آخر کو عشق کفر سے ایمان ہو گیا
Appearance
آخر کو عشق کفر سے ایمان ہو گیا
میں بت پرستیوں سے مسلمان ہو گیا
مے تو حلال ہے جو پئے ڈھب سے بادہ نوش
میں توبہ کر کے اور پشیمان ہو گیا
رندان بے ریا کی ہے صحبت کسے نصیب
زاہد بھی ہم میں بیٹھ کے انسان ہو گیا
اس غنچے میں سمائی ہے وحشت برنگ بو
دل کتنی تنگیوں پہ بیابان ہو گیا
لو اے بتو سنو کہ وہ داغؔ صنم پرست
مسجد میں جا کے آج مسلمان ہو گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |