آغاز محبت میں برسوں یوں ضبط سے ہم نے کام لیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آغاز محبت میں برسوں یوں ضبط سے ہم نے کام لیا
by حفیظ جونپوری

آغاز محبت میں برسوں یوں ضبط سے ہم نے کام لیا
جب ہوک کلیجے میں اٹھی تو ہاتھوں سے دل تھام لیا

اس رشک کے ہاتھوں ایک نہ اک ہر روز ہی داغ اٹھاتے رہے
ہم چوٹ جگر پر کھا بیٹھے جب غیر نے تیرا نام لیا

آنکھیں وہ جھکیں ملتے ملتے رہے ہوش و خرد جاتے جاتے
کچھ شرم نے ان کو روک لیا کچھ ضبط نے ہم کو تھام لیا

انسان کی تھی یہ تاب و تواں جو بار محبت اٹھا سکتا
اک یہ بھی ہے احسان ترا کیا اس سے تو نے کام لیا

صحرا میں ٹھنڈے وقت ہمیں یاد آئی جو اس کی جلوہ گری
کچھ ایسی ہوئی وحشت دل کو دم جا کے زیر بام لیا

اور اس کے سوا کچھ کہہ نہ سکے پوچھا جو کسی نے حال ہے کیا
آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ہاتھوں سے کلیجا تھام لیا

لوٹا تری دونوں آنکھوں نے پایا جو مرے دل کو تنہا
جو ایک نے صبر شکیب لیا تو ایک نے چین آرام لیا

اب تک تو خبر لی اس نے مری جس وقت کوئی افتاد پڑی
جب ٹھوکریں کھا کر گرنے لگا ہاتھ اس نے لپک کر تھام لیا

ہم لائیں کہاں سے وہ آنکھیں جو تم کو پشیماں دیکھ سکیں
اب کیسی ندامت جب ہم نے سب اپنے سر الزام لیا

محرومیٔ قسمت کیا کہئے احسان کیا کب ساقی نے
پیمانۂ عمر چھلک ہی گیا جب ہاتھ میں اپنے جام لیا

موزوں جو ہوئے جذبات دل جب شعر حفیظؔ پڑھا ہم نے
سنتے ہی دونوں ہاتھوں سے سامع نے کلیجہ تھام لیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse