آرام پھر کہاں ہے جو ہو دل میں جائے حرص

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آرام پھر کہاں ہے جو ہو دل میں جائے حرص
by مرزا محمد رفیع سودا

آرام پھر کہاں ہے جو ہو دل میں جائے حرص
آسودہ زیر خاک نہیں آشنائے حرص

ممکن نہیں ہے یہ کہ بھرے کاسۂ طمع
دن میں کروڑ گھر جو پھرا دے گدائے حرص

انساں نہ ہوں ذلیل زمانے کے ہاتھ سے
ذلت کسی کو کوئی نہ دیوے سوائے حرص

کر منہ کو ٹک بسوے قناعت یہ حرف مان
رہتی ہے لاکھ طرح کی آفت قفائے حرص

ناداں تلاش طرۂ زر سے تو باز آ
جوں شمع یہ نہ ہو کہ ترا سر کٹائے حرص

اپنے سوا کسی کو نہ پایا حریف حیف
کی قطع روزگار نے ہم پر قبائے حرص

سوداؔ بسر ہو خوبی سے اوقات ہر طرح
پر درمیاں نہ ہووے بشرطیکہ پائے حرص

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse