آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ  (1929) 
by رادھے شیام رستوگی احقر

آسماں پر ہے دماغ اس کا خود آرائی کے ساتھ
ماہ کو تولے گا شاید اپنی رعنائی کے ساتھ

سیر کر عالم کی غافل دیدنی ہے یہ طلسم
لطف ہے ان دونوں آنکھوں کا تو بینائی کے ساتھ

دل کہیں ہے جاں کہیں ہے میں کہیں آنکھیں کہیں
دوستی اچھی نہیں محبوب ہرجائی کے ساتھ

اس میں ذکر یار ہے اس میں خیال یار ہے
اپنی خاموشی بھی ہم پلہ ہے گویائی کے ساتھ

عہد پیری میں وہ عالم نوجوانی کا کہاں
ولولے جاتے رہے ساری توانائی کے ساتھ

دیدۂ آہو کہاں وہ انکھڑیاں کالی کہاں
کیا مقابل کیجیے شہری کو صحرائی کے ساتھ

دل نہیں گرگ بغل ہے ضبط سے خوں کر اسے
کار دشمن کرتے ہیں اے دوست دانائی کے ساتھ

ایک بوسہ پر گریباں گیر اے ناداں نہ ہو
تیری رسوائی بھی ہے عاشق کی رسوائی کے ساتھ

دل تو دیوانہ ہے احقرؔ تو بھی دیوانہ نہ ہو
کوئی سودائی بنا کرتا ہے سودائی کے ساتھ

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse