آلام روزگار کو آساں بنا دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
by اصغر گونڈوی

آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا

میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا

یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا

کچھ شورشوں کی نذر ہوا خون عاشقاں
کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا

اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا

کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر عشق کی
جب خاک کر دیا اسے عرفاں بنا دیا

کیا کیا قیود دہر میں ہیں اہل ہوش کے
ایسی فضائے صاف کو زنداں بنا دیا

اک برق تھی ضمیر میں فطرت کے موجزن
آج اس کو حسن و عشق کا ساماں بنا دیا

مجبورئ حیات میں راز حیات ہے
زنداں کو میں نے روزن زنداں بنا دیا

وہ شورشیں نظام جہاں جن کے دم سے ہے
جب مختصر کیا انہیں انساں بنا دیا

ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا

بلبل بہ آہ و نالہ و گل مست رنگ و بو
مجھ کو شہید رسم گلستاں بنا دیا

کہتے ہیں اک فریب مسلسل ہے زندگی
اس کو بھی وقف حسرت و حرماں بنا دیا

عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا

اس حسن کاروبار کو مستوں سے پوچھئے
جس کو فریب ہوش نے عصیاں بنا دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse