آج کی رات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج کی رات
by مجاز لکھنوی

دیکھنا جذب محبت کا اثر آج کی رات
میرے شانے پہ ہے اس شوخ کا سر آج کی رات

اور کیا چاہئے اب اے دل مجروح تجھے
اس نے دیکھا تو بہ انداز دگر آج کی رات

پھول کیا خار بھی ہیں آج گلستاں بہ کنار
سنگریزے ہیں نگاہوں میں گہر آج کی رات

محو گلگشت ہے یہ کون مرے دوش بدوش
کہکشاں بن گئی ہر راہ گزر آج کی رات

پھوٹ نکلا در و دیوار سے سیلاب نشاط
اللہ اللہ مرا کیف نظر آج کی رات

شبنمستان تجلی کا فسوں کیا کہیے
چاند نے پھینک دیا رخت سفر آج کی رات

نور ہی نور ہے کس سمت اٹھاؤں آنکھیں
حسن ہی حسن ہے تا حد نظر آج کی رات

قصر گیتی میں امنڈ آیا ہے طوفان حیات
موت لرزاں ہے پس پردۂ در آج کی رات

اللہ اللہ وہ پیشانیٔ سیمیں کا جمال
رہ گئی جم کے ستاروں کی نظر آج کی رات

عارض گرم پہ وہ رنگ شفق کی لہریں
وہ مری شوخ نگاہی کا اثر آج کی رات

نرگس ناز میں وہ نیند کا ہلکا سا خمار
وہ مرے نغمۂ شیریں کا اثر آج کی رات

نغمہ و مے کا یہ طوفان طرب کیا کہیے
گھر مرا بن گیا خیامؔ کا گھر آج کی رات

میری ہر سانس پہ وہ ان کی توجہ کیا خوب
میری ہر بات پہ وہ جنبش سر آج کی رات

وہ تبسم ہی تبسم کا جمال پیہم
وہ محبت ہی محبت کی نظر آج کی رات

اف وہ وارفتگئ شوق میں اک وہم لطیف
کپکپائے ہوئے ہونٹوں پہ نظر آج کی رات

مذہب عشق میں جائز ہے یقیناً جائز
چوم لوں میں لب لعلیں بھی اگر آج کی رات

اپنی رفعت پہ جو نازاں ہیں تو نازاں ہی رہیں
کہہ دو انجم سے کہ دیکھیں نہ ادھر آج کی رات

ان کے الطاف کا اتنا ہی فسوں کافی ہے
کم ہے پہلے سے بہت درد جگر آج کی رات

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse