آصف جہاں کی بہو
آصف جہاں کے شوہر ایک بہت پیسہ والے ڈپٹی کلکٹر تھے اور ان کا اکلوتا لڑکا نور الحسن کئی بچوں کے مرنے کے بعد جیا تھا۔ سب ہی کا لاڈلا تھا۔ ایسے کنبہ میں تو کوئی ایسا نہ تھا جو خوشی سے اپنی بیٹی نور الحسن کو نہ دے دیتا، لیکن آصف جہاں کی آرزو تھی کہ کبریٰ کی لڑکی اپنے بچے کے لئے لائیں۔ وہ ایک حق پرست بیوی تھیں۔ کبریٰ کی لڑکی اس لئے لینا چاہتی تھیں کہ کبریٰ ان کی چھوٹی نند بھی تھیں اور سگی بھاوج بھی۔ اپنی انہیں دور اندیوی ں کی وجہ سے تو وہ خاندان میں ہر دلعزیز تھیں۔ اگر نور الحسن کی منگنی میکہ میں کرتی تھیں تو سسرال والے منہ بناتے اور جو سسرال میں کرتیں تو میکہ والے رنجیدہ ہوتے۔ اب اگر کبریٰ کی لڑکی ہوتی تو سسرال اور میکے دونوں خوش رہتے۔
ویسے تو کبریٰ بیگم کے ماشاء اللہ ہر سال سوا سال کے پیچھے بچہ ہوتا تھا اور پچیس سال کی عمر میں پانچ بیٹوں کی اماں تھیں۔ سارے کنبے میں ان کی خوش قسمتی ضرب المثل تھی۔’’خدا نصیبا کرے تو کبریٰ کاسا، جب دیکھو لڑکا ہی گود میں دیکھو اور بیٹی تو بوا خدا دشمن کو بھی نہ دے۔‘‘
جب کبریٰ کے ہاں ایک اور لڑکا ہوتا ساری دنیا رشک کرتی۔ ہاں اگر رنج کسی کوہوتا تھا تو وہ آصف جہاں تھیں۔ گو وہ کبریٰ بیگم کی صحت یابی سے خوش ضرور ہوتی تھیں۔ آخر کو جنّا اور مرنا برابر ہی ہے، لیکن پھر بھی جب کبریٰ بیگم کے لڑکا ہوا ، آصف جہاں روئیں۔ ’’اس میں کسی کا کیا قصور ہے میری قسمت ہی خراب ہے۔ نو بچوں میں ایک نور الحسن کا منہ دیکھا ہے اور اس کے لئے بھی میری تمنا پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔ جدھر دیکھو بیٹیاں ہی بیٹیاں بھری پڑی ہیں۔ بر تک نہیں جڑتے لیکن میرے بچے کے لئے اللہ میاں دلہن ہی نہیں بھیجتے۔‘‘
کبریٰ بیگم تین دن سے درد زہ میں مبتلا تھیں۔ خاندانی بڑھیا دائی بیٹھی ہوئی تھی، گھر بڑی بوڑھیوں، بہنوں، بھاوجوں، دیورانیوں، جٹھانیوں، نندوں اور ان کے بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس غضب کا شور مچا ہوا تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ شادی کا گھر معلوم ہو رہا تھا۔ عورتوں میں آپس میں صلاحیں ہو رہی تھیں کہ ڈاکٹرنی کو بلایا جائے یا نہیں۔ درد پر درد تو چلے آ رہے ہیں اور بچہ ہے کہ کھسکنے کا نام نہیں لیتا۔ ’’بچے سبھی کے ہوتے ہیں لیکن بوا ایسا بچہ نہ دیکھا نہ سنا۔‘‘ صدقہ کا بکرا، غریبوں کو اناج، تعویذ، گنڈے، غرضیکہ ہر چیز ہو رہی تھی لیکن بچہ ٹس سے مس نہ ہوتا تھا۔ ادھر کبریٰ بیگم دردوں کی تکلیف سے نڈھال ہو رہی تھیں۔ ادھر باہر تخت پر آصف جہاں جائے نماز پر بیٹھی ہاتھ پھیلائے خدا سے دعا مانگ رہی تھیں۔ اے رب العالمین! کبریٰ کے چھوٹے چھوٹے بچوں پر رحم کر اور اس کو اس مصیبت سے چھٹی دے، اے میرے مولا! اس دفعہ میری سن لے اور کبریٰ کی گود میں میری بہو بھیج دے۔ اے پروردگار! پانچ بار تیرے حضور سے مایوس لوٹی ہوں اس دفعہ میری مراد۔۔۔ آصف جہاں دعائیں مانگتی جاتی تھیں۔ ان کے چہرے سے خدا کے رحم کی توقع پوری طور سے ٹپک رہی تھی۔
کبریٰ بیگم کے کراہنے اور چیخنے کی آوازیں برابر آصف جہاں کے کان میں چلی آ رہی تھیں۔ ’’ہائے آپا! اچھی میری بھابی جان، اب کے نہیں بچوں گی، اللہ، اللہ ، میرے حال پر رحم کر، میری، ہائے میری‘‘
’’اے ہے کبریٰ ایسی بد فالیں منہ سے نہ نکالو‘‘
’’پانی، ہائے پانی‘‘
’’گل شبو، اری او گل شبو کہاں مرگئی، اری کم بخت کٹورا تو دیکھ خالی پڑا ہے۔‘‘ ایک رشتہ دار اندر سے چیخیں۔
تھوڑی دیر بعد کبریٰ بیگم کی چیخیں اور بڑھ گئیں اور ساتھ ساتھ اور عورتوں کی آوازیں بھی آنے لگیں۔ شابش ہے، شابش ہے، لگاؤ زور، اور زور، بس، اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا اور یہ چند سیکنڈ جو گزرے تو انہیں برسوں کے برابر معلوم ہوئے۔ پھر ایک بچے کی ہیاؤ ہیاؤ رونے کی آواز سن کر انہوں نے چین کا سانس لیا اور اپنی دعا اس طرح ختم کی۔ ’’اے میرے مالک لڑکا ہو یا لڑکی، یہ تو میری قسمت ہے لیکن شکر ہے تیرا کہ تونے کبریٰ کی جان بچائی۔‘‘ یہ کہہ کر سجدے میں گر پڑیں ۔ ابھی اٹھنے نہ پائی تھیں کہ ایک چھوکری بھاگتی ہوئی آئی۔ ’’لڑکی ہے لڑکی، بیگم صاحب دلہن مبارک۔‘‘
سجدے ہی سے آصف جہاں کی باچھیں کھل گئیں۔ جلدی سے سر اونچا کرکے انگیا میں سے بٹوا نکالا اور ایک روپیہ چھوکری کے ہاتھ پر رکھ کر خوش خوش زچہ خانہ کی طرف بڑھیں۔ اس کمرے میں پہلے ہی سے عورتوں کی کافی بھیڑ تھی۔ آصف جہاں کے گھستے ہی ایک بیوی بولیں۔ ’’ابھی آنول نہیں گری ہے۔‘‘
زچہ کے پلنگ پر سرہانے کی طرف کبریٰ کی پھوپھی اور بڑی بہن، ایک بھاوج بیٹھی تھیں اور پائنتی کی طرف دائی اپنے پاؤں کبریٰ کی رانوں سے اڑائے بیٹھی تھی۔ بھاوج اٹھ کر عورتوں کے برابر کھڑی ہوگئیں اور اپنی جگہ آصف جہاں کے لئے پلنگ پر چھوڑ دی۔
’’بھابی جان کبریٰ نے اس دفعہ بڑی تکلیف اٹھائی لیکن آپ کی قسمت سے اب کے لڑکی ہوئی ہے۔ ماں کی تو جان پر بن گئی تھی۔ ‘‘ کبریٰ کی بہن نے آصف جہاں کو مخاطب کر کے کہا۔
’’تمہاری سب کی دعا خدا نے سن لی۔ میں تو اس دفعہ بھی بے آس ہو چکی تھی، یہی اچھا ہوا کہ اللہ نے اپنا فضل کر دیا اور میم کی نوبت نہ آئی۔‘‘
’’بس بیوی کچھ نہ پوچھو۔ تم بیویاں تو چھوٹ موٹ ہاتھ پاؤں پھلا دیتی ہو۔ بچہ تو جبھی ہوگا جب اللہ کا حکم ہوگا۔ میم آکر کیا بنا لیتی۔ الٹے سیدھے اوزار ڈالنے شروع کر دیتی۔ ذرا دیر ہوئی تو کہنے لگتی ہو۔ میم کو بلواؤ، میم کو بلواؤ۔ جب یہ اجڑی میمیں نہ تھیں تو کیا کوئی عورت بچہ ہی نہ جنتی تھی۔ ‘‘ دائی نے جلے ہوئے لہجہ میں زور زور سے بڑبڑانا شروع کیا۔
’’اے ہے دیر کی بھی انتہا ہوتی ہے۔ دو راتیں اور تین دن گزر گئے، راتوں درد میں تڑپیں اور تم کو یہ بھی پتہ نہ تھا کہ بچہ کب ہوگا؟ کیا ہم نے بچے نہیں جنے کیا ہم نہیں جانتے؟‘‘ کبریٰ کی بہن عائشہ بیگم نے جواب دیا۔
’’اچھا اب باتیں تو بنا چکیں، یہ بتاؤ آنول کب گرے گی؟‘‘
’’بیوی موت زیست خدا کے ہاتھ ہے۔ وقت کی کسی کو خبر نہیں ہے، بچہ ہو گیا ابھی ڈنڈی میں جان ہے، اسے دیکھو کیسی پھڑک رہی ہے۔‘‘ دائی ایک ہاتھ سے جو چاندی کی میلی کچیلی انگوٹھیو، چوڑیوں سے بھرا ہوا تھا، آنول کی ڈنڈی پکڑے ہوئے تھی اور دوسرے ہاتھ سے میلا صاف کر رہی تھی، عائشہ بیگم زچہ کا پیٹ نہایت زور سے دبائے ہوئے تھیں۔ یہ اپنے پیٹ پکڑنے کے لئے کنبہ بھر میں مشہور تھیں۔
’’دلہن درد آیا؟‘‘ دائی نے زچہ سے پوچھا۔
’’نہیں‘‘ کبریٰ نے ایک نحیف اور کمزور آواز میں جواب دیا۔
’’ڈنڈی کی پھڑک تو اب بہت کم رہ گئی ہے۔‘‘ یہ کہہ کر دائی نے ڈنڈی کو پاؤں کے انگوٹھے اور الٹے ہاتھ سے پکڑ کر سیدھے ہاتھ سے اس کو سوتنا شروع کیا، یہاں تک کہ وہ بالکل سفید بے جان ہو نے لگی۔
’’اے ہے مسیتن ابھی سے نال نہ کاٹ دینا، ابھی تو آنول نہیں گری ہے۔‘‘ کھڑی ہوئی جماعت میں سے ایک نے کہا۔
’’اے بیوی کل کی بچی ہو، میرے ہاتھ کی پیدا، اب مجھی کو پڑھانے لگیں۔ میرا چونڈا کیا دھوپ میں سفید ہوا ہے۔ بڑی بیگم خدا کی قسم یہ لڑکیاں اچھے خاصے بھلے آدمی کو الو بنا لیتی ہیں میں ایسی پاگل ہوں کہ نال آنول گرنے سے پہلے کاٹ دوں گی۔‘‘
مسیتن آنول سوتتی رہی اور دوسری عورتیں اپنے اپنے قصے بیان کرنے لگیں کہ ان کی اپنی دفعہ کیا ہوا تھا اور محلہ یا ان کے سسرال میں کون دائی آتی ہے اور فلانی زچہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی مر گئی اور آنول اندر کی اندر رہ گئی۔
’’عاشق حسین کی دلہن کا کیا ہوا۔ آنول نہ گری۔ شام ہوگئی۔ دائی نے بہتیری کوشش کی۔ آخر کو ہار کر اس نے بھی کہہ دیا کہ آنول تو کلیجہ میں چپک کر رہ گئی ہے، اب میرے بس کی نہیں، بے چاری کو ہسپتال لے گئے۔ وہاں میموں نے نکالی لیکن بواسنا ہے کہ کلیجہ بھی ساتھ ہی نکل آیا۔ تین دن میں مر گئی۔ دو چھوٹے چھوٹے بچے۔‘‘
’’میری نند کی آنول بھی ڈاکٹرنی نے آن کر نکالی۔ بیمار تو وہ بہت ہوئیں لیکن بچ گئیں۔‘‘
دائی، ڈاکٹرنیوں، میموں کے نام سن کر خاموش نہ رہ سکی، ایک دم جھنجھلا کر بولی ’’کسی کی ایسی زبان ہو، یہ وخت ایسی بدفالیں نکالنے کا ہے، میم، ڈاکٹرنی کوئی بات ہی نہیں، ارے ذرا دیکھو تو بڑی بیگم۔‘‘
’’اے ہاں سچ تو ہے، قیصر اس وقت تو کوئی اور ذکر چھیڑو۔‘‘ بڑی بیگم نے کہا ’’ارے ہاں‘‘ دائی نے کھج کر کہا ’’عائشہ بیوی دباؤ بھینچ کر پیٹ کو! وہ آنول آ رہی ہے! عائشہ بیگم جو پیٹ کو پہلے ہی روز سے دبائے تھیں مٹھیاں آدھی کھڑی ہو کر پورا دم لگا کر بہن کا پیٹ بھینچنے لگیں۔ زچہ تڑپ گئی اور چیخ پڑی۔ ہے ہے آپا خدا کے لئے بس کرو۔ میرا تو دم نکلا۔!
’’اے بس لو چھٹی ہوئی۔‘‘
دائی نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا۔ ’’اے لو بڑی بیگم دیکھ لو، پوری ہے پوری پھر بعد میں نہ کہہ دینا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے آنول آصف جہاں کی طرف بڑھائی اور پھر جتنی عورتیں تھیں سب نے باری باری دیکھی اور اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’اے ہے بیوی! ابھی سے پیٹ ڈھیلا نہ کرو، خون بہت نکل رہا ہے ذرا کس کے پکڑے رہو!‘‘ دائی نے کہا۔
عائشہ نے بھر پور زور لگا دیا۔
’’نال کاٹ لوں، اتنے میں خون رک جائے گا۔‘‘ یہ کہہ کر پھر پاؤں کے انگوٹھے سے ڈنڈی پکڑی اور اس کو پھر زور زور سے سوتنا شروع کیا۔ پھر ایک کچے ڈور سے جو پاس ہی پلنگ پر بڑی دیر سے پڑا تھا۔ نال باندھ کر پھر ادھر ادھر نگاہ پھرا کر ایک زنگیایا ہوا چاقو نیچے سے اٹھا کر نال کاٹ دی۔ آنول کونڈے میں ڈالی۔ گودڑ زچہ کے نیچے سے نکل کر اس کو صاف کیا، خون اب بھی زیادہ مقدار میں جاری تھا۔ مسیتن اب ایک فاتحانہ انداز سے پلنگ سے اتریں۔ کھڑے ہو کر ایک انگڑائی۔ ’’اے ہے بڑی بیگم تم ہٹ جاؤ تم سے یہ نہیں اٹھیں گی۔ صابرہ بیوی تم اور قیصرہ آ جاؤ۔‘‘ صابرہ اور قیصرہ نے نیچے ہاتھ ڈالا اور زچہ کی ہائے وائے کی پرواہ نہ کر کے اس کی کمر کو کوئی آٹھ انچ اونچا اٹھا لیا اور مسیتن نے ایک چھ گز لمبی پٹی کو زچہ کے پیڑو پر ادھر سے ادھر لپیٹنا شروع کیا۔ خون اب کچھ کم ہو گیا تھا لیکن کبریٰ اب ایک دھلے ہوئے کپڑے کی مانند سفید اور دھجی کی طرح لاغر ہو چکی تھیں۔ بچہ ہو گیا۔ آنول گر گئی۔ اب اللہ اپنا فضل کرے گا تو طاقت بھی آ جائے گی۔
اب آصف جہاں بچی کی طرح متوجہ ہوئیں اور لڑکی کا منہ دیکھا اور بولیں۔
’’سانولی ہے!‘‘
’’اے شکر کرو، بھائی جان کہ تمہارے نصیب سے لڑکی ہی ہو گئی۔‘‘
’’اے اس کا کیا ذکر ہے اگر کانی بھی ہوتی تو کیا میں چھوڑ دیتی، اے مسیتن اب بچی کو نہلاؤ گی یا نہیں!‘‘
مسیتن نے بچی کو نہلایا اور آصف جہاں کے اصرار پر لڑکی کو ان کو دینے سے انکار کر دیا۔ ’’بیوی بڑی منتوں کی ہے، میں یوں نہ دوں گی۔ میرا حق پہلے دو۔‘‘ ’’اے لو، یہ کون سا نیا دستور تم نے نکالا ہے جو تمہارا حق ہے وہ میں پہلے ہی آنول کے کونڈے میں ڈال چکی۔‘‘
مستین دانٹ پھاڑ کر بولیں۔ ’’اللہ قسم، اچھا کیا ہے!‘‘
’’پانچ روپیہ ہیں اور کیا ہوتے؟‘‘
’’خدا کی قسم بڑی بیگم، پانچ روپیہ تو میں ہرگز نہیں لوں گی۔‘‘
’’اے کچھ دیوانی ہوئی ہو مسیتن۔ لوگ تو کونڈے میں منگنی کا ٹکا ڈالتے ہیں۔ یہ کوئی نیگ کا وقت ہے۔جب بیاہ ہوگا تو لینا۔‘‘
’’ہاں بیوی ٹھیک کہتی ہو! میں ان کےبیاہ تک تو ضرور بیٹھی رہوں گی۔ تم بیویاں چاہے لاکھ اٹھا دو لیکن حقداروں کو دیتے ہوئے ہمیشہ قانون چھانٹتی ہو، بھنگن لے لے گل شبو لے لے، جس کا دل چاہے لےلے، میں تو بیوی یہ پانچ روپیہ ہرگز نہ لوں گی۔‘‘
مسیتن ان کی خاندانی دائی تھی۔ سب اس کے ہاتھوں کے پیدا تھے۔ لڑ جھگڑ لیتی تھی۔ آصف جہاں نے بٹوہ کھول کر دو روپیہ اور ڈال دیئے۔ مسیتن جس کو پانچ کی اور امید تھی۔ دو لے کر کچھ زیادہ خوش تو نہ ہوئی۔ ہاں سب دھو کر اپنے بٹوے میں رکھ لئے، پھر جتنی بیویاں وہاں موجود تھیں، سب نے کچھ نہ کچھ مستین کو دیا۔ کسی نے اٹھنی کسی نے روپیہ۔ مسیتن نے کونڈا اٹھا کر کبریٰ بیگم سے کہا۔ ’’دلہن خدا کی قسم یہ بیٹی بیٹوں سے زیادہ منتوں مرادوں کی ہے، خدا کی قسم سونے کے کڑے لئے بغیر میں نہ مانوں گی۔‘‘
’’اے واہ کبریٰ نے کس دن لڑکی کی منت مانی تھی جو لینا ہے بھابی جان سے لو، جنہوں نے بہو کے لئے منتیں مانی تھیں، ہم تو وہی دیں گے جو اور بیٹوں کی پیدائش پر تم کو ملتا ہے۔‘‘ عائشہ بیگم نے مسیتن کو جواب دیا۔
’’سن رہی ہو بڑی بیگم‘‘ مسیتن نے آصف جہاں کو مخاطب کیا۔
’’اے اب تم جاؤ نہ ہاتھ منہ دھو، پان وان کھاؤ، تمہیں تو بس لاؤ، لاؤ کی پڑی رہتی ہے۔‘‘ عائشہ بیگم نے تڑخ کر مسیتن سے کہا۔
عائشہ بیگم بہت طرار تھیں۔ بہن سے فارغ ہو کر انہوں نے ڈو منیوں کو بلا بھیجا۔ گھر میں شور و غل کی پہلے ہی کیا کمی تھی، اب تو ڈھول اور گانےنے ایک کہرام مچا دیا۔ چھیڑ چھاڑ شور وغل میں زچہ کے آرام و نیند کا کسی کو بھی خیال نہ تھا، سب عورتیں آصف جہاں اور آپس میں ایک دوسرے کو چھیڑتی رہیں۔ ڈومنیوں سے زچہ گیریاں، سہاگ گالیاں سب کچھ گوایا۔ زچہ خانے کی نقلیں ڈومنیاں پیٹ پھلا پھلا کر کر رہی تھیں۔ ’’اے جی کون سا لاگا؟‘‘ ایک جو میاں بنی تھی سوال کرتی تھی اور بیوی ’’ساتواں لاگا یا آٹھواں لاگا۔‘‘ میں جواب دیتی تھی۔ کنواری لڑکیاں جو بچہ کے پیدائش تک ایک دوسرے دالان میں جمع کر دی گئیں تھیں۔ اب آزادی سے سارے گھر میں آ جا سکتی تھیں۔ بیویوں کا تو کہنا ہی کیا۔ اکثر لڑکے بھی دیوان خانے میں آ کر جمع ہو گئے تھے۔ 12 سال کے دولہا صاحب بھی انہیں بچوں کے جھرمٹ میں سے پیچھے آدھے دبکے بیٹھے سب سن رہے تھے کہ ان پر ان کی ایک رشتہ کی بہن کی نگاہ پڑی۔ انہوں نے لپک کر انہیں پکڑ لیا۔ ’’لو دیکھو دولہا صاحب بھی خیر سے بیٹھے سن رہے ہیں۔‘‘ ایک قہقہہ پڑا۔ دولہا صاحب نے گرفت چھڑانے کے لئے بہت ہاتھ پاؤں مارے۔
’’چھوڑ دیجئے باجی، چھوڑ دیجئے ہمیں‘‘ جب وہ ڈیوڑھی کی طرف بھاگنے لگے تو باجی ان کے پیچھے زور سے چلائیں۔
’’اے کیسے دولہا ہو ذرا اندر چل کر تو دیکھو کیسی چاند سی دلہن ہے؟‘‘
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |