Jump to content

آدھ گھنٹہ علامہ شبلی کے ساتھ

From Wikisource
آدھ گھنٹہ علامہ شبلی کے ساتھ
by مہدی افادی
319482آدھ گھنٹہ علامہ شبلی کے ساتھمہدی افادی

فاضل عصر پروفیسر کی تالیف جدید یعنی مولانا رومؒ کی لائف، جس کے لئے مدت سے آنکھیں فرش راہ تھیں، گھونگھٹ سے باہر آئی اور اس طرح کہ، ’’عروس جمیل و لباس حریر۔‘‘

یورپ میں جہاں مذاق حسن پرستی، یعنی ایک طرح کے تناسب اجزا کی رعایت قریب قریب ہر شخص کا خمیر ہو رہی ہے۔ جہاں شائقین کی نگاہیں کہربائی روشنی میں جیتی جاگتی، ’’زہرہ ہائے شب‘‘ کے مقیاس الشباب اور اس کے برہنہ حصہ افقی کے جائزہ کے لئے وقف رہتی ہیں، ایک سنجیدہ طبقہ ایسا بھی ہے جو کتابوں کو علمی حرم کی حیثیت سے دیکھتا ہے اور ان کا دلدادہ ہے۔ اس کے خیال میں کسی کتب خانہ کا ایک گوشہ جہاں اس کی منظور نظر نازنینوں کا جھرمٹ ہو، اور جو ہمیشہ اس کی فرصت اور مرضی کی منتظر رہتی ہوں، اس شاہی محل سے کہیں بڑھ کر ہے جس کے لوازم عیش صرف دور سے دیکھنے کی چیز ہیں۔

بہرحال ایک ایسا گروہ موجود ہے جو علمی دنیا میں درجہ استغراق رکھتا ہے اور زمانہ کے سردو گرم سے قطعاً بے پروا ہے۔ اس کا دائرہ مخصوص خود ایک دنیا ہے جہاں ایسے سامانوں کی کمی نہیں جن سے قوت احساس ہر طرح کی لذت و انبساط حاصل کرتی رہتی ہے، اسی طبقہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی نفاست اس حد تک بڑھی ہوئی ہے کہ وہ معمولی مطبوعات کو پسند نہیں کرتے اور چیدہ چیدہ کتابوں کے خاص خاص ایڈیشن چھپوائے جاتے ہیں۔ حال میں ’رباعیات عمرخیام‘ کا ایک ایڈیشن اسی اصول پر ایک جماعت محدود یعنی صرف دو سو صاحبوں کے لئے چھاپا گیا ہے، جس کی اشاعت صرف ممبروں تک محدود ہے اور جس کا ایک قیمتی نسخہ خوش نصیبی سے آج کل میرے مطالعہ میں ہے۔

ہندوستان میں اس قسم کے معزز شواہد کی اولیت کا فخر صرف ’نامی پریس‘ کانپور کو حاصل ہے۔ جس کا ذکر ایک دفعہ آچکا ہے، اسی طرح طبقہ اعلیٰ کے مصنفین میں علامہ شبلی کی تصنیفات کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کا بہتر سے بہتر ایڈیشن جو کسی نفیس پسند کے خیال میں آ سکتا ہے، اکثر لائق حصول ہوتا ہے۔ موجودہ کتاب کی جلد خاصہ میرے دعویٰ کے ثبوت میں ہے اور میرا خیال ہے ملک میں آج تک اس سے بہتر ایڈیشن کسی کتاب کا شائع نہیں ہوا۔ قاعدہ ہے لفافہ اچھا ہے توملفوف کو اس سے کہیں زیادہ اچھا ہونا چاہئے۔ اور گو میں اس وقت جو کچھ کہنا چاہتا ہوں وہ صرف تازہ وارد یعنی ’تقریظ مثنوی‘ کے خیرمقدم کی حیثیت سے ایک فوری جوش کا اظہار ہوگا۔ تنقید یعنی مولانا رومؒ کے ساتھ علامہ شبلی پر قلم اٹھانا فرصت و لیاقت کا کام ہے جسے ملک کے فاضل تر اصحاب کے لئے چھوڑتا ہوں، اس میں میرا پردہ رہا جاتا ہے اور ساتھ ہی سرسری طورپر کچھ نہ کچھ کہہ جاؤں گا جس میں ذمہ داری ہاتھ دھوکر پیچھے نہیں پڑے گی۔

’’سوانح روم‘‘ علامہ شبلی کی تالیفات میں (بشمول دیوان فارسی ) سلسلہ میں دسویں جلد ہے۔ موضوع سخن اوراس لحاظ سے کہ انہوں نے اپنے ملکہ راسخہ یعنی فطری قوت تصنیف سے آج تک وہی کام لیا جو ان کے دل و دماغ کا اچھے سے اچھا مصرف ہو سکتا تھا۔ ملک کے مصنفین میں یہ سرفہرست تو تھے ہی، میں دیکھتا ہوں اب بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ تاریخ کو اس لحاظ سے کہ وقت کی چیز ہے، اپنا خاص فن قرار دیا اور ترتیباً جس پیمانہ پر یہ اظہار خیال کرتے رہے وہ ایک منحرف بھی تسلیم کرےگا کہ ان کی قوتوں کا صحیح سے صحیح استعمال تھا، جو خیال میں آ سکتا ہے۔ ملک کے اچھے لکھنے والوں میں بعض ایک طرح کے دھوبی ہیں یعنی وہ فرمائش سے کچھ نہیں کرتے۔ اچھی سے اچھی تجویز پیش کیجئے لیکن اس لئے لائق التفات نہیں ہوگی کہ وہ ان کے صاف و شفاف دماغ کی گونج نہیں ہے، تاہم وقت آگے چل کر بتائےگا کہ جن دماغوں میں اقتضائے وقت کی غایت اور صحیح قوت فیصلہ نہیں ہے، ان کے نتائج فکر ایک طرح کی وقتی اور خود رو پیداوار ہیں جن کی شادابی صرف ایک موسمی چیز ہے۔

لیکن علامہ شبلی سے ہم کو اس قسم کی شکایت نہیں۔ یہ خودبلا بار تہدید فرمائش جو کچھ کرتے رہتے ہیں وہ ہماری توقعات اور استحقاق سے کہیں زیادہ ہے ان کی مستقل تصنیفات جن کی تعدا داوپر بتائی گئی۱۳۔۲۷ صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں۔ حالتو ں کا موازنہ آج کل کے عوائد الرسمیہ (ایٹی کٹ ) کے مطابق خلاف شائستگی سمجھا جاتا ہے، تاہم یہ تنقید ایک ضروری عنصر ہے لیکن میں اس وقت ان کو ان کے دائرہ کے دوسرے خلاقین نسخے سے ٹکرانا نہیں چاہتا، صرف یہ دکھانا چاہتا ہوں کہ جس طرح یہ اپنے حلقہ میں غالباً سب سے کم عمر مصنف ہیں، ادبی حیثیت سے یہ نسبتاً اتنے بڑھے ہوئے ہیں۔ اس دماغی فوقیت کا راز صرف یہ ہے کہ خوش نصیب شبلی نے اپنی ذہنی اور اکتسابی قوتوں کی رعایت سے جو وسیع موضوع بحث اختیار کیا وہ بلا استثناء اوروں کے دسترس سے باہر تھا، اس سے زیادہ وہ موزونیت لائق رشک ہے جو قواماً ان کے ہر حصہ تصنیف کا ایک خاصہ ہوتی ہے۔

اسلامی تاریخ، فلسفہ اور عقائد کے متعلق جس قدر مواد یہ یکجا کر سکے، قدیم تاریخ کا گو یا نچوڑ ہے، جس سے ایک حد تک تاریخ عربی لٹریچر کی ترتیب ممکن ہے۔ اسلامی تاریخ کے متعلق ایک زمانہ میں یورپ نے جس قدر متعصبانہ رائے قائم کی تھی اب رفتہ رفتہ وہ ان سے دستبردار ہوتا جاتا ہے۔ موجودہ دور میں جو ہر قسم کی دماغی ترقیات کا دور ہے، واقعات کا ایک خاص معیار صداقت قائم ہو گیا ہے۔ ہر واقعہ کی جانچ اجتماعی، اخلاقی، سیاسی حیثیت سے کی جاتی ہے، چنانچہ یورپ کے علمائے مشرقین کی توجہ سے جدید سلسلہ اکتشافات میں اسلام کے متعلق ایک نیا لٹریچر پیدا ہو گیا ہے جس میں ہمدردانہ التفات کے ساتھ ایک طرح کی سنجیدگی اور بلند نظری پائی جاتی ہے، تاہم ان علماء کے خیالات بیشتر حصہ نظرثانی چاہتا ہے۔

میں مثالاً محققین یورپ کے سرخیل یعنی ’’وان کریمر‘‘ کا ذکر کروں گا جس نے ایک رسالہ مختصر الموضوع میں یہ دکھایا ہے کہ اسلام اپنی ترکیب وساخت کے لئے کن کن مذاہب کا ممنون ہے۔ ناظرین عنقریب مفصل اقتباسات دیکھیں گے جس سے اندازہ ہوسکے گا کہ فاضل مورخ نے عمداً استخراج نتائج میں کہاں تک بے پروائی سے کام لیا ہے۔ بہرحال باوصف اس حسن ظن کے جو آج کل کی جماعت مستشرقین کی طرف سے پیدا ہوتا جاتا ہے، اس قسم کی مثالیں کم نہیں ہیں جن میں مغربی علماء کی اجتہادی لغزشیں اب بھی محسوس ہوتی ہیں۔

لیکن پروفیسر شبلی نے جیسا کہ پہلے کسی موقع پر دکھایا گیا ہے ہم کو غیروں سے قریب قریب بے نیاز کر دیا ہے۔ یہ جس طرح قدیم تاریخ و لٹریچر کے جامع ہیں، آج کل کے فلسفیانہ انتقادات اورنکتہ سنجیوں سے آشنا ہی نہیں بلکہ یہ مذاق ان میں اس قدرر چاہو ہے کہ ان کے طے کردہ مسائل جو دنیا کے سامنے پیش کئے گئے ہیں، اس حد تک کامل ہیں کہ میرا خیال ہے زمانہ آئندہ بلکہ بعید آئندہ میں بھی غالباً ان پر کوئی معتدبہ اضافہ نہ ہو سکےگا۔ اسی طرح ان کے اجتہادات کا (جن کو تاریخی الہامات کہنا زیادہ تر موزوں ہوگا ) کوئی حصہ صدیوں بعد بھی متروک ہونے کے لائق نہیں ہوگا۔ اس سے زیاہ شبلی کے غیرفانی ہونے کا ثبوت کیا ہوگا؟

یہ لکھ رہا ہوں اور میری نظر ان کی بہترین تالیف یعنی الکلام کے دونوں حصوں پر ہے اور میں بلاخوف تردید یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر موجودہ نسل کے لئے دماغی اور عقلی ترقی کے ساتھ اخلاقی تکمیل کی بھی ضرورت ہے تو ہم کو ’’الکلام‘‘ کے ہوتے کسی کتاب کی، جو حضرات جدید علم کلام کی ضرورت کا احساس رکھتے ہیں، وہ دیکھیں گے کہ فاضل پروفیسر نے ایک طرف تو بڑے میاں یعنی مذہب کی پگڑی نہیں اتاری اور ساتھ ہی یورپ کے نوخیز چلتے پر زوں یعنی فلسفہ اور سائنس کے سامنے تیرہ سو برس کے بوڑھے سے ہاتھ نہیں جڑوائے بلکہ دونوں میں مصافحہ کرا دیا۔

یہ معتدل روش جو اس علمی نزاع میں اختیار کی گئی ہے، وہ شبلی ہی کا حصہ تھا جو نئے پرانے خیال والوں کے متفق علیہ پیشوائے علمی ہیں۔ ان کی ثقاہت نے جہاں مذہب کی حق تلفی نہیں ہونے دی،سائنس و فلسفہ کی مغائرت بھی دور کردی اور ان کو مذہب کا دست و بازو بنا دیا۔ آئندہ زمانہ میں جب ہماری عقلی ترقیات کا شباب ہوگا، شبلی کو اپنے مساعی جمیلہ کی پوری داد ملے گی۔ تاہم آج کل کا تعلیم یافتہ طبقہ جو عموماً مذہب سے بے پروا ہورہا ہے، مذہب فطری یعنی حکیمانہ اسلام سے دستبردار نہ ہو سکےگا۔ معقول و منقول کی تطبیق کی غایت اس کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے جو شبلی کی درد سری کا بجائے خود ایک قیمتی صلہ ہے۔

خدا جانے میں رومیں کہاں سے کہاں نکل گیا لیکن یہ قصور انشا پردازی نہیں ہے، بلکہ پروفیسر شبلی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ناممکن ہے کہ ان کی ذات کے ساتھ ان کی صفات غالب یعنی جزئیات متعلق سامنے نہ آجائیں۔ اس لئے ان بے ربط خیالات کا اعادہ کچھ ناگزیر سا تھا۔ مختصر یہ کہ جہاں ان کی مؤرخانہ عظمت قطعی الثبوت ہے، ایک خاص امر جس کی طرف ناظرین کو اس وقت متوجہ کرنا منظور ہے، یہ ہے کہ ’’عربی کا یہ فاضل پروفیسر نہایت سخت عجمی ہے۔‘‘ توبہ! کیا کہہ گیا؟ ہاں تو یہ وصف اضافی ان کی عربیت میں اس قدر دب دبا گیا ہے کہ بہتیروں کو یہ بات معلوم نہیں ہوگی کہ دنیا کی سب سے شیریں زبان یعنی فارسی شبلی کی خاص زبان ہے۔ ان کو جس حد تک صحیح مذاق سخن ہے اس کا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو خود اہل زبان ہیں یا کم سے کم ذوق سلیم رکھتے ہیں۔

ہندیوں کی متعارف فارسی ’’بابوانگلش‘‘ کی طرح ایک بالکل جداگانہ چیز ہے جو قریب قریب یہاں سے رخصت ہوچکی ہے اورجس سے میں یہاں کوئی غرض رکھنی نہیں چاہتا۔ میری غرض پروفیسر براؤن کی فارسی سے ہے جو اس قوم کی زندہ یادگار ہے جو بلحاظ گزشتہ عظمت و ترقیات دنیا کی قدیم متمدن اقوام میں خاص تاریخی وقعت رکھتی ہے۔ انگلستان مستشرقانہ مشاغل کے لحاظ سے یورپ کے اور ممالک سے بہت پیچھے ہے۔ تاہم وہاں ایک جماعت موجود ہے جو السنہ مشرقی میں اہل زبان کی سی مہارت رکھتی ہے۔ حال میں پروفیسر براؤن نے ادبی حیثیت سے ’’تاریخ العجم‘‘ لکھی ہے جس کی دو مبسوط اور ضخیم جلدیں اس وقت تک شائع ہو چکی ہیں۔ ’’دور اخمانیان‘‘ یعنی فارسی قدیم کے ساتھ اس نے ’’ساسانیوں‘‘ کے عہد کے لٹریچر یعنی زبان پہلوی کا پورا مرقع کھینچا ہے، جو تمام وکمال گویا ’’زرتشتی‘‘ لٹریچر ہے۔

اس نے نہایت قدیم کتبوں اور تاریخی اسناد سے اس عہد کی علمی معلومات بہم پہنچائی ہیں جس کی یادگار پارسیوں کا صحیفہ غیبی یعنی ’’اوستا‘‘ ہے۔ جس کی تفسیر پہلوی اور شرح الشرح ’’ژند باژند‘‘ ہیں۔ عجمیوں کی ایام جاہلیت کی تاریخ کے بعد جو نہایت عسیرالحصول ماخذوں سے مرتب کی گئی ہے۔ تیسرے دور میں فاتحین اسلام کے تصرفات یعنی عربی کی آمیزش نے زبان پر جو اثر ڈالا ہے، ان جزئیات کی تفصیل کے ساتھ ارتقائی حیثیت سے یہ دکھایا ہے کہ فارسی جدید کس طرح عالم وجود میں آئی، اسی طرح مسلمانوں کی مفصل دماغی تاریخ لکھی ہے اور اس کو متعدد دور میں تقسیم کیا ہے۔ جدت یہ ہے کہ ساتھ ہی ساتھ عجمی عنصر کو الگ کر کے دکھایا گیا ہے۔

پہلی مقدمہ کی حیثیت سے ہے، دوسری میں، جو ابھی شائع ہوئی ہے فردوسی سے لے کر سعدی کے وقت کی لٹریری سرگزشت ہے، جس میں مختلف عہد کے لٹریچر کے ساتھ لگے لپٹے واقعات پر بھی نظر ڈالی گئی ہے جو کسی حیثیت سے تاریخی وقعت رکھتی ہیں۔ پھیلاؤ غضب کا ہے، لکھنے والا سب کچھ سمیٹتا گیا ہے۔ لٹریچر کی تاریخ تواس سے پہلے بھی لکھی گئی ہے لیکن مسلمانوں کی دماغی تاریخ پر قلم اٹھانا، ان اصلی ماخذوں کی چھان بین کے بعد، جو یورپ کی عظیم الشان لائبریریوں میں لائق حصول ہیں، پروفیسر براؤن کا حصہ تھا۔ یہ نمونہ جس کی نظیر انگریزی کے سوا مغربی لٹریچر میں بھی موجود نہیں ہے اپنی ندرت اور دلچسپی کے لحاظ سے ہر طرح پیروی کے لائق ہے۔ لیکن شبلی کے سوا آج ملک میں اسلامی لٹریچر کے متعلق کون اس قسم کی وسیع لٹریری تحقیقات کا ساتھ دے سکتا ہے؟

موجودہ دور میں پروفیسر آزاد کا نام نامی ہمیشہ عزت کے ساتھ یاد رکھنے کے لائق ہے۔ شبلی کے دائرہ میں یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی تحقیقات کی تکمیل ایران میں جاکر کی۔ ان کا ایک بے نظیر رسالہ سخندان پارس (شائع ) ہو چکا ہے۔ لیکن نہایت افسوس ہے کہ دنیا آزاد کے سرمایہ زندگی یعنی جامع اللغات فارسی سے محروم رہ گئی۔ جس کی ترتیب ان کی عمر کا اصلی کارنامہ تھی۔ آزاد کی نکتہ آفرینیاں جن پر خود اہل ایران کو تعجب و رشک ہوتا تھا، تمام علمی دنیا کو حیرت میں ڈال دیتیں، لیکن ملک کی بدنصیبی ہے ایک زبردست ماہر السنہ جیتے جی ہمارے ہاتھ سے جاتا رہا۔ معلوم نہیں اس کے خزائن علمی کا ضروری حصہ اب کہاں تک لائق حصول ہے۔ اسی طرح تذکرۂ شعرائے فارسی میں خدا جانے فرمانروائے سخن نے کیا کچھ لکھا ہوگا لیکن ان دونوں تالیفات کے متعلق کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی۔ دارالاشاعت پنجاب نے ایک حد تک حق رفاقت ادا کیا لیکن اب مدت سے بالکل ساکت ہے۔

جس طرح فارسی کے صحیح ادبی مذاق کا بہت بڑا حصہ آزاد کو ملا تھا، شبلی پر مع شئے زائد اس کا خاتمہ ہو جائےگا۔ اس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں۔ میں دیوان شبلی کو استشہاداً پیش کرنا چاہتا ہوں۔ شستہ، رفتہ کلام کی برجستگی اپنا مرتبہ آپ بتائےگی۔ صاف معلوم ہوتا ہے کہ سچے جذبات میں ڈوبا ہوا شاعر خالص اہل زبان ہے جس کوہند کی ہوا تک نہیں لگی۔ اساتذہ کے ہزاروں اشعار کا نوک زبان اورروزمرہ اورمحاورات کا ناخنوں میں ہونا اضافی امور ہیں۔ جن کو شبلی کی بلند پائگی کے ثبوت میں پیش کرنا ایک مبتدیانہ فعل ہوگا۔ ان کا اصلی فن کچھ اورہے۔ ’’شعرالعجم‘‘ جو آج کل یہ لکھ رہے ہیں، ان کے مذاق سخن کی اصلی جولان گاہ ہوگی جس میں فارسی شاعری کی محققانہ تاریخ اور فلسفہ شاعری کے دقیق رموز پر مفصل بحث ہوگی، جس سے معلوم ہوگا کہ فارسی شاعری کی ابتداء ً کیا حالت تھی، پھر اس نے کیا صورت اختیار کی، کیا کیا تغیرات اور اضافے ہوئے اور اب کس لباس میں جلوہ گر ہے۔

شاعری جیسا کہ عربوں کا خیال تھا صرف کلام موزوں نہیں ہے۔ شعرائے عجم کے خیال کے مطابق صرف تخیل یعنی ایک طرح کے مقدمات موہومہ کی ترتیب کا نام ہے بلکہ جیسا کہ علامہ شبلی نے خود ایک موقع پر تصریح فرمائی ہے، جو چیز مدرکات انسانی میں ہمارے جذبات واحساسات کو برانگیختہ کر سکتی ہے اور ایک خاص طرح کی موزونیت کے ساتھ مصوری اور موسیقی کی جامع ہے، آج اسی پر شاعری کا اطلاق ہو سکتا ہے۔ یہ بحث نہایت دلچسپ ہے، جسے شبلی جو فطری شاعر ہیں، من حیث الفن اچھی طرح سمجھائیں گے۔ ہم کو معلوم ہے کہ یورپ کے دو زبردست مستشرق آج کل تاریخ فارسی لٹریچر لکھ رہے ہیں۔ جن میں سے پروفیسر براؤن کی بے نظیر کتاب کے دو حصے، جن کا ذکر آ چکا ہے، شائع ہو چکے ہیں۔ دوسرے صاحب ڈاکٹر ڈینی سن راس ہیں ان کی فارسیت کا بھی لوہا مانا جاتا ہے۔

مستشرقین یورپ کی ایک خاص طرح کی وسیع النظری میں کلام نہیں۔ یعنی اصول ارتقا نے تحقیقات کے راستے اس قدر صاف کردیے ہیں کہ ہر شے کے مدارج اور طبقات ترتیبی کی کڑیاں ملتی جاتی ہیں۔ لٹریچر بھی اس کلیہ سے مستثنیٰ نہیں۔ تاہم مذاق سخن میں جو ایک ذوقی چیز ہے ان فلسفیانہ اکتشافات سے کوئی مدد نہیں مل سکتی۔ شبلی جو کچھ لکھیں گے آشنائے فن ہوکر لکھیں گے۔ اس لئے ان کی تصنیف موعود (شعر العجم ) میرا خیال ہے معاصرانہ تالیفات سے، جو حسن اتفاق سے ساتھ ساتھ لکھی جا رہی ہیں، بالموازنہ فائق رہے گی۔ بہرحال فارسی شاعری سے پروفیسر شبلی کو جو طبعی مناسبت ہے اور آئندہ جس حد تک یہ کھل کر داد سخن دے سکیں گے اس کی نسبت ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔

میں سردست سوانح مولانا رومؒ کو پیش کرتا ہوں جس میں مثنوی پر مفصل تقریظ کی گئی ہے اور جو شبلی کی طرف سے فارسی لٹریچر کے سلسلہ کی گویا پہلی قسط ہے۔ مثنوی فارسی کی ان چار کتابوں میں ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ مقبول ہوئیں۔ لیکن وہ عموماً ایک تصوف کی کتاب سمجھی جاتی ہے جس کی نسبت عام خیال ہے کہ تمثیلی زبان میں وہ اسرار نہاں بیان کئے گئے ہیں جوصوفیوں میں سینہ بہ سینہ چلے آتے ہیں۔ شبلی نے بالکل ایک جدید حیثیت سے اس مثنوی پر نظر ڈالی ہے یعنی ان کا دعویٰ ہے کہ تصوف یعنی فلسفہ باطنی کے سوا کلام و عقائد کی یہ بہترین تصنیف ہے جو اسلامی لٹریچر کی طرف سے پیش کی جا سکتی ہے اور کچھ شک نہیں کہ تقریظ میں اس قدر شواہد بہم پہنچائے گئے ہیں کہ دعویٰ آپ اپنی دلیل ہو رہا ہے۔

عقائد و کلام کے جس قدر اہم مسائل ہیں، ایک ایک کرکے متفرق عنوانوں کے تحت میں لائے گئے ہیں، اوران پر حکیمانہ استدلال کے ساتھ فاضل مؤلف نے دکھایا ہے کہ یہ تمام مسائل مثنوی سے ماخوذ ہیں۔ ایک ایسی کتاب میں جو سیکڑوں برس پہلے لکھی گئی، اس قسم کے نکات و معارف کا موجود ہونا، جن کا اکتشاف جدید سائنس صدیوں کے مسلسل مطالعہ فطرت اور ارتقائے عقلی کے کرسکا، کہاں تک اس کی معجزبیانی ثابت کرتا ہے۔

شبلی نے ایک طرف کوئی ایسی بات نہیں پیدا کی جس کی طرف خود مولانا رومؒ کا ذہن منتقل نہ ہوا ہو۔ اور ساتھ ہی ان مسائل کو جو مذہبی فلسفہ کی حیثیت سے مثنوی کے اعضائے رئیسہ میں تحلیل کرکے اس طرح دکھا دیا کہ ان کی صحت کا اذعان غالب ہو جاتا ہے اور یہی مسائل فلسفہ کی واقفیت کی اخیر سرحد ہے۔ ان کے مقابلہ میں علامہ نذیراحمد کہاں تک ہم کو اپنے ساتھ رکھ سکیں گے، جب وہ بیسویں صدی کی ایک جدید تالیف میں دعائے صحت خانہ کی تلقین فرماتے ہیں۔ حالانکہ زائچہ کے ساتھ صحت خانہ کا اصلی مصداق بھی باقی نہیں رہا۔ اب ان کی جگہ صاف ستھرے غسل خانوں نے لے رکھی ہے۔

یہ امر بھی توجہ کے لائق ہے کہ فاضل پروفیسر نے تقریظ مثنوی میں جو نئے نئے عنوان قائم کئے ہیں اورجن کی طرف بہتوں کا ذہن اس سے پہلے منتقل نہیں ہوا ہوگا، وہ زیادہ تر ایسے ہیں جن پر اس سے (پہلے ) شبلی کی قوت صرف ہو چکی ہے۔ یعنی الکلام والغزالی میں تفصیل سے ان کا ذکر آ چکا ہے۔ کسی ایسے موضوع پر، جس پر ایک دفعہ زور طبیعت صرف ہو چکا ہے ہو، دوبارہ اس طرح بچ بچ کر قلم اٹھانا کہ کہیں سے تکرار اور اعاد ہ نہ معلوم ہو بلکہ اصلیت کے زورکے ساتھ ہر عنوان اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل اچھوتا ہو، کمال انشا پردازی کی دلیل ہے۔ فاضل شبلی نے مثنوی کی خصوصیات کو تفصیل کے ساتھ دکھایا ہے اورمختلف پہلوؤں سے اس پر نظر ڈالی ہے جس میں تخصیص کے ساتھ لائق ذکر مثنوی کا طرز استدلال اور طریقہ افہام یعنی مولانا نے فطرت کے سلسلہ سے استدلال کیا ہے جو بالکل جدید سائنس کے مطابق ہے۔

مثنوی میں فرضی روایات و حکایات کے ضمن میں، جن میں صرف نتائج سے غرض رکھی گئی ہے، اخلاقی مسائل کی تلقین کا جو طریقہ مدت سے چلا آتا تھا پروفیسر شبلی نے دکھایا ہے کہ مولانا نے اس کو کمال کے مرتبہ تک پہنچا دیا اور چونکہ استدلال میں تمام تر قیاس تمثیلی سے کام لیا گیا ہے، اس لئے مسئلہ زیر بحث کی واقفیت دل میں بیٹھ جاتی ہے یعنی تشبیہات وتمثیلات کے پیرایہ میں اس قسم کے قرائن پیش کئے جاتے ہیں جن سے خیال پیدا ہوتاہے کہ اس واقعہ کی جو صورت بیان کی گئی ہے، زیادہ تر قرین عقل ہے۔ جس سے ایک خاص طرح کی وجدانی کیفیت دل میں پیدا ہوجاتی ہے جو استقرار منطقی سے نہیں ہوسکتی اور جس کو تصوف کی اصلطلاح میں ہم اطمینان ذوقی کہہ سکتے ہیں۔

مختصر یہ کہ مثنوی معنوی میں عارف رومؒ نے جس طرح داد سخن دی ہے اس پر تنقیداً کچھ رائے زنی کرنا میرا منصب نہیں۔ میں تو صرف تقریظ پر تقریظ کرنی چاہتا ہوں یعنی مجھے صرف یہ دکھانا ہے کہ شبلی نے انتقادی حیثیت سے کہاں تک اپنے فرائض سے سبکدوشی حاصل کی۔ اس کے لئے جو کچھ عرض کیا گیا اس کے ساتھ بس اتنا کہنا کافی ہے کہ ’’آفتاب آمد دلیل آفتاب۔‘‘ کتاب کو ایک نظر دیکھ لیجئے، وہ اپنا درجہ آپ بتائے گی لیکن آخر میں اتنا کہنے سے باز نہیں رہ سکتا کہ الہیات کے ضمن میں توحید، نبوت، معجزہ، جبر و قدر، روح، معاد وغیرہ وغیرہ پر جن سلجھے ہوئے اور پاکیزہ خیالات کا اظہار کیا گیا ہے اورموجودات عالم یعنی مادیات اور مجردات کی نازک تفریق اور اس پر منطقی اور فلسفیانہ تفریعات جس لطافت سے کی گئی ہیں، انتقاد کی جان ہیں۔ ہمارے ہاں ردیات تو بہت ہیں لیکن اس طرح علوم قدیمہ وجدیدہ کو ترکیب دے کر کسی نے ست یعنی جوہر نہیں نکالا ہے، صرف فاضل پروفیسر کا حصہ تھا۔

تصوف جیسا کہ اکثر وں کا خیال ہے ایک طرح کا ’’خبط متعارف‘‘ نہیں ہے بلکہ جیسا کہ علامہ شبلی نے تصریح فرمائی ہے، دراصل تصحیح خیال کا نام ہے، جو اخلاق کی طرح فلسفہ کی ایک مستقل شاخ ہے لیکن جس طرح توکل کا مصداق ایک طرح کی گداگری ہو رہا ہے، تصوف کی صورت بھی اتنی بگڑ گئی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیٹ کا ایک مشغلہ رہ گیا ہے، لیکن شبلی نے تصوف پر علمی حیثیت سے نگاہ ڈالی ہے جس سے ہم یہ سمجھ سکے کہ ذوقی اوروجدانی کیفیت کے ساتھ اس میں ادبی پہلو بھی موجود ہے۔ یہ بات ذرا دل لگی یعنی اس گروہ کے مذاق سے ملتی جلتی چیز ہے جو اس کوچہ سے نابلد ہے۔

تصوف کی مفصل تاریخ اور اس کے لفظی اشتقاق و اطلاق کی بحث جس کے متعلق علمائے یورپ اب بھی غلطی کر رہے ہیں ’’الغزالی‘‘ میں مستقل عنوان سے آ چکی ہے، ناظرین اسے اٹھاکر پھر ایک نظر دیکھ لیں۔ تقریظ مثنوی میں جو کچھ لکھا گیا ہے اختصار کے ساتھ ہے لیکن ’’شریعت‘‘ کے ساتھ ’’طریقت‘‘ و ’’حقیقت‘‘ سے جو پردہ اٹھایا گیا ہے اور حدود اقلیدس کی طرح ان اصطلاحات کی جس قدر جامع ومانع تعریف کی گئی ہے وہ بجائے خود ایک چیز ہے اور ضرورت ہے کہ ان کے اطلاقات معناً ہماری روزانہ زندگی کا ایک جزو بن جائیں۔

میرا خیال ہے اب مجھے کچھ اور کہنا نہیں ہے۔ ہاں ایک بات رہ گئی۔ کتاب کے ختم کر لینے کے بعد جو خیال ہوتا ہے کہ مولانا رومؒ کے کلام کا جس قدر استقصا کیا گیا ہے کچھ اس سے زیاہ ہونا تھا لیکن میری رائے اس لئے لائق وثوق نہیں ہے کہ میں چونکہ شبلی کے عالمانہ لٹریچر کا دلدادہ ہوں۔ پہلی بار پڑھتے وقت نظم کا حصہ چھوڑتا گیا تھا یہ اضطراری حرکت اوروں نے بھی کی ہوگی۔ یورپ کے مذاق کے مطابق پوری مثنوی یا اس کے حصہ غالب کو ضمیمہ کی حیثیت سے کتاب کا جزو ہونا تھا۔ لیکن ملک کا ادبی مذاق اس قدر گرا ہوا ہے کہ یہ خیال مشکل سے توجہ کے لائق ہے۔ اس کے سوا تنقیدی حیثیت سے کلام کے جن اجزا پر ریویو کی ضرورت تھی، ہر قسم کے نمونے لے لئے گئے ہیں اور بیاگرافر کا صرف اتنا ہی فرض تھا۔

آخر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ لٹریچر کا لطف اور اس کی دلچسپیاں انسان کی اخلاقی اور ادبی ترقی کی ممد ہوتی ہیں۔ ہم علامہ شبلی کے ممنون ہیں کہ ہم کو جلد جلد ان کے دماغی اکتشافات سے مستفید ہونے کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اور ہماری دلی خواہش ہے کہ موجودہ کتاب ان کی تصنیفات موعود کا صرف پیش رو ہوگی۔

آج کل کی کاروباری زندگی میں جب ہم کو مشرقی لٹریچر کی طرف توجہ کرنے کی بالکل فرصت نہیں ہے، صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ عربی فارسی لٹریچر کے بہترین اجزا عالمانہ تنقید و تقریظ کے ساتھ نئی نسل کے سامنے پیش کئے جائیں۔ اس طرح لٹریچر کا وہ حصہ جو جاننے کے لائق ہے، ہمیشہ کے لئے محفوظ رہ جائےگا۔ ملک میں ناقص لٹریچر کی مقدار اس قدر بڑھ رہی ہے کہ ضرورت ہے جوہرات کنکر پتھر سے علیحدہ کر لئے جائیں۔ حکماءنے انتخاب کے کچھ قاعدے بتائے ہیں جن میں ’’لارڈ بیکن‘‘ کا خیال بہت ہی چبھتا ہوا ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’بعض کتابیں صرف چکھنے کے لائق ہیں، کچھ نگلنے کے اور تھوڑی ایسی ہیں جو چبانے اور ہضم کرنے کی ہیں۔‘‘ شررؔ کے ناول پہلی شق میں ہیں۔ دن رات میں پندرہ منٹ محض ذائقہ علمی کے لئے۔ نگلنے کے لائق وہ تصنیفات ہیں جو کم سے کم ایک دفعہ پڑھی جائیں۔ (نام نہیں لوں گا، ادب مانع ہے) مگر چبانے اور ہضم کرنے کے لائق مجموعہ غیرفانی یعنی ’’تالیفات شبلی‘‘ ہیں جن میں مولانا رومؒ کی لائف ترتیباً آخر ہے لیکن بہ لحاظ اوصاف کسی سے پیچھے نہیں ہے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.