آلام روزگار کو آساں بنا دیا
آلام روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
میں کامیاب دید بھی محروم دید بھی
جلووں کے اژدہام نے حیراں بنا دیا
یوں مسکرائے جان سی کلیوں میں پڑ گئی
یوں لب کشا ہوئے کہ گلستاں بنا دیا
کچھ شورشوں کی نذر ہوا خون عاشقاں
کچھ جم کے رہ گیا اسے حرماں بنا دیا
اے شیخ وہ بسیط حقیقت ہے کفر کی
کچھ قید رسم نے جسے ایماں بنا دیا
کچھ آگ دی ہوس میں تو تعمیر عشق کی
جب خاک کر دیا اسے عرفاں بنا دیا
کیا کیا قیود دہر میں ہیں اہل ہوش کے
ایسی فضائے صاف کو زنداں بنا دیا
اک برق تھی ضمیر میں فطرت کے موجزن
آج اس کو حسن و عشق کا ساماں بنا دیا
مجبورئ حیات میں راز حیات ہے
زنداں کو میں نے روزن زنداں بنا دیا
وہ شورشیں نظام جہاں جن کے دم سے ہے
جب مختصر کیا انہیں انساں بنا دیا
ہم اس نگاہ ناز کو سمجھے تھے نیشتر
تم نے تو مسکرا کے رگ جاں بنا دیا
بلبل بہ آہ و نالہ و گل مست رنگ و بو
مجھ کو شہید رسم گلستاں بنا دیا
کہتے ہیں اک فریب مسلسل ہے زندگی
اس کو بھی وقف حسرت و حرماں بنا دیا
عالم سے بے خبر بھی ہوں عالم میں بھی ہوں میں
ساقی نے اس مقام کو آساں بنا دیا
اس حسن کاروبار کو مستوں سے پوچھئے
جس کو فریب ہوش نے عصیاں بنا دیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |