آخر نہ چلی کوئی بھی تدبیر ہماری

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آخر نہ چلی کوئی بھی تدبیر ہماری
by میرزا الطاف حسین عالم لکھنوی

آخر نہ چلی کوئی بھی تدبیر ہماری
بن بن کے بگڑنے لگی تقدیر ہماری

یہ عشق کے ہاتھوں ہوئی توقیر ہماری
بازاروں میں بکنے لگی تصویر ہماری

اس طرح کے دن رات دکھاتی ہے کرشمے
تقدیر پس پردۂ تدبیر ہماری

جلدی نہ کرو دھار ہے خنجر پہ ابھی تو
ہو لینے دو ثابت کوئی تقصیر ہماری

کچھ خون کی چھینٹیں کہیں اشکوں کی نمی ہے
جاتی ہے عجب شان سے تحریر ہماری

ہر سمت دہک اٹھتی ہے اک آگ جہاں میں
لو دیتی ہے جب رات کو زنجیر ہماری

بس ڈال لو چہرے پہ نقاب اپنے خدارا
بے ربط ہوئی جاتی ہے تقریر ہماری

یہ کہتے ہی بس مر گیا ناکام محبت
تم بھی نہ ہمارے ہوئے تقدیر ہماری

عالمؔ فلک تفرقہ پرداز کا ڈر ہے
بنتے ہی بگڑ جائے نہ تقدیر ہماری

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse