آخر یہ حسن چھپ نہ سکے گا نقاب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آخر یہ حسن چھپ نہ سکے گا نقاب میں
by اسماعیل میرٹھی

آخر یہ حسن چھپ نہ سکے گا نقاب میں
شرماؤ گے تمہیں نہ کرو ضد حجاب میں

پامال شوخیوں میں کرو تم زمین کو
ڈالوں فلک پے زلزلہ میں اضطراب میں

روشن ہے آفتاب کی نسبت چراغ سے
نسبت وہی ہے آپ میں اور آفتاب میں

دل کی گرہ نہ وا ہوئی درد شب وصال
گزری تمام بست و کشاد نقاب میں

جاں میں نے نامہ بر کے قدم پر نثار کی
تھا پیش پا فتادہ یہ مضموں جواب میں

ہنس ہنس کے برق کو تو ذرا کیجے بے قرار
رو رو کے ابر کو میں ڈبوتا ہوں آب میں

واعظ سے ڈر گئے کہ نہ شامل ہوئے ہم آج
ترتیب محفل مے و چنگ و رباب میں

ساقی ادھر تو دیکھ کہ ہم دیر‌ مست ہیں
کچھ مستی‌ٔ نگہ بھی ملا دے شراب میں

داخل نہ دشمنوں میں نہ احباب میں شمار
مد فضول ہوں میں تمہارے حساب میں

کس کس کے جور اٹھائیں گے آگے کو دیکھیے
دشمن ہے چرخ پیر زمان شباب میں

پیغامبر اشارۂ ابرو سے مر گیا
پھر جی اٹھے گا لب بھی ہلا دو جواب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse