آج دل بے قرار ہے میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج دل بے قرار ہے میرا
by ولی عزلت

آج دل بے قرار ہے میرا
کس کے پہلو میں یار ہے میرا

کیوں نہ عشاق پر ہوؤں منصور
جوں سپند آہ دار ہے میرا

بے قرار اس کا ہوں گا حشر میں بھی
یہی اس سے قرار ہے میرا

رنگ زرد اور سرشک سرخ تو دیکھ
کیا خزاں میں بہار ہے میرا

میرے قاتل کے کف حنائی نہیں
مشت خوں یادگار ہے میرا

کھول کر قبر دیکھ مشق جنوں
کہ کفن تار تار ہے میرا

آتے جاتے مگر تو ٹھکراوے
تیرے در پر مزار ہے میرا

آنکھ موندے ہے میری خاک سے بھی
یاں تک اس کو غبار ہے میرا

جیتے رہو کیوں ہوئے رقیب کے ہار
یہی سینے میں خار ہے میرا

تیرے کوچے کے سگ کی پا بوسی
باعث افتخار ہے میرا

بندۂ یار عزلتؔ مرحوم
نقش لوح مزار ہے میرا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse