آدھا مزہ وصال کا پائے ہوئے تو ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آدھا مزہ وصال کا پائے ہوئے تو ہوں
by بوم میرٹھی

آدھا مزہ وصال کا پائے ہوئے تو ہوں
ننگا گلے سے تم کو لگائے ہوئے تو ہوں

گو لاکھ میں فراق میں کمزور ہو گیا
الفت کا بوجھ سر پر اٹھائے ہوئے تو ہوں

پورا پتا نہیں ہے کہ جاتے ہو کس جگہ
کچھ کچھ تمہارے بھید کو پائے ہوئے تو ہوں

تم پھر بھی کہہ رہے ہو کہ تسکیں نہیں ہوئی
حالانکہ سارا زور لگائے ہوئے تو ہوں

یہ کیا کہا کہ جان بچاتا ہے قتل سے
نطفہ حرام سر کو جھکائے ہوئے تو ہوں

دشمن کی چاپلوسی سے کچھ فائدہ نہیں
سالے کو بےوقوف بنائے ہوئے تو ہوں

کچھ کچھ وہ میرے قابو میں آئے ہوئے تو ہیں
کچھ کچھ میں ان کو داب میں لائے ہوئے تو ہوں

مانا کہ بومؔ بزم سخن میں مزہ نہیں
تھوڑا سا پھر بھی رنگ جمائے ہوئے تو ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse