آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے
by مجاز لکھنوی

آسماں تک جو نالہ پہنچا ہے
دل کی گہرائیوں سے نکلا ہے

میری نظروں میں حشر بھی کیا ہے
میں نے ان کا جلال دیکھا ہے

جلوۂ طور خواب موسیٰ ہے
کس نے دیکھا ہے کس کو دیکھا ہے

ہائے انجام اس سفینے کا
ناخدا نے جسے ڈبویا ہے

آہ کیا دل میں اب لہو بھی نہیں
آج اشکوں کا رنگ پھیکا ہے

جب بھی آنکھیں ملیں ان آنکھوں سے
دل نے دل کا مزاج پوچھا ہے

وہ جوانی کہ تھی حریف طرب
آج برباد جام و صہبا ہے

کون اٹھ کر چلا مقابل سے
جس طرف دیکھیے اندھیرا ہے

پھر مری آنکھ ہو گئی نمناک
پھر کسی نے مزاج پوچھا ہے

سچ تو یہ ہے مجازؔ کی دنیا
حسن اور عشق کے سوا کیا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse