آرزو بھی تو کر نہیں آتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آرزو بھی تو کر نہیں آتی
by ریاض خیرآبادی

آرزو بھی تو کر نہیں آتی
دل میں ہے ہونٹھ پر نہیں آتی

وصل کی رات کے سوا کوئی شام
ساتھ لے کر سحر نہیں آتی

چلی جاتی ہے ان کے گھر مری نیند
جا کے پھر رات بھر نہیں آتی

وہ مجھے کوستے ہیں او تاثیر
عرش سے تو اتر نہیں آتی

پہلے آتی تھی اے قفس والو
اب صبا بھی ادھر نہیں آتی

چپ کھڑے ہیں وہ پیش داور حشر
بھولے ہیں بات کر نہیں آتی

کبھی آ جاتی تھی مقدر پر
اب ہنسی ہونٹھ پر نہیں آتی

ارے واعظ ڈرا نہ تو اتنا
کیا اسے درگزر نہیں آتی

جب تک آئے نہ کوئی چاند سی شکل
شب مہ میرے گھر نہیں آتی

حشر کے دن بھی داغ دامن میں
شرم اے چشم تر نہیں آتی

کمر ان کی بہت ہی نازک ہے
زلف بھی تا کمر نہیں آتی

غم ہیں راہ جنوں میں اہل جنوں
ہیں مگر کچھ خبر نہیں آتی

آپ کو اپنی آرسی کے سوا
اچھی صورت نظر نہیں آتی

شرم آتی ہے دل میں سو سو بار
توبہ لب پر مگر نہیں آتی

وائے قسمت کہ بیکسی بھی ریاضؔ
اب مری قبر پر نہیں آتی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse