آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا
by مضطر خیرآبادی

آرزو دل میں بنائے ہوئے گھر ہے بھی تو کیا
اس سے کچھ کام بھی نکلے یہ اگر ہے بھی تو کیا

نہ وہ پوچھے نہ دوا دے نہ وہ دیکھے نہ وہ آئے
درد دل ہے بھی تو کیا درد جگر ہے بھی تو کیا

آپ سے مجھ کو محبت جو نہیں ہے نہ سہی
اور بقول آپ کے ہونے کو اگر ہے بھی تو کیا

دیر ہی کیا ہے حسینوں کی نگاہیں پھرتے
مجھ پہ دو دن کو عنایت کی نظر ہے بھی تو کیا

صبح تک کون جئے گا شب تنہائی میں
دل ناداں تجھے امید سحر ہے بھی تو کیا

میں بدستور جلوں گا یہ نہ ہوگی مضطرؔ
میری ساتھی شب غم شمع سحر ہے بھی تو کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse