آریوں کی پہلی آمد ہندوستان میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آریوں کی پہلی آمد ہندوستان میں
by وحید الدین سلیم

وہ دیکھ کہ موجیں رقص کناں ہیں سطح زمیں پر گنگا کی
نو وارد آریہ حیرت میں ہیں دیکھ کے شان اس دریا کی
گنگوتری سے آتی ہے چلی اٹھکھیلیاں کرتی دھار اس کی
آزادی ہے تیور سے عیاں متوالی ہے رفتار اس کی

اتر کی طرف جب اٹھتی ہے اس قافلۂ مغرب کی نظر
پڑتی ہوئی کرنیں سورج کی ہیں دیکھتے برف کے تودوں پر
ہر قلۂ کوہ ہمالیہ پر عظمت کے ہیں بادل چھائے ہوئے
سینوں کو ہیں تانے دیو کھڑے امبر سے سروں کو ملائے

برگد کے درختوں سے جنگل پھیلے ہیں پہاڑ کے دامن میں
شاخیں ہیں جو ان کی سایہ فگن ظلمت کا سماں ہے ہر بن میں
پھرتے ہیں وہ فیل مست یہاں ہے دیو کا جن کے قد پہ گماں
یہ کالی گھٹا جب دوڑتی ہے آتا ہے نظر ہیبت کا سماں

ہیں رنگ برنگ کے پھول کھلے زینت ہے چمن کے شباب ان کا
کھولا ہے نسیم سحر نے ابھی کس شان سے بند نقاب ان کا
آتے ہیں مسافر ہند میں جو خیبر کے دروں سے اتر کے ابھی
دیکھے تھے انہوں نے لالہ و گل پامیر کی وادی میں نہ کبھی

طائر بھی یہاں پیدا ہیں کیے قدرت نے عجب گل رنگ و حسیں
گر زمزمے ان کی روشنی سن لیں یاد آئے انہیں فردوس بریں
اندر کے اکھاڑے کی پریاں گاتی ہیں جو دلکش راگنیاں
یہ لوچ سروں میں ان کے نہیں یہ سوز گلوں میں ان کے کہاں

سورج کی چمکتی ہوئی کرنیں ہیں چھیڑتی ٹھنڈی ہواؤں کو
بھر دیتی ہیں نور و حرارت سے باغوں کو اور ان کی فضاؤں کو
سوتی ہوئی سوتیں چشموں کی اٹھتی ہیں سب آنکھیں مل مل کر
دھاریں ہیں جو برف کے پانی کی آتی ہیں پہاڑوں سے چل کر

اے آریوں قدم رکھو ان حسن بھرے گلزاروں میں
جنت کے مزے لوٹو گے سدا اس پاک زمیں کی بہاروں میں
تم گنگ و جمن کے کناروں پر شہر اپنے نئے آباد کرو
گا گا کے بھجن کر کر کے ہون ہو جاؤ مگن دل شاد کرو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse