آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو
Appearance
آزاد اس سے ہیں کہ بیاباں ہی کیوں نہ ہو
پھاڑیں گے جیب گوشۂ زنداں ہی کیوں نہ ہو
ہو شغل کوئی جی کے بہلنے کے واسطے
راحت فزا ہے نالہ و فغاں ہی کیوں نہ ہو
سودائے زلف یار سے باز آئیں گے نہ ہم
مجموعۂ حواس پریشاں ہی کیوں نہ ہو
احسان تیر یار ادا ہو سکے گا کیا
جان اپنی نذر لذت پیکاں ہی کیوں نہ ہو
جیتے رہیں گے وعدۂ صبر آزما پہ ہم
عمر اپنی مثل وقت گریزاں ہی کیوں نہ ہو
وحشتؔ رکیں نہ ہاتھ سر حشر دیکھنا
اس فتنہ خو کا گوشۂ داماں ہی کیوں نہ ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |