آفت شب تنہائی کی ٹل جائے تو اچھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آفت شب تنہائی کی ٹل جائے تو اچھا
by رند لکھنوی

آفت شب تنہائی کی ٹل جائے تو اچھا
گھبرا کے جو دم آج نکل جائے تو اچھا

او جان حزیں جانا ہے اک دن تجھے آخر
اب جائے تو بہتر ہے کہ کل جائے تو اچھا

جھکوا دیا سر ضعف نے قاتل کے قدم پر
تلوار اگر اس کی اگل جائے تو اچھا

بہتر نہیں ہے صورت جاناں کا تصور
دل اور کسی شے سے بہل جائے تو اچھا

اک سل ہے کلیجے پہ نہیں روح بدن میں
چھاتی کا پہاڑ آہ پہ ٹل جائے تو اچھا

دیوانہ عبث شہر کی گلیوں میں ہے برباد
مجنوں کسی جنگل کو نکل جائے تو اچھا

او آتش دل پھونک دے تن اشک بہا دے
بہہ جائے تو بہتر ہے یہ جل جائے تو اچھا

ہر مرتبہ ڈسنے کے ارادہ میں ہے وہ زلف
اژدر یہ اگر مجھ کو نگل جائے تو اچھا

پھر رکنا ہے دشوار یہ جب آئی تو آئی
ایسے میں طبیعت جو سنبھل جائے تو اچھا

تابوت مرا تھم کے اٹھاؤ مرے یارو
وہ بھی کف افسوس جو مل جائے تو اچھا

اے رندؔ ملو یار سے یا ہاتھ اٹھاؤ
جھگڑا چکے ہر شب کا خلل جائے تو اچھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse