آج صیاد نے بھولے سے چمن دکھلایا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج صیاد نے بھولے سے چمن دکھلایا
by نسیم میسوری

آج صیاد نے بھولے سے چمن دکھلایا
میری تقدیر نے پھر مجھ کو وطن دکھلایا

عین مستی میں جو وہ شوخ ہوا سر کہ جبیں
یہ اڑے ہوش کہ نشے نے ہرن دکھلایا

جھٹ پٹا وقت ہوا موت کا ساماں شب وصل
سحر ہجر کا مردوں نے کفن دکھلایا

چاند کو دیکھتے ہیں لوٹتے انگاروں پر
تم نے کیوں کبک دری کو یہ چلن دکھلایا

آئے واللہ دل حیران میں کیا کچھ ارماں
اس نے آئینے کو تن تن کے جو تن دکھلایا

مرتے جیتے ہی رہے ہم تو اجی دم دم میں
نہ کمر اس نے دکھائی نہ دہن دکھلایا

یاد میں پھول سے گالوں کے سنبھالا دل کو
کبھی نسریں تو کبھی اس کو سمن دکھلایا

پھر ترا شور تبسم جو نمک ریز ہوا
پھر مرا تازہ مجھے زخم کہن دکھلایا

کل جو تھا وعدۂ وصل آج وہ فردا نکلا
دن قیامت کا تو اے وعدہ شکن دکھلایا

کیوں نہ میں خار بنوں چشم رقیباں میں نسیمؔ
پھول سے گال مجھے غنچہ دہن دکھلایا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse