آرام کے تھے ساتھی کیا کیا جب وقت پڑا تو کوئی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آرام کے تھے ساتھی کیا کیا جب وقت پڑا تو کوئی نہیں
by آرزو لکھنوی

آرام کے تھے ساتھی کیا کیا جب وقت پڑا تو کوئی نہیں
سب دوست ہیں اپنے مطلب کے دنیا میں کسی کا کوئی نہیں

گلگشت میں دامن منہ پہ نہ لو نرگس سے حیا کیا ہے تم کو
اس آنکھ سے پردہ کرتے ہو جس آنکھ میں پردا کوئی نہیں

جو باغ تھا کل پھولوں سے بھرا اٹکھیلیوں سے چلتی تھی صبا
اب سنبل و گل کا ذکر تو کیا خاک اڑتی ہے اس جا کوئی نہیں

کل جن کو اندھیرے سے تھا حذر رہتا تھا چراغاں پیش نظر
اک شمع جلا دے تربت پر جز داغ اب اتنا کوئی نہیں

جب بند ہوئیں آنکھیں تو کھلا دو روز کا تھا سارا جھگڑا
تخت اس کا نہ اب ہے تاج اس کا اسکندر و دارا کوئی نہیں

قتال جہاں معشوق جو تھے سونے پڑے ہیں مرقد ان کے
یا مرنے والے لاکھوں تھے یا رونے والا کوئی نہیں

اے آرزوؔ اب تک اتنا پتا چلتا ہے تری بربادی کا
جس سے نہ بگولے ہوں پیدا اس طرح کا صحرا کوئی نہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse