آج بدلی ہے ہوا ساقی پلا جام شراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
آج بدلی ہے ہوا ساقی پلا جام شراب
by داؤد اورنگ آبادی

آج بدلی ہے ہوا ساقی پلا جام شراب
برس کالی وعدہ جاتے ہیں برس کالے سحاب

آرسی سوں اب شراب ناب کھینچا چاہئے
نیند سوں اٹھ یار نے دیکھا ہے چشم نیم خواب

صاف دل ہو گر ہے تجھ کوں خواہش ترک ہوا
آب آئینہ اوپر آتا نہیں ہرگز حباب

صورت مہتاب رو ظاہر ہے میرے اشک سوں
جلوہ گر جیوں آب دریا میں ہے عکس ماہتاب

ہر کتاب صحبت رنگیں کے معنی دیکھ کر
فرد تنہائی کے مضموں کوں کیا ہوں انتخاب

صاحب معنی کیا ہے حق مجھے روز بنا
پوستیں جامہ ہے میرے بر منے مثل کتاب

خیمۂ گل باغ میں برپا ہے اے داؤدؔ آج
تن رہی ہے دیکھ کیا آواز بلبل کی طناب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse