آرزو ہے میں رکھوں تیرے قدم پر گر جبیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آرزو ہے میں رکھوں تیرے قدم پر گر جبیں
by تاباں عبد الحی

آرزو ہے میں رکھوں تیرے قدم پر گر جبیں
تو اٹھاوے ناز سے ظالم لگا ٹھوکر جبیں

اپنے گھر میں تو بہت پٹکا پہ کچھ حاصل نہیں
اب کے جی میں ہے تری چوکھٹ پہ روؤں دھر جبیں

جیسی پیشانی تری ہے اے مرے خورشید رو
چاند کی ہے روشنی میں اس سے کب بہتر جبیں

شیخ آ جلوہ خدا کا میکدے میں ہے مرے
کیوں رگڑتا ہے عبث کعبہ کے تو در پر جبیں

کیا کروں تیرے قدم تک تو نہیں ہے دسترس
نقش پا ہی پر ترے ملتا ہوں میں اکثر جبیں

شیخ گر شیطان سے صورت نہیں ملتی تری
بس بتا داغی ہوئی ہے کس طرح یکسر جبیں

ہے کسی کی بھی تری سے اوندھی پیشانی بھلا
دیکھ تو اے شوخ اپنی آئنہ لے کر جبیں

آ کے جن ہاتھوں سے ملتا تھا ترے تلووں کے تئیں
پیٹتا ہوں اب انہیں ہاتھوں سے میں اکثر جبیں

بوجھ کر نقش قدم کو تیرے محراب دعا
مانگتا ہوں میں مراد دل کو رکھ اس پر جبیں

چاند کا مکھڑا ہے یا آئینہ یا مصحف کا لوح
یا تری ہے اے مرے رشک مہ و اختر جبیں

صاف دل تاباںؔ مکدر ہی کبھو ہوتا نہیں
آئینہ کی ہے گی روشن دیکھ لے یکسر جبیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse