آراستگی بڑی جلا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آراستگی بڑی جلا ہے
by امداد علی بحر

آراستگی بڑی جلا ہے
پتھر کی بغل میں آئنہ ہے

مجھ کو یہی آپ سے گلا ہے
پوچھا نہ کبھی کہ حال کیا ہے

اللہ رے حسن کی لگاوٹ
داؤد رقیب اور یا ہے

کھوٹے ہیں طلائی رنگ والے
اس سونے کو بارہا کسا ہے

بالوں کے گھٹا تلے ہیں جھالے
مینہ موتیوں کا برس رہا ہے

تقدیر میں آگ لگی گئی ہے
عالم سے جگر جلا بھنا ہے

پیری میں ہے حرف زندگی پر
جو قد خمیدہ ہے وہ لا ہے

پیتے ہیں شراب ما بدولت
ساقی بط مے نہیں ہما ہے

میں دوڑ رہا ہوں اس کے پیچھے
جو سائے سے اپنے بھاگتا ہے

بیمار ہوں خوب صورتوں کا
حسن یوسف مری دوا ہے

باریک کمر ہے کیا ہی اس کی
تلوار میں بال آ گیا ہے

بھوؤں پر جو دوپٹے کا ہے لچکا
پٹھا تلوار پر چرا ہے

کمرے کا کھلا ہے در سر راہ
معشوق بغل میں ہے یہ کیا ہے

کیوں ہوتے ہو بحرؔ طشت از بام
چلمن چھوڑوا دو سامنا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse