آدمی آدمی سے ملتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آدمی آدمی سے ملتا ہے
by جگر مراد آبادی

آدمی آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہم سائیگی سے ملتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse