آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے
by منیرؔ شکوہ آبادی

آخر کو راہ عشق میں ہم سر کے بل گئے
مشکل میں ہاتھ پاؤں ہمارے نکل گئے

کس کس کو یاد کر کے کوئی روئے اے فلک
آنکھوں کے آگے لاکھ زمانے بدل گئے

عشاق لکھنؤ کی کشش دیکھ اے مسیح
لندن کے خوب رو بھی فرنگی محل گئے

اپنا سراغ پوچھتے پھرتے ہیں موت سے
آفت زدوں کے ہجر میں نقشے بدل گئے

بدلو ردیف اور پڑھو شعر اے منیرؔ
کیا فائدہ جو اس کے قوافی بدل گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse