آج تک دل کی آرزو ہے وہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج تک دل کی آرزو ہے وہی
by جلیل مانکپوری

آج تک دل کی آرزو ہے وہی
پھول مرجھا گیا ہے بو ہے وہی

سو بہاریں جہاں میں آئی گئیں
مایۂ صد بہار تو ہے وہی

جو ہو پوری وہ آرزو ہی نہیں
جو نہ پوری ہو آرزو ہے وہی

مان لیتا ہوں تیرے وعدے کو
بھول جاتا ہوں میں کہ تو ہے وہی

تجھ سے سو بار مل چکے لیکن
تجھ سے ملنے کی آرزو ہے وہی

صبر آ جائے اس کی کیا امید
میں وہی، دل وہی ہے، تو ہے وہی

ہو گئی ہے بہار میں کچھ اور
ورنہ ساغر وہی سبو ہے وہی

عمر گزری تلاش میں لیکن
گرمیٔ ہائے جستجو ہے وہی

مے کدہ کا جلیلؔ رنگ نہ پوچھ
رقص جام و خم و سبو ہے وہی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.