آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے
by اصغر گونڈوی

آشوب حسن کی بھی کوئی داستاں رہے
مٹنے کو یوں مٹیں کہ ابد تک نشاں رہے

طوف حرم میں یا سر کوئے بتاں رہے
اک برق اضطراب رہے ہم جہاں رہے

ان کی تجلیوں کا بھی کوئی نشاں رہے
ہر ذرہ میری خاک کا آتش بجاں رہے

کیا کیا ہیں درد عشق کی فتنہ طرازیاں
ہم التفات خاص سے بھی بدگماں رہے

میرے سرشک خوں میں ہے رنگینئ حیات
یا رب فضائے حسن ابد تک جواں رہے

میں رازدار حسن ہوں تم رازدار عشق
لیکن یہ امتیاز بھی کیوں درمیاں رہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse