آفت شب تنہائی کی ٹل جائے تو اچھا
آفت شب تنہائی کی ٹل جائے تو اچھا
گھبرا کے جو دم آج نکل جائے تو اچھا
او جان حزیں جانا ہے اک دن تجھے آخر
اب جائے تو بہتر ہے کہ کل جائے تو اچھا
جھکوا دیا سر ضعف نے قاتل کے قدم پر
تلوار اگر اس کی اگل جائے تو اچھا
بہتر نہیں ہے صورت جاناں کا تصور
دل اور کسی شے سے بہل جائے تو اچھا
اک سل ہے کلیجے پہ نہیں روح بدن میں
چھاتی کا پہاڑ آہ پہ ٹل جائے تو اچھا
دیوانہ عبث شہر کی گلیوں میں ہے برباد
مجنوں کسی جنگل کو نکل جائے تو اچھا
او آتش دل پھونک دے تن اشک بہا دے
بہہ جائے تو بہتر ہے یہ جل جائے تو اچھا
ہر مرتبہ ڈسنے کے ارادہ میں ہے وہ زلف
اژدر یہ اگر مجھ کو نگل جائے تو اچھا
پھر رکنا ہے دشوار یہ جب آئی تو آئی
ایسے میں طبیعت جو سنبھل جائے تو اچھا
تابوت مرا تھم کے اٹھاؤ مرے یارو
وہ بھی کف افسوس جو مل جائے تو اچھا
اے رندؔ ملو یار سے یا ہاتھ اٹھاؤ
جھگڑا چکے ہر شب کا خلل جائے تو اچھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |