آشنا جو مزہ کا ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آشنا جو مزہ کا ہوتا ہے
by میر اثر

آشنا جو مزہ کا ہوتا ہے
اپنے حق میں وہ کانٹے بوتا ہے

شیخ جی ایک روز مجھ کو اثرؔ
لگے کہنے عبث تو روتا ہے

ان بتوں کے لئے خدا نہ کرے
دین و دل یوں کوئی بھی کھوتا ہے

نہ تجھے دن کو چین ہے اک آن
ایک دم رات کو نہ سوتا ہے

میں کہا خوب سن کے اے ناداں
جا مشیخت کو کیوں ڈبوتا ہے

تو ہے ملاں تری بلا جانے
عاشقی میں جو کچھ کہ ہوتا ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.