آج سنتے ہیں کہ میرے گھر وہ یار آنے کو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج سنتے ہیں کہ میرے گھر وہ یار آنے کو ہے
by جمیلہ خدا بخش

آج سنتے ہیں کہ میرے گھر وہ یار آنے کو ہے
اپنے قابو میں دل بے اختیار آنے کو ہے

بلبلیں ہیں نغمہ زن پھولا ہوا ہے باغباں
باغ میں کھلتی ہیں کلیاں کیا بہار آنے کو ہے

دیکھتا ہوں چشم نرگس آج شرمائی ہوئی
کیا تمہاری دید کا امیدوار آنے کو ہے

مثل تصویر خیالی مرغ بستاں ہیں خموش
باغباں گلشن میں کوئی دل فگار آنے کو ہے

اے جمیلہؔ فصل گل آئی چلا صحرا کو میں
میہماں بن کر مرے تلووں میں خار آنے کو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse