آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم
by حیدر علی آتش

آخر کار چلے تیر کی رفتار قدم
غیر منزل نہ پڑے راہ میں زنہار قدم

اٹھ گئے وصل کی شب پیشتر از یار قدم
آگے ہم عمر رواں سے بھی چلے چار قدم

کوئے مقصود سے یوں رکھتی ہے غفلت مجھے دور
جیسے سو جانے سے ہو جاتے ہیں بیکار قدم

اہل عالم میں ہوں میں زندوں میں مردوں کی طرح
بڑھ چلیں لاکھ مگر ساتھ ہیں دو چار قدم

ایک مدت سے رہ کعبہ میں آوارہ ہیں
کیا خدا کا مجھے دکھلائیں گے دیدار قدم

جوش وحشت میں بھی میں چڑھ کے نہ اس پر دوڑا
لے گئے حسرت خار سر دیوار قدم

صورت برگ خزاں جھڑتے ہیں ہر گام گناہ
جب اٹھاتے ہیں تری راہ میں زوار قدم

اے جنوں کوہ و بیابان بھی دکھلا مجھ کو
رہیں پستی و بلندی سے خبردار قدم

کوچہ گردی یہ شب و روز کی بے وجہ نہیں
ایڑیاں رگڑیں گے کس کے پس دیوار قدم

جادۂ راہ محبت کو خط مسطر جان
سر کے بل مثل قدم چل جو ہوں بیکار قدم

خاک بھی ہوں تو ہوں خاک در اس کا آتشؔ
جس کے تھے دوش پیمبر کے سزا وار قدم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse