آشنا کوئی باوفا نہ ملا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آشنا کوئی باوفا نہ ملا
by امداد علی بحر

آشنا کوئی باوفا نہ ملا
کشتئ دل کا ناخدا نہ ملا

جائے مرہم نمک چھڑکنا تھا
زخم کھانے کا کچھ مزا نہ ملا

اس کے کوچے میں ایسے بھولے ہم
گھر کے جانے کا راستہ نہ ملا

دل دیا جس کو رنج ہے پایا
کوئی دل دار باوفا نہ ملا

زندگی تلخ ہو گئی اپنی
تجھ سے ملنے کا کچھ مزا نہ ملا

دیکھ لی ہم نے دوستی تیری
ہم سے اب آنکھ بے وفا نہ ملا

کچھ اجارہ نہیں بنے نہ بنے
کیا شکایت ہے دل ملا نہ ملا

آسماں پر دماغ یار رہا
کبھی جھک کر وہ مہ لقا نہ ملا

بوسۂ لب کی تم سے کیا امید
ایک بیڑا بھی پان کا نہ ملا

ڈھونڈھتی ہیں کنشت میں جا کر
شیخ کعبے میں تو خدا نہ ملا

ایک اک کو پلائے دو دو جام
درد بھی ہم کو ساقیا نہ ملا

نقل کب اصل کی مقابل ہے
اس کے چہرے سے آ بنا نہ ملا

نظر آئی جو وہ دہن تو کہوں
مجھ کو عنقا کا آشیانہ ملا

جن کو تکیہ تھا اپنی مسند پر
ان کو دیکھا کہ بوریا نہ ملا

بحرؔ نکلے تھے ڈھونڈھنے اس کو
ایسے کھوئے گئے پتا نہ ملا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse