آزمایا ہے مدام آپ کو بس بس اجی بس

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آزمایا ہے مدام آپ کو بس بس اجی بس
by داغ دہلوی

آزمایا ہے مدام آپ کو بس بس اجی بس
دونوں ہاتھوں سے سلام آپ کو بس بس اجی بس

آپ کی بندہ نوازی ہے جہاں میں مشہور
جانتا ہے یہ غلام آپ کو بس بس اجی بس

منہ نہ کھلوایئے میرا یوں ہی رہنے دیجے
یاد بھی ہے وہ کلام آپ کو بس بس اجی بس

ہم نے کل دیکھ لیا دیکھ لیا دیکھ لیا
کہیں جاتے سر شام آپ کو بس بس اجی بس

پیجیے خون جگر اپنا جناب زاہد
بادہ و ساغر و جام آپ کو بس بس اجی بس

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse