آرزو ہے وفا کرے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آرزو ہے وفا کرے کوئی
by داغ دہلوی

آرزو ہے وفا کرے کوئی
جی نہ چاہے تو کیا کرے کوئی

گر مرض ہو دوا کرے کوئی
مرنے والے کا کیا کرے کوئی

کوستے ہیں جلے ہوئے کیا کیا
اپنے حق میں دعا کرے کوئی

ان سے سب اپنی اپنی کہتے ہیں
میرا مطلب ادا کرے کوئی

چاہ سے آپ کو تو نفرت ہے
مجھ کو چاہے خدا کرے کوئی

اس گلے کو گلہ نہیں کہتے
گر مزے کا گلا کرے کوئی

یہ ملی داد رنج فرقت کی
اور دل کا کہا کرے کوئی

تم سراپا ہو صورت تصویر
تم سے پھر بات کیا کرے کوئی

کہتے ہیں ہم نہیں خدائے کریم
کیوں ہماری خطا کرے کوئی

جس میں لاکھوں برس کی حوریں ہوں
ایسی جنت کو کیا کرے کوئی

اس جفا پر تمہیں تمنا ہے
کہ مری التجا کرے کوئی

منہ لگاتے ہی داغؔ اترایا
لطف ہے پھر جفا کرے کوئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse