہا۔ جب میں کچھ دیر اکیلا بیٹھا تو مجھے یہ منظر دکھائی دیا۔ میں فوراً آپ کو بتانے چلا آیا۔ مجھے معلوم ہے کہ کتا کہاں ہے۔ کل ہم اسے تلاش کرنے نکلیں گے’۔

پھر اس نے ہماری جانب دیکھا۔ اس کے انداز سے پریشانی عیاں تھی کہ آیا ہم اس بات پر اس کا مذاق تو نہیں اڑاتے۔ ہر کوئی خاموش تھا اور ہاشم اپنے پیر کے انگوٹھے سے ریت کو کھود رہا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے اعصاب چٹخنے والے ہیں۔

انجینیئر نے تمباکو کی تھیلی نکالی اور دوسروں کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا، ‘کل صبح ہم کتے کی تلاش میں نکلیں گے۔’ پھر اس نے نوجوان کو دیکھتے ہوئے کہا، ‘مجھے یقین ہے کہ تم نے درست کہا ہے۔’

شیرآدمی کا چہرہ کھل اٹھا اور اس سر ہلایا۔

اگلی صبح سورج طلوع ہونے سے قبل ہم بیدار ہو کر روانہ ہو چکے تھے۔ جونہی ہم آبشار پر پہنچے، ہمیں شیری اس کے نیچے اس حالت میں دکھائی دیا کہ اس کی گردن ٹوٹ چکی تھی۔ گیلے بال اس کے جسم پر چپکے ہوئے تھے۔ اس کی بے نور آنکھیں درختوں کی چوٹیوں کو دیکھ رہی تھیں اور اس کا جسم پانی میں گھوم رہا تھا۔ آبشار کا تیز پانی اس کے پاس سے بہہ رہا تھا۔

شیرآدمی ہم سے کچھ دور منہ پھیر کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اس کی مضبوط کمر خوب چمک رہی تھی۔ اس کے بہت آگے آنائی کا وحشی اور پہاڑی علاقہ تھا جہاں صاف آسمان دکھائی دے رہا تھا۔