آفتاب اب نہیں نکلنے کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آفتاب اب نہیں نکلنے کا
by حاتم علی مہر

آفتاب اب نہیں نکلنے کا
دور آیا شراب ڈھلنے کا

سانپ کہتے ہیں زلف کو شاعر
کام کرتے ہیں منہ کچلنے کا

لاکھ ہم چکنی چپڑی بات کریں
ان کا دل اب نہیں پھسلنے کا

صفت لب میں شعر کہتے ہیں
اب ارادہ ہے لعل اگلنے کا

کوٹتے ہیں جو اپنا ہم سینہ
ہے عوض چھاتیاں مسلنے کا

کیوں نہ ہر طرز میں ہو بات نئی
پاں ہے قابو زباں بدلنے کا

ایک بوسے کی بھی جمائے اب
قصد ہے ان کو مسی ملنے کا

نخل ماتم کے سائے میں نہ ٹھہر
ہے مسافر جو قصد چلنے کا

چشم پوشی سے طفل اشک اپنا
ڈھنگ سیکھا ہے اب مچلنے کا

حفظ تیر نگہ ہے عین خطا
نہیں پیغام موت ٹلنے کا

ہم بھی کھیلا کریں گے جان پر اب
شغل اچھا ہے دل بہلنے کا

مہرؔ حربا سے دوستی تا چند
غم نہیں رنگ کے بدلنے کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse